Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَلنَّبِىُّ اَوۡلٰى بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ‌ وَاَزۡوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمۡ‌ ؕ وَاُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلٰى بِبَعۡضٍ فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰٓى اَوۡلِيٰٓٮِٕكُمۡ مَّعۡرُوۡفًا‌ ؕ كَانَ ذٰ لِكَ فِى الۡكِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا‏ ﴿6﴾
پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں اور رشتہ دار کتاب اللہ کی رو سے بہ نسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حقدار ہیں ( ہاں ) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو یہ حکم کتاب ( الٰہی ) میں لکھا ہوا ہے ۔
النبي اولى بالمؤمنين من انفسهم و ازواجه امهتهم و اولوا الارحام بعضهم اولى ببعض في كتب الله من المؤمنين و المهجرين الا ان تفعلوا الى اوليىكم معروفا كان ذلك في الكتب مسطورا
The Prophet is more worthy of the believers than themselves, and his wives are [in the position of] their mothers. And those of [blood] relationship are more entitled [to inheritance] in the decree of Allah than the [other] believers and the emigrants, except that you may do to your close associates a kindness [through bequest]. That was in the Book inscribed.
Payghumber momino per khud unn say bhi ziyada haq rakhney walay hain aur payghumber ki biwiyan momino ki maayen hain aur rishtay daar kitabullah ki roo say ba-nisbat doosray momino aur mohajiron kay aapas mein ziyada haq daar hain ( haan ) magar yeh kay tum apnay doston kay sath husn-e-salook kerna chahao. Yeh hukum kitab ( elahee ) mein likha hua hai.
ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں ، اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔ اس کے باوجود اللہ کی کتاب کے مطابق پیٹ کے رشتہ دارو دوسرے مومنوں اور مہاجرین کے مقابلے میں ایک دوسرے پر ( میراث کے معاملے میں ) زیادہ حق رکھتے ہیں ( ٧ ) الا یہ کہ تم اپنے دوستوں ( کے حق میں کوئی وصیت کر کے ان ) کے ساتھ کوئی نیکی کرلو ۔ یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے ۔
یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے ( ف۱٤ ) اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں ( ف۱۵ ) اور رشتہ والے اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں ( ف۱٦ ) بہ نسبت اور مسلمانوں اور مہاجروں کے ( ف۱۷ ) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرو ( ف۱۸ ) یہ کتاب میں لکھا ہے ( ف۱۹ )
بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہے 12 ، اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں 13 ، مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی ( کرنا چاہو تو ) کر سکتے ہو 14 یہ حکم کتاب الہی میں لکھا ہوا ہے ۔
یہ نبیِ ( مکرّم ) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ ( مطہّرات ) اُن کی مائیں ہیں ، اور خونی رشتہ دار اللہ کی کتاب میں ( دیگر ) مومنین اور مہاجرین کی نسبت ( تقسیمِ وراثت میں ) ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو ، یہ حکم کتابِ ( الٰہی ) میں لکھا ہوا ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :12 یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلقات سے ایک بالا تر نوعیت رکھتا ہے ۔ کوئی رشتہ اس رشتے سے اور کوئی تعلق اس تعلق سے جو نبی اور اہل ایمان کے درمیان ہے ، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں ۔ ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ، ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں ، ان کو گمراہ کر سکتے ہیں ، ان سے غلطیوں کا ارتکاب کرا سکتے ہیں ، ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں ، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیں جس میں ان کی حقیقی فلاح ہو ۔ وہ خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار سکتے ہیں ، حماقتیں کر کے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر سکتے ہیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقعی ان کے حق میں نافع ہو ۔ اور جب معاملہ یہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں ، دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے محبت رکھیں ، اپنی رائے پر آپ کی رائے کو اور اپنے فیصلے پر آپ کے فیصلے کو مقدم رکھیں ، اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیں ۔ اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے کہ لا یؤمن احدُکم حتیٰ اکونَ احبَّ الیہ من والدہ و ولدہ والنّاس اجمعین ۔ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو اس کے باپ اور اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :13 اسی خصوصیت کی بنا پر جو اوپر مذکور ہوئی ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی ماں نہیں ہیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اسی طرح ان کے لیے حرام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں حرام ہیں ۔ یہ مخصوص معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دنیا میں اور کسی انسان کے ساتھ نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف اس معنی میں اُمہاتِ مومنین ہیں کہ ان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح نہیں ہو سکتا تھا ۔ باقی دوسرے احکام میں وہ ماں کی طرح نہیں ہیں ۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتہ داروں کے سوا باقی سب مسلمان ان کے لیے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا ۔ ان کی صاحبزادیاں مسلمانوں کے لیے ماں جائی بہنیں نہ تھیں کہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہوتا ۔ ان کے بھائی بہن مسلمانوں کے لیے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے ۔ ان سے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رو سے یہ مرتبہ تمام ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جن میں لا محالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں ۔ لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما اور ان کی اولاد کو مرکز دین بنا کر سارا نظام دین انہی کے گرد گھما دیا ، اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی ہدف لعن و طعن بنایا ، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہو گئی جس کی رو سے ہر اس شخص کو انہیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو ۔ آخر کار اس شکل کو رفع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیت پر باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں ۔ ابو منصور احمد بن ابو طالب طَبْرَسِی نے کتاب الاحتجاج میں یہ بات لکھی ہے اور سلیمان بن عبد اللہ البحرانی نے اسے نقل کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : یا ابا الحَسَنَ انّ ھٰذا الشرف باقٍ ما دُمنا علیٰ طاعۃ اللہ تعالیٰ فایّتھن عصت اللہ تعالیٰ بعدی بالخروج علیک فطلّقھا من الازواج واسقطھا من شرف امّھات المؤمنین ، ( اے ابوالحسَن ! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں ۔ لہٰذا میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تو طلاق دے دیجیو اور اس کو اُمّہات المؤمنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو ) ۔ اصول روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سراسر بے اصل ہے ہی لیکن اگر آدمی اسی سُورۂ احزاب کی آیات ۲۸ ۔ ۲۹ اور ۵۱ ۔ ۵۲ پر غور کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے ۔ کیونکہ آیت تخییر کے بعد جن ازواج مطہرات نے ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی رفاقت کو اپنے لیے پسند کیا تھا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی نہ رہا تھا ۔ اس مضمون کی تشریح آگے حاشیہ نمبر٤۲ و ۹۳ میں ہم نے کر دی ہے ۔ علاوہ بریں ایک غیر متعصب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس رویت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو ، اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے ۔ رسول کا مقام تو بہت بالاتر و برتر ہے ، ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے تو اسے طلاق دے دیجیو ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل البیت کی محبت کے مدعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزت و ناموس کا پاس کتنا کچھ ہے ، اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :14 اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے ، ان کے ساتھ تو مسلمانوں کے تعلق کی نوعیت سب سے الگ ہے ۔ لیکن عام مسلمانوں کے درمیان آپس کے تعلقات اس اصول پر قائم ہوں گے کہ رشتہ داروں کے حقوق ایک دوسرے پر عام لوگوں کی بہ نسبت مقدم ہیں ۔ کوئی خیرات اس صورت میں صحیح نہیں ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ ، بال بچوں ، اور بھائی بہنوں کی ضروریات تو پوری نہ کرے اور باہر خیرات کرتا پھرے ۔ زکوٰۃ سے بھی آدمی کو پہلے اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کرنی ہو گی ، پھر وہ دوسرے مستحقین کو دے گا ۔ میراث لازماً ان لوگوں کو پہنچے گی جو رشتے میں آدمی سے قریب تر ہوں ۔ دوسرے لوگوں کو اگر وہ چاہے تو ہبہ یا وقف یا وصیت کے ذریعہ سے اپنا مال دے سکتا ہے ، مگر اس طرح نہیں کہ وارث محروم رہ جائیں اور سب کچھ دوسروں کو دے ڈالا جائے ۔ اس حکم الٰہی سے وہ طریقہ بھی موقوف ہو گیا جو ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنے سے شروع ہوا تھا ، جس کی رو سے محض دینی برادری کے تعلق کی بنا پر مہاجرین اور انصار ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ وراثت تو رشتہ داری کی بنا پر ہی تقسیم ہو گی ، البتہ ایک شخص ہدیے ، تحفے یا وصیت کے ذریعہ سے اپنے کسی دینی بھائی کی کوئی مدد کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ۔
تکمیل ایمان کی ضروری شرط چونکہ رب العزت وحدہ لاشریک کو علم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر خود ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ مہربان ہیں ۔ اس لئے آپ کو ان کی اپنی جان سے بھی انکا زیادہ اختیاردیا ۔ یہ خود اپنے لئے کوئی تجویز نہ کریں بلکہ ہر حکم رسول کو بدل وجان قبول کرتے جائیں جیسے فرمایا آیت ( فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65؀ ) 4- النسآء:65 ) ، تیرے رب کی قسم یہ مومن نہ ہونگے جب تک کہ اپنے آپس کے تمام اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں اور تیرے تمام تر احکام اور فیصلوں کو بدل وجان بکشادہ پیشانی قبول نہ کرلیں ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی باایمان نہیں ہوسکتا ۔ جب تک کہ میں اسے اس کے نفس سے اس کے مال سے اسکی اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔ ایک اور صحیح حدیث میں ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یارسول اللہ آپ مجھے تمام جہان سے زیادہ محبوب ہیں لیکن ہاں خود میرے اپنے نفس سے ۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں عمر جب تک کہ میں تجھے خود تیرے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں ۔ یہ سن کر جناب فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے قسم اللہ کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے ہر چیز سے یہاں تک کہ میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں آپ نے فرمایا اب ٹھیک ہے ۔ بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمام مومنوں کا زیادہ حقدار دنیا اور آخرت میں خود ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ میں ہوں ۔ اگر تم چاہو تو پڑھ لو آیت ( اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا Č۝ ) 33- الأحزاب:6 ) سنو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے اس کا مال تو اس کے وارثوں کا حصہ ہے ۔ اور اگر کوئی مرجائے اور اسکے ذمہ قرض ہو یا اس کے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہوں تو اس کے قرض کی ادائیگی کا میں ذمہ دار ہوں اور ان بچوں کی پرورش میرے ذمے ہے ۔ پھر فرماتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات حرمت اور احترام میں عزت اور اکرام میں بزرگی اور عظام میں تمام مسلمانوں میں ایسی ہیں جیسی خود کی اپنی مائیں ۔ ہاں ماں کے اور احکام مثلا خلوت یا ان کی لڑکیوں اور بہنوں سے نکاح کی حرمت یہاں ثابت نہیں گو بعض علماء نے ان کی بیٹیوں کو بھی مسلمانوں کی بہنیں لکھاہے جیسے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے مختصر میں نصاً فرمایا ہے لیکن یہ عبارت کا اطلاق ہے نہ حکم کا اثبات ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کو جو کسی نہ کسی ام المومنین کے بھائی تھے انہیں ماموں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تو کہا ہے کہہ سکتے ہیں ۔ رہی یہ بات کہ حضور صلي الله عليه وسلم کو ابو المومنین بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ خیال رہے کہ ابو المومنین کہنے میں مسلمان عورتیں بھی آجائیں گی جمع مذکر سالم میں باعتبار تغلیب کے مونث بھی شامل ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے کہ نہیں کہہ سکتے امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قولوں میں بھی زیادہ صحیح قول یہی ہے ۔ ابی بن کعب اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی قرأت میں امھاتھم کے بعد یہ لفظ ہیں وھو اب لھم یعنی آپ ان کے والد ہیں ۔ مذہب شافعی میں بھی ایک قول یہی ہے ۔ اور کچھ تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا میں تمہارے لے قائم مقام باپ کے ہوں میں تمہیں تعلیم دے رہا ہوں سنو تم میں سے جب کوئی پاخانے میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرکے نہ بیٹھے ۔ نہ اپنے داہنے ہاتھ سے ڈھیلے لے نہ داہنے ہاتھ سے استنجاکرے ۔ آپ تین ڈھیلے لینے کا حکم دیتے تھے اور گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے کی ممانعت فرماتے تھے ( نسائی وغیرہ ) میں دوسرا قول یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو باپ نہ کہا جائے کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت ( مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 40؀ۧ ) 33- الأحزاب:40 ) حضور تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ بہ نسبت عام مومنوں مہاجرین اور انصار کے ورثے کے زیادہ مستحق قرابتدار ہیں ۔ اس سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار میں جو بھائی چارہ کرایا تھا اسی کے اعتبار سے یہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے اور قسمیں کھا کر ایک دوسروں کے جو حلیف بنے ہوئے تھے وہ بھی آپس میں ورثہ بانٹ لیا کرتے تھے ۔ اس کو اس آیت نے منسوخ کردیا ۔ پہلے اگر انصاری مرگیا تو اس کے وارث اس کی قرابت کے لوگ نہیں ہوتے تھے بلکہ مہاجر ہوتے تھے جن کے درمیان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی چارہ کرادیا تھا ۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ یہ حکم خاص ہم انصاری ومہاجرین کے بارے میں اترا ہم جب مکہ چھوڑ کر مدینے آئے تو ہمارے پاس مال کچھ نہ تھا یہاں آکر ہم نے انصاریوں سے بھائی چارہ کیا یہ بہترین بھائی ثابت ہوئے یہاں تک کہ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کے مال کے وارث بھی ہوتے تھے ۔ حضرت ابو بکر کا بھائی چارہ حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فلاں کے ساتھ ۔ حضرت عثمان کا ایک زرقی شخص کے ساتھ ۔ خود میرا حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ۔ یہ زخمی ہوئے اور زخم بھی کاری تھے اگر اس وقت ان کا انتقال ہوجاتا تو میں بھی ان کا وارث بنتا ۔ پھر یہ آیت اتری اور میراث کا عام حکم ہمارے لئے بھی ہوگیا ۔ پھر فرماتا ہے ورثہ تو ان کا نہیں لیکن ویسے اگر تم اپنے مخلص احباب کے ساتھ سلوک کرنا چاہو تو تمہیں اخیتار ہے ۔ وصیت کے طور پر کچھ دے دلا سکتے ہو ۔ پھر فرماتا ہے اللہ کا یہ حکم پہلے ہی سے اس کتاب میں لکھا ہوا تھا جس میں کوئی ترمیم وتبدیلی نہیں ہوئی ۔ بیچ میں جو بھائی چارے پر ورثہ بٹتا تھا یہ صرف ایک خاص مصلحت کی بنا پر خاص وقت تک کے لئے تھا اب یہ ہٹا دیا گیا اور اصلی حکم دے دیا گیا واللہ اعلم ۔