Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِيّٖنَ مِيۡثَاقَهُمۡ وَمِنۡكَ وَمِنۡ نُّوۡحٍ وَّاِبۡرٰهِيۡمَ وَمُوۡسٰى وَعِيۡسَى ابۡنِ مَرۡيَمَ وَاَخَذۡنَا مِنۡهُمۡ مِّيۡثاقًا غَلِيۡظًا ۙ‏ ﴿7﴾
جب کہ ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا اور ( بالخصوص ) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے ، اور ہم نے ان سے ( پکا اور ) پختہ عہد لیا ۔
و اذ اخذنا من النبين ميثاقهم و منك و من نوح و ابرهيم و موسى و عيسى ابن مريم و اخذنا منهم ميثاقا غليظا
And [mention, O Muhammad], when We took from the prophets their covenant and from you and from Noah and Abraham and Moses and Jesus, the son of Mary; and We took from them a solemn covenant.
Jabkay hum ney tamam nabiyon say ehad liya aur ( bil-khusoos ) aap say aur nooh say aur ibrahim say aur musa say aur mariyam kay betay essa say aur hum ney unn say ( pakka aur ) pukhta ehad liya.
اور ( اے پیغمبر ) وہ وقت یاد رکھو جب ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا تھا اور تم سے بھی ، اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی ۔ اور ہم نے ان سے نہایت پختہ عہد لیا تھا ۔ ( ٨ )
اور اے محبوب! یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا ( ف۲۰ ) اور تم سے ( ف۲۱ ) اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ ٰ اور عیسیٰ بن مریم سے اور ہم نے ان سے گاڑھا عہد لیا ،
اور ( اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ) یاد رکھو اس عہد و پیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے ، تم سے بھی اور نوح ( علیہ السلام ) اور ابراہیم ( علیہ السلام ) اور موسی ( علیہ السلام ) اور عیسی ( علیہ السلام ) ابن مریم سے بھی ۔ سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں 15
اور ( اے حبیب! یاد کیجئے ) جب ہم نے انبیاء سے اُن ( کی تبلیغِ رسالت ) کا عہد لیا اور ( خصوصاً ) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور عیسٰی ابن مریم ( علیھم السلام ) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :15 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات یاد دلاتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی طرح آپ سے بھی اللہ تعالیٰ ایک پختہ عہد لے چکا ہے جس کی آپ کو سختی کے ساتھ پابندی کرنی چاہیے ۔ اس عہد سے کونسا عہد مراد ہے ؟ اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آر ہا ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سے مراد یہ عہد ہے کہ پیغمبر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی خود اطاعت کرے گا اور دوسروں سے کرائے گا ، اللہ کی باتوں کو بےکم و کاست پہنچائے گا اور انہیں عملاً نافذ کرنے کی سعی و جہد میں کوئی دریغ نہ کرے گا ۔ قرآن مجید میں اس عہد کا ذکر متعدد مقامات پر کیا گیا ہے ۔ مثلاً: شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوْحاً وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ۔ ط ( الشُورٰی ۔ آیت ۱۳ ) اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا تمہارے لیے وہ دین جس کی ہدایت کی تھی اس نے نوح ( علیہ السلام ) کو ، اور جس کی وحی کی گئی ( اے محمد ) تمہاری طرف ، اور جس کی ہدایت کی گئی ابراہیم ( علیہ السلام ) اور موسیٰ ( علیہ السلام ) اور عیسیٰ ( علیہ السلام ) کو ۔ اس تاکید کے ساتھ کہ تم لوگ قائم کرو اس دین کو اور اس میں تفرقہ نہ کرو ۔ وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَہٗ ۔ ق ( آل عمران ۔ ۱۸۷ ) اور یاد کرو اس بات کو کہ اللہ نے عہد لیا تھا ان لوگوں سے جن کو کتاب دی گئی تھی کہ تم لوگ اس کی تعلیم کو بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں ۔ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ ۔ ( البقرہ ۔ ۸۳ ) اور یاد کرو کہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو گے ۔ اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خُذُوْا مَٓا اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ oع ( الاعراف ۔ آیات ۱٦۹ ۔ ۱۷۱ ) کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا گیا تھا ؟ ۔ ۔ ۔ مضبوطی کے سا تھ تھامو اس چیز کو جو ہم نے تمہیں دی ہے اور یاد رکھو اس ہدایت کو جو اس میں ہے ۔ توقع ہے کہ تم اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو گے ۔ وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہ o اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( المائدہ ۔ ۷ ) اور اے مسلمانو! یاد رکھو اللہ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر کیا ہے اور اس عہد کو جو اس نے تم سے لیا ہے جبکہ تم نے کہا ہم نے سنا اور اطاعت کی ۔ اس عہد کو اس سیاق و سباق میں اللہ تعالیٰ جس وجہ سے یاد دلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شماتت اعداء کے اندیشے سے منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کی رسم کو توڑتے ہوئے جھجک رہے تھے ۔ آپ کو بار بار یہ شرم لاحق ہو رہی تھی کہ معاملہ ایک خاتون سے شادی کرنے کا ہے ۔ میں خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ محض اصلاح معاشرہ کی خاطر یہ کام کروں ، مگر دشمن یہی کہیں گے کہ یہ کام دراصل نفس پرستی کی خاطر کیا گیا ہے اور مصلح کا لبادہ اس شخص نے محض فریب دینے کے لیے اوڑھ رکھا ہے ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ تم ہمارے مقرر کیے ہوئے پیغمبر ہو ، تمام پیغمبروں کی طرح تم سے بھی ہمارا یہ پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی حکم ہم دیں گے اس کو خود بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے ، لہٰذا تم کسی کے طعن و تشنیع کی پروا نہ کرو ، کسی سے شرم اور خوف نہ کرو ، اور خدمت ہم تم سے لینا چاہتے ہیں اسے بِلا تأمّل انجام دو ۔ ایک گروہ اس میثاق سے وہ میثاق مراد لیتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام انبیاء اور ان کی امتوں سے اس بات کے لیے لیا گیا تھا کہ وہ بعد کے آنے والے نبی پر ایمان لائیں گے اور اس کا ساتھ دیں گے ۔ اس تاویل کی بنیاد پر اس گروہ کا دعویٰ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ میثاق لیا گیا ہے کہ آپ کے بعد جو نبی آئے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی امت اس پر ایمان لائے گی ۔ لیکن آیت کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے کہ یہ تاویل بالکل غلط ہے ۔ جس سلسلۂ کلام میں یہ آیت آئی ہے اس میں یہ کہنے کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور آپ کی امت کو ان پر ایمان لانا چاہیے ۔ یہ مفہوم اس کا لیا جائے تو یہ آیت یہاں بالکل بے محل ہو جاتی ہے ۔ علاوہ بریں آیت کے الفاظ میں کوئی صراحت ایسی نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ یہاں میثاق سے کونسا میثاق مراد ہے ۔ لامحالہ اس کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے ہم کو قرآن مجید کے دوسرے مقامات کی طرف رجوع کرنا ہو گا جہاں انبیاء سے لیے ہوئے مواثیق کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اب اگر سارے قرآن میں صرف ایک ہی میثاق کا ذکر ہوتا اور وہ بعد کے آنے والے انبیاء پر ایمان لانے کے بارے میں ہوتا تو یہ خیال کرنا درست ہوتا کہ یہاں بھی میثاق سے مراد ہی میثاق ہے ۔ لیکن قرآن پاک کو جس شخص نے بھی آنکھیں کھول کر پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کتاب میں بہت سے میثاقوں کا ذکر ہے جو انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں سے لیے گئے ہیں ۔ لہٰذا ان مختلف مواثیق میں سے وہ میثاق یہاں مراد لینا صحیح ہو گا جو اس سیاق و سباق سے مناسبت رکھتا ہو ، نہ کہ وہ میثاق جس کے ذکر کا یہاں کوئی موقع نہ ہو ۔ اسی طرح کی غلط تاویلوں سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ بعض لوگ قرآن سے ہدایت لینے نہیں بیٹھتے بلکہ اسے ہدایت دینے بیٹھ جاتے ہیں ۔
میثاق انبیاء فرمان ہے کہ ان پانچوں اولوالعزم پیغمبروں سے اور عام نبیوں سے سب سے ہم نے عہد وعدہ لیا کہ وہ میرے دین کی تبلیغ کریں گے اس پر قائم رہیں گے ۔ آپس میں ایک دوسرے کی مدد امداد اور تائید کریں گے اور اتفاق واتحاد رکھیں گے ۔ اسی عہد کا ذکر اس آیت میں ہے ( وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ 81؀ ) 3-آل عمران:81 ) یعنی اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے قول قرار لیا کہ جو کچھ کتاب وحکمت دے کر میں تمیں بھیجوں پھر تمہارے ساتھ کی چیز کی تصدیق کرنے والا رسول آجائے تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور اس کی امداد کرنا ۔ بولو تمہیں اس کا اقرار ہے؟ اور میرے سامنے اس کا پختہ وعدہ کرتے ہیں؟ سب نے جواب دیا کہ ہاں ہمیں اقرار ہے ۔ جناب باری تعالی نے فرمایا بس اب گواہ رہنا اور میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ۔ یہاں عام نبیوں کا ذکر کرکے پھر خاص جلیل القدر پیغمبروں کا نام بھی لے دیا ۔ اسی طرح ان کے نام اس آیت میں بھی ہیں ( شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ 13؀ ) 42- الشورى:13 ) یہاں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے جو زمین پر اللہ کے پہلے پیغمبر تھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے جو سب سے آخری پیغمبر تھے ۔ اور ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ علیھم السلام کا ذکر ہے جو درمیانی پیغمبر تھے ۔ ایک لطافت اس میں یہ ہے کہ پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام کے بعد کے پیغمبر حضرت نوحعلیہ السلام کا ذکر کیا اور آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے پیغمبر حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر کیا اور درمیانی پیغمبروں میں سے حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کا ذکر کیا ۔ یہاں تو ترتیب یہ رکھی کہ فاتح اور خاتم کا ذکر کرکے بیچ کے نبیوں کا بیان کیا اور اس آیت میں سب سے پہلے خاتم الانیباء کا نام لیا اس لئے کہ سب سے اشرف وافضل آپ ہی ہیں ۔ پھر یکے بعد دیگرے جس طرح آئے ہیں اسی طرح ترتیب وار بیان کیا اللہ تعالیٰ اپنے تمام نبیوں پر اپنا درود وسلام نازل فرمائے ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ پیدائش کے اعتبار سے میں سب نبیوں سے پہلے ہوں اور دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آخر میں ہوں پس مجھ سے ابتدا کی ہے ۔ یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن اس کے ایک راوی سعید بن بشیر ضعیف ہیں ۔ اور سند سے یہ مرسل مروی ہے اور یہی زیادہ مشابہت رکھتی ہے اور بعض نے اسے موقوف روایت کی ہے واللہ اعلم ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ پانچ پیغمبر ہیں ۔ نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ، اور محمد صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین اور ان میں بھی سب سے بہترمحمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اس کا ایک راوی ضعیف ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں جس عہد ومیثاق کا ذکر ہے یہ وہ ہے جو روز ازل میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے تمام انسانوں کو نکال کرلیا تھا ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو بلند کیا گیا آپ نے اپنی اولاد کو دیکھا ان میں مالدار مفلس خوبصورت اور ہر طرح کے لوگ دیکھے تو کہا اللہ کیا اچھا ہوتا کہ تونے ان سب کو برابر ہی رکھا ہوتا اللہ تعالیٰ عزوجل جلالہ نے فرمایا کہ یہ اس لئے ہے کہ میرا شکر ادا کیا جائے ۔ ان میں جو انبیاء کرام علیھم السلام تھے انہیں بھی آپ نے دیکھا وہ روشنی کے مانند نمایاں تھے ان پر نور برس رہا تھا ان سے نبوت ورسالت کا ایک اور خاص عہد لیا گیا تھا جس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ صادقوں سے ان کے صدق کا سوال ہو یعنی ان سے جو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہنچانے والے تھے ۔ ان کی امتوں میں سے جو بھی ان کو نہ مانے اسے سخت عذاب ہوگا ۔ اے اللہ تو گواہ رہ ہماری گواہی ہے ہم دل سے مانتے ہیں کہ بیشک تیرے رسولوں نے تیرا پیغام تیرے بندوں کو بلا کم وکاست پہنچا دیا ۔ انہوں نے پوری خیر خواہی کی اور حق کو صاف طور پر نمایاں طریقے سے واضح کردیا جس میں کوئی پوشیدگی کوئی شبہ کسی طرح کا شک نہ رہا گو بدنصیب ضدی جھگڑالو لوگوں نے انہیں نہ مانا ۔ ہمارا ایمان ہے کہ تیرے رسولوں کی تمام باتیں سچ اور حق ہیں اور جس نے ان کی راہ نہ پکڑی وہ گمراہ اور باطل پر ہے ۔