Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِذۡ قَالَتۡ طَّآٮِٕفَةٌ مِّنۡهُمۡ يٰۤـاَهۡلَ يَثۡرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمۡ فَارۡجِعُوۡا‌ ۚ وَيَسۡتَاۡذِنُ فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمُ النَّبِىَّ يَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ بُيُوۡتَنَا عَوۡرَة‌ٌ  ‌ۛؕ وَمَا هِىَ بِعَوۡرَةٍ  ۛۚ اِنۡ يُّرِيۡدُوۡنَ اِلَّا فِرَارًا‏ ﴿13﴾
ان ہی کی ایک جماعت نے ہانک لگائی کہ اے مدینہ والو!تمہارے لئے ٹھکانا نہیں چلو لوٹ چلو اور ان کی ایک اورجماعت یہ کہہ کر نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اجازت مانگنے لگی ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ ( کھلے ہوئے اور ) غیر محفوظ نہ تھے ( لیکن ) ان کا پختہ ارادہ بھاگ کھڑے ہونے کا تھا ۔
و اذ قالت طاىفة منهم ياهل يثرب لا مقام لكم فارجعوا و يستاذن فريق منهم النبي يقولون ان بيوتنا عورة و ما هي بعورة ان يريدون الا فرارا
And when a faction of them said, "O people of Yathrib, there is no stability for you [here], so return [home]." And a party of them asked permission of the Prophet, saying, "Indeed, our houses are unprotected," while they were not exposed. They did not intend except to flee.
Inn hi ki aik jamaat ney haank lagaee kay aey madina walon! Tumharay liye thikana nahi chalo lot chalo aur inn ki aik aur jamaat yeh keh ker nabi say ijazat maangney lagi kay humaray ghar ghair mehfooz hain halankay woh ( khullat huyey aur ) ghair mehfooz na thay ( lekin ) unn ka pukhta iradah bhaag kharay honey ka tha.
اور جب انہی میں سے کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ : یثرت کے لوگو ! تمہارے لیے یہاں ٹھہرے کا کوئی موقع نہیں ہے ، بس واپس لوٹ جاؤ ۔ اور انہی میں سے کچھ لوگ نبی سے یہ کہہ کر ( گھر جانے کی ) اجازت مانگ رہے تھے کہ : ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں ( ١٤ ) حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں تھے ، بلکہ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ ( کسی طرح ) بھاگ کھڑے ہوں ۔
اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا ( ف۳۵ ) اے مدینہ والو! ( ف۳٦ ) یہاں تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں ( ف۳۷ ) تم گھروں کو واپس چلو اور ان میں سے ایک گروہ ( ف۳۸ ) نبی سے اذن مانگتا تھا یہ کہہ کر ہمارے گھر بےحفاظت ہیں ، اور وہ بےحفاظت نہ تھے ، وہ تو نہ چاہتے تھے مگر بھاگنا ،
جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ اے یثرب کے لوگو ، تمہارے لیے اب ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں ہے ، پلٹ چلو 23 ۔ جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے رخصت طلب کر رہا تھا کہ ہمارے گھر خطرے میں ہیں 24 ، حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے 25 ، دراصل وہ ( محاذ جنگ سے ) بھاگنا چاہتے تھے ۔
اور جبکہ اُن میں سے ایک گروہ کہنے لگا: اے اہلِ یثرب! تمہارے ( بحفاظت ) ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں رہی ، تم واپس ( گھروں کو ) چلے جاؤ ، اور ان میں سے ایک گروہ نبی ( اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے یہ کہتے ہوئے ( واپس جانے کی ) اجازت مانگنے لگا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں ، حالانکہ وہ کھلے نہ تھے ، وہ ( اس بہانے سے ) صرف فرار چاہتے تھے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :23 اس فقرے کے دو مطلب ہیں ۔ ظاہری مطلب یہ ہے کہ خندق کے سامنے کفار کے مقابلے پر ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں ہے ، شہر کی طرف پلٹ چلو ۔ اور باطنی مطلب یہ ہے کہ اسلام پر ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں ہے ، اب اپنے آبائی مذہب کی طرف پلٹ جانا چاہیے تاکہ سارے عرب کی دشمنی مول لے کر ہم نے جس خطرے میں اپنے آپ کو ڈال دیا ہے اس سے بچ جائیں ۔ منافقین اپنی زبان سے اس طرح کی باتیں اس لیے کہتے تھے کہ جو ان کے دام میں آ سکتا ہو اس کو تو اپنا باطنی مطلب سمجھا دیں ، لیکن جو ان کی بات سن کر چوکنا ہو اور اس پر گرفت کرے اس کے سامنے اپنے ظاہر الفاظ کی آڑ لے کر گرفت سے بچ جائیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :24 یعنی جب بنو قریظہ بھی حملہ آوروں کے ساتھ مل گئے تو ان منافقین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر سے نکل بھاگنے کے لیے ایک اچھا بہانہ ہاتھ آگیا اور انہوں نے یہ کہہ کر رخصت طلب کرنی شروع کی کہ اب تو ہمارے گھر ہی خطرے میں پڑ گئے ہیں ، لہٰذا ہمیں جا کر اپنے بال بچوں کی حفاظت کرنے کا موقع دیا جائے ۔ حالانکہ اس وقت سارے اہل مدینہ کی حفاظت کے ذمہ دار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ بنی قریظہ کے بد عہدی سے جو خطرہ بھی پیدا ہوا تھا اس سے شہر اور اس کے باشندوں کو بچانے کی تدبیر کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا نہ کہ فوج کے ایک ایک فرد کا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :25 یعنی اس خطرے سے بچاؤ کا انتظام تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر چکے تھے ۔ یہ انتظام بھی دفاع کی اس مجموعی سکیم ہی کا ایک حصہ تھا جس پر سالار لشکر کی حیثیت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم عمل فرما رہے تھے ۔ اس لیے کوئی فوری خطرہ اس وقت نہ تھا جس کی بنا پر ان کا یہ عذر کسی درجے میں بھی معقول ہوتا ۔