Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنۡ كَانَ يَرۡجُوا اللّٰهَ وَالۡيَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيۡرًا ؕ‏ ﴿21﴾
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ ( موجود ) ہے ، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالٰی کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالٰی کی یاد کرتا ہے ۔
لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة لمن كان يرجوا الله و اليوم الاخر و ذكر الله كثيرا
There has certainly been for you in the Messenger of Allah an excellent pattern for anyone whose hope is in Allah and the Last Day and [who] remembers Allah often.
Yaqeenan tumharay liye rasool Allah mein umdah namoona ( mojood ) hai her uss shaks kay liye jo Allah Taalaa ki aur qayamat kay din ki tawakka rakhta hai aur ba-kasrat Allah Taalaa ki yaad kerta hai.
حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو ، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو ۔
بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ( ف۵٦ ) اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے ( ف۵۷ )
درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں ایک بہترین نمونہ تھا 34 ، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے 35
فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ) میں نہایت ہی حسین نمونۂ ( حیات ) ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اﷲ ( سے ملنے ) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :34 جس سیاق و سباق میں یہ آیت ارشاد ہوئی ہے اس کے لحاظ سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کو اس جگہ نمونہ کے طور پر پیش کرنے سے مقصود ان لوگوں کو سبق دینا تھا جنہوں نے جنگ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی و عافیت کوشی سے کام لیا تھا ۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم ایمان و اسلام اور اتباع رسول کے مدعی تھے ۔ تم کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروؤں میں تم شامل ہوئے ہو اس کا اس موقع پر کیا رویہ تھا ۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود عافیت کوش ہو ۔ خود آرام طلب ہو ، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدم رکھتا ہو ، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو ، پھر تو اس کی پیروؤں کی طرف سے ان کمزوریوں کا اظہار معقول ہو سکتا ہے ۔ مگر یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ ہر مشقت جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں سے مطالبہ کیا ، اسے برداشت کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سب کے ساتھ شریک تھے ، بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حصہ لیا ، کوئی تکلیف ایسی نہ تھی جو دوسروں نے اٹھائی ہو اور آپ صلی اللہ علی ہوسلم نے نہ اٹھائی ہو ۔ خندق کھودنے والوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود شامل تھے ۔ بھوک اور سردی کی تکلیفیں اٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ بالکل برابر کا تھا ۔ محاصرے کے دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت محاذ جنگ پر موجود رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی دشمن کے مقابلے سے نہ ہٹے ۔ بنی قریظہ کی غداری کے بعد جس خطرے میں سب مسلمانوں کے بال بچے مبتلا تھے اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال بچے بھی مبتلا تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حفاظت اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لیے کوئی خاص اہتمام نہ کیا جو دوسرے مسلمانوں کے لیے نہ ہو ۔ جس مقصد عظیم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں سے قربانیوں کا مطالبہ کر رہے تھے اس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو تیار تھے ۔ اس لیے جو کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کا مدعی تھا اسے یہ نمونہ دیکھ کر اس کی پیروی کرنی چاہیے تھی ۔ یہ تو موقع و محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے ۔ مگر اس کے الفاظ عام ہیں اور اس کے منشا کو صرف اسی معنی تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ صرف اسی لحاظ سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے ، بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے ۔ لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہر معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :35 یعنی اللہ سے غافل آدمی کے لیے تو یہ زندگی نمونہ نہیں ہے مگر اس شخص کے لیے ضرور نمونہ ہے جو کبھی کبھار اتفاقاً خدا کا نام لے لینے والا نہیں بلکہ کثرت سے اس کو یاد کرنے اور یاد رکھنے والا ہو ۔ اسی طرح یہ زندگی اس شخص کے لیے تو نمونہ نہیں ہے جو اللہ سے کوئی امید اور آخرت کے آنے کی کوئی توقع نہ رکھتا ہو ، مگر اس شخص کے لیے ضرور نمونہ ہے جو اللہ کے فضل اور اس کی عنایات کا امیدوار ہو اور جسے یہ بھی خیال ہو کہ کوئی آخرت آنے والی ہے جہاں اس کی بھلائی کا سارا انحصار ہی اس پر ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کا رویہ رسُولِ خُدا ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے رویے سے کس حد تک قریب تر رہا ہے ۔
ٹھوس دلائل اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لازم قرادتیے ہیں یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس امر پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال افعال احوال اقتدا پیروی اور تابعداری کے لائق ہیں ۔ جنگ احزاب میں جو صبر وتحمل اور عدیم المثال شجاعت کی مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی ۔ مثلا راہ الہ کی تیاری شوق جہاد اور سختی کے وقت بھی رب سے آسانی کی امید اس وقت آپ نے دکھائی یقینا یہ تمام چیزیں اس قابل ہیں کہ مسلمان انہیں اپنی زندگی کا جزوِ اعظم بنالیں اور اپنے پیارے پیغمبر اللہ کے حبیب احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے بہترین نمونہ بنالیں اور ان اوصاف سے اپنے تئیں بھی موصوف کریں ۔ اسی لیے قرآن کریم ان لوگوں کو جو اس وقت سٹ پٹا رہے تھے اور گھبراہٹ اور پریشانی کا اظہار کرتے تھے فرماتا ہے کہ تم نے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کیوں نہ کی؟ میرے رسول تو تم میں موجود تھے ان کا نمونہ تمہارے سامنے تھا تمہیں صبرو استقلال کی نہ صرف تلقین تھی بلکہ ثابت قدمی استقلال اور اطمینان کا پہاڑ تمہاری نگاہوں کے سامنے تھا ۔ تم جبکہ اللہ پر قیامت پر ایمان رکھتے ہو پھر کوئی وجہ نہ تھی کہ تم اپنے رسول کو اپنے لئے نمونہ اور نظیر نہ قائم کرتے ؟ پھر اللہ کی فوج کے سچے مومنوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ساتھیوں کے ایمان کی پختگی بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے جب ٹڈی دل لشکر کفار کو دیکھا تو پہلی نگاہ میں ہی بول اٹھے کہ انہی پر فتح پانے کی ہمیں خوشخبری دی گئی ہے ۔ ان ہی کی شکست کا ہم سے وعدہ ہوا ہے اور وعدہ بھی کس کا اللہ کا اور اس کے رسول کا ۔ اور یہ ناممکن محض ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ غلط ہو یقینا ہمارا سر اور اس جنگ کی فتح کا سہرا ہوگا ۔ ان کے اس کامل یقین اور سچے ایمان کو رب نے بھی دیکھ لیا اور دنیا آخرت میں انجام کی بہتری انہیں عطا فرمائی ۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ کے جس وعدہ کی طرف اس میں اشارہ ہے وہ آیت یہ ہو جو سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے ۔ آیت ( اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ Ą۝ ) 29- العنكبوت:2 ) یعنی کیا تم نے یہ سمجھ لیا ؟ کہ بغیر اس کے کہ تمہاری آزمائش ہو تم جنت میں چلے جاؤگے؟ تم سے اگلے لوگوں کی آزمائش بھی ہوئی انہیں بھی دکھ درد لڑائی بھڑائی میں مبتلا کیا گیا یہاں تک کہ انہیں ہلایا گیا کہ ایماندار اور خود رسول کی زبان سے نکل گیا کہ اللہ کی مدد کو دیر کیوں لگ گئی ؟ یاد رکھو رب کی مدد بہت ہی قریب ہے یعنی یہ صرف امتحان ہے ادھر تم نے ثابت قدمی دکھائی ادھر رب کی مدد آئی ۔ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچا ہے فرماتا ہے کہ ان اصحاب پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان اپنے مخالفین کی اس قدر زبردست جمعیت دیکھ کر اور بڑھ گیا ۔ یہ اپنے ایمان میں اپنی تسلیم میں اور بڑھ گئے ۔ یقین کامل ہو گیا فرمانبرداری اور بڑھ گئی ۔ اس آیت میں دلیل ہے ایمان کی زیادتی ہونے پر ۔ بہ نسبت اوروں کے ان کے ایمان کے قوی ہونے پر جمہور ائمہ کرام کا بھی یہی فرمان ہے کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے ۔ ہم نے بھی اس کی تقریر شرح بخاری کے شروع میں کردی ہے وللہ الحمد والمنہ ۔ پس فرماتا ہے کہ اس کی تنگی ترشی نے اس سختی اور تنگ حالی نے اس حال اور اس نقشہ نے انکا جو ایمان اللہ پر تھا اسے اور بڑھا دیا اور جو تسلیم کی خو ان میں تھی کہ اللہ رسول کی باتیں ماناکرتے تھے اور ان پر عامل تھے اس اطاعت میں اور بڑھ گئے ۔