Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَلَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَمَا زَادَهُمۡ اِلَّاۤ اِيۡمَانًـا وَّتَسۡلِيۡمًا ؕ‏ ﴿22﴾
اور ایمانداروں نے جب ( کفار کے ) لشکروں کو دیکھا ( بے ساختہ ) کہہ اٹھے! کہ انہیں کا وعدہ ہمیں اللہ تعالٰی نے اور اس کے رسول نے دیا تھا اور اللہ تعالٰی اور اس کے رسول نے سچ فرمایا اور اس ( چیز ) نے ان کے ایمان میں اور شیوۂ فرماں برداری میں اور اضافہ کر دیا ۔
و لما را المؤمنون الاحزاب قالوا هذا ما وعدنا الله و رسوله و صدق الله و رسوله و ما زادهم الا ايمانا و تسليما
And when the believers saw the companies, they said, "This is what Allah and His Messenger had promised us, and Allah and His Messenger spoke the truth." And it increased them only in faith and acceptance.
Aur eman daron ney jab ( kuffar kay ) lashkaron ko dekha ( bay saakhta ) keh uthay! Kay enhin ka wada humen Allah Taalaa ney aur uss kay rasool ney diya tha aur Allah Taalaa aur uss kay rasool ney sach farmaya aur iss ( cheez ) ney unn kay eman mein aur shewa-e-faman bardari mein aur izafa ker diya.
اور جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ، جب انہوں نے ( دشمن کے ) لشکروں کو دیکھا تھا تو انہوں نے یہ کہا تھا کہ : یہ وہی بات ہے جس کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے کیا تھا ، اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا ۔ اور اس واقعے نے ان کے ایمان اور تابع داری کے جذبے میں اور اضافہ کردیا تھا ۔
اور جب مسلمانوں نے کافروں کے لشکر دیکھے بولے یہ ہے وہ جو ہمیں وعدہ دیا تھا اللہ اور اس کے رسول نے ( ف۵۸ ) اور سچ فرمایا اللہ اور اس کے رسول نے ( ف۵۹ ) اور اس سے انھیں نہ بڑھا مگر ایمان اور اللہ کی رضا پر راضی ہونا
اور سچے مومنوں ( کا حال اس وقت یہ تھا کہ 36 جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا ، اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بات بالکل سچی تھی 37 اس واقعہ نے ان کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا ۔ 38
اور جب اہلِ ایمان نے ( کافروں کے ) لشکر دیکھے تو بول اٹھے کہ یہ ہے جس کا اﷲ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا اور اﷲ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا ہے ، سو اس ( منظر ) سے ان کے ایمان اور اطاعت گزاری میں اضافہ ہی ہوا
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :36 رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب اللہ تعالیٰ صحابۂ کرام کے طرز عمل کو نمونے کے طور پر پیش فرماتا ہے تاکہ ایمان کے جھوٹے مدعیوں اور سچے دل سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے والوں کا کردار ایک دوسرے کے مقابلہ میں پوری طرح نمایاں کر دیا جائے ۔ اگرچہ ظاہری اقرار ایمان میں وہ اور یہ یکساں تھے ۔ مسلمانوں کے گروہ میں دونوں کا شمار ہوتا تھا اور نمازوں میں دونوں شریک ہوتے تھے ۔ لیکن آزمائش کی گھڑی پیش آنے پر دونوں ایک دوسرے سے چھٹ کر الگ ہو گئے اور صاف معلوم ہو گیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے مخلص وفادار کون ہیں اور محض نام کے مسلمان کون ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :37 اس موقع پر آیت نمبر ۱۲ کو نگاہ میں رکھنا چاہیے ۔ وہاں بتایا گیا تھا کہ جو لوگ منافق اور دل کے روگی تھے انہوں نے دس بارہ ہزار کے لشکر کو سامنے سے اور بنی قریظہ کو پیچھے سے حملہ آور ہوتے دیکھا تو پکار پکار کر کہنے لگے کہ سارے وعدے جو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم سے کیے تھے محض جھوت اور فریب نکلے کہا تو ہم سے یہ گیا تھا کہ دین خدا پر ایمان لاؤ گے تو خدا کی تائید تمہاری پشت پر ہو گی ، عرب و عجم پر تمہارا سکہ رواں ہو گا ، اور قیصر و کسریٰ کے خزانے تمہارے لیے کھل جائیں گے ۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ سارا عرب ہمیں مٹا دینے پر تل گیا ہے اور کہیں سے فرشتوں کی وہ فوجیں آتی نظر نہیں آرہیں جو ہمیں اس سیلاب بلا سے بچا لیں ۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدوں کا ایک مطلب تو وہ تھا جو ان جھوٹے مدعیان ایمان نے سمجھا تھا ۔ دوسرا مفہوم وہ ہے جو ان صادق الایمان مسلمانوں نے سمجھا ۔ خطرات امنڈتے دیکھ کر اللہ کے وعدے تو ان کو بھی یاد آئے ، مگر یہ وعدے نہیں کہ ایمان لاتے ہی انگلی ہلائے بغیر تم دنیا کے فرمانروا ہو جاؤ گے اور فرشتے آ کر تمہاری تاجپوشی کی رسم ادا کریں گے ، بلکہ یہ وعدے کہ سخت آزمائشوں سے تم کو گزرنا ہو گا ، مصائب کے پہاڑ تم پر ٹوٹ پڑیں گے ، گراں ترین قربانیاں تمہیں دینی ہوں گی ، تب کہیں جا کر اللہ کی عنایات تم پر ہوں گی اور تمہیں دنیا اور آخرت کی وہ سرفرازیاں بخشی جائیں گی جن کا وعدہ اللہ نے اپنے مومن بندوں سے کیا ہے : اَمْ حَسِبْتُمْ اَن تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ ۔ ط مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ مَتٰی نَصْرُاللہِ ۔ ط ۔ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ O ( البقرہ ۔ آیت ۲۱٤ ) کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں بس یونہی داخل ہو جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی وہ حالات تو تم پر گزرے ہی نہیں جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکے ہیں ۔ ان پر سختیاں اور مصیبتیں آئیں اور وہ ہلا مارے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھی پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد ۔ ۔ سنو ، اللہ کی مدد قریب ہے ۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوُلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَo وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَo ( العنکبوت: ۲ ۔ ۳ ) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یہ کہنے پر وہ چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انہیں آزمایا نہ جائیگا ؟ حالانکہ ہم نے ان سب لوگوں کو آزمایا ہے جو ان سے پہلے گزرے ہیں ۔ اللہ کو تو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :38 یعنی اس سیلاب بلا کو دیکھ کر ان کے ایمان متزلزل ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئے ، اور اللہ کی فرماں برداری سے بھاگ نکلنے کے بجائے وہ اور زیادہ یقین و اطمینان کے ساتھ اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر دینے پر آمادہ ہو گئے ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ایمان و تسلیم دراصل نفس کی ایک ایسی کیفیت ہے جو دین کے ہر حکم اور ہر مطالبے پر امتحان میں پڑ جاتی ہے ۔ دنیا کی زندگی میں ہر ہر قدم پر آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جہاں دین یا تو کسی چیز کا حکم دیتا ہے ، یا کسی چیز سے منع کرتا ہے ، یا جان اور مال اور وقت اور محنت اور خواہشات نفس کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے ۔ ایسے ہر موقع پر جو شخص اطاعت سے انحراف کرے گا اس کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہو گی ، اور جو شخص بھی حکم کے آگے سر جھکا دے گا اس کے ایمان و تسلیم میں اضافہ ہو گا ۔ اگرچہ ابتداءً آدمی صرف کلمۂ اسلام کو قبول کر لینے سے مومن و مسلم ہو جاتا ہے ۔ لیکن یہ کوئی ساکن و جامد حالت نہیں ہے جو بس ایک ہی مقام پر ٹھہری رہتی ہو ، بلکہ اس میں تنزل اور ارتقاء دونوں کے امکانات ہیں ۔ خلوص اور اطاعت میں کمی اس کے تنزل کی موجب ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ ایک شخص پیچھے ہٹتے ہٹتے ایمان کی اس آخری سرحد پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے یک سر مو بھی تجاوز کر جائے تو مومن کے بجائے منافق ہو جائے اس کے برعکس خلوص جتنا زیادہ ہو ، اطاعت جتنی مکمل ہو اور دین حق کی سر بلندی کے لیے لگن اور دھن جتنی بڑھتی چلی جائے ، ایمان اسی نسبت سے بڑھتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ آدمی صدّیقیّت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے لیکن یہ کمی و بیشی جو کچھ بھی ہے اخلاقی مراتب میں ہے جس کا حساب اللہ کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا بندوں کے لیے ایمان بس ایک ہی اقرار تصدیق ہے جس سے ہر مسلمان داخل اسلام ہوتا ہے اور جب تک اس پر قائم رہے ۔ مسلمان مانا جاتا ہے ۔ اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آدھا مسلمان ہے اور یہ پاؤ ، یا یہ دوگنا مسلمان ہے اور یہ تین گنا ۔ اسی طرح قانونی حقوق میں سب مسلمان یکساں ہیں ، یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کو ہم زیادہ مومن کہیں اور اس کے حقوق زیادہ ہوں ، اور کسی کو کم مومن قرار دیں اور اس کے حقوق کم ہوں ۔ ان اعتبارات سے ایمان کی کمی و بیشی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور دراصل اسی معنی میں امام ابو حنیفہ نے یہ فرمایا ہے کہ الایمان لا یزید ولا ینقص ، ایمان کم و بیش نہیں ہوتا ۔ ( مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد۲ ، الانفال ، حاشیہ ۲ ، جلد پنجم ، الفتح ، حاشیہ ۷ ۔