Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيۡهِ‌ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ قَضٰى نَحۡبَهٗ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّنۡتَظِرُ‌ ۖ  وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِيۡلًا ۙ‏ ﴿23﴾
مومنوں میں ( ایسے ) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالٰی سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض ( موقعہ کے ) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی ۔
من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه و منهم من ينتظر و ما بدلوا تبديلا
Among the believers are men true to what they promised Allah . Among them is he who has fulfilled his vow [to the death], and among them is he who awaits [his chance]. And they did not alter [the terms of their commitment] by any alteration -
Momino mein ( aisay ) log bhi hain jinhon ney jo ehad Allah Taalaa say kiya tha unhen sacha ker dikhaya baaz ney to apna ehad poora ker diya aur baaz ( moqay kay ) muntazir hain aur unhon ney koi tabdeeli nahi ki.
انہی ایمان والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا ۔ پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنا نذرانہ پورا کردیا ، اور کچھ وہ ہیں جو ابھی انتظار میں ہیں ۔ ( ١٩ ) اور انہوں نے ( اپنے ارادوں میں ) ذرا سی بھی تبدیلی نہیں کی ۔
مسلمانوں میں کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچا کردیا جو عہد اللہ سے کیا تھا ( ف٦۰ ) تو ان میں کوئی اپنی منت پوری کرچکا ( ف٦۱ ) اور کوئی راہ دیکھ رہا ہے ( ف٦۲ ) اور وہ ذرا نہ بدلے ( ف٦۳ )
ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے 39 انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی ۔
مومنوں میں سے ( بہت سے ) مَردوں نے وہ بات سچ کر دکھائی جس پر انہوں نے اﷲ سے عہد کیا تھا ، پس ان میں سے کوئی ( تو شہادت پا کر ) اپنی نذر پوری کر چکا ہے اور ان میں سے کوئی ( اپنی باری کا ) انتظار کر رہا ہے ، مگر انہوں نے ( اپنے عہد میں ) ذرا بھی تبدیلی نہیں کی
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :39 یعنی کوئی اللہ کی راہ میں جان دے چکا ہے اور کوئی اس کے لیے تیار ہے کہ وقت آئے تو اس کے دین کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ پیش کر دے ۔
اس دن مومنوں اور کفار میں فرق واضح ہوگیا منافقوں کا ذکر اوپر گذر چکا ہے کہ وقت سے پہلے تو جاں نثاری کے لمبے چوڑے دعوے کرتے تھے لیکن وقت آنے پر پورے بزدل اور نامرد ثابت ہوئے ، سارے دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے اور بجائے ثابت قدمی کے پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ سارے دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے اور بجائے ثابت قدمی کے پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ یہاں مومنوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنے وعدے پورے کر دکھائے ۔ بعض نے جام شہادت نوش فرمایا اور بعض اس کے نظارے میں بےچین ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے قرآن لکھنا شروع کیا تو ایک آیت مجھے نہیں ملتی تھی حالانکہ سورۃ احزاب میں وہ آیت میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنی تھی ۔ آخر حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس یہ آیت ملی یہ وہ صحابی ہیں جن کی اکیلے کی گواہی کو رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم نے دو گواہوں کے برار کردیا تھا ۔ وہ آیت ( مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ ڮ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا 23؀ۙ ) 33- الأحزاب:23 ) ہے ۔ یہ آیت حضرت انس بن نضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے جس کا انہیں سخت افسوس تھا کہ سب سے پہلی جنگ میں جس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس شریک تھے میں شامل نہ ہوسکا اب جو جہاد کا موقعہ آئے گا میں اللہ تعالیٰ کو اپنی سچائی دکھا دونگا اور یہ بھی کہ میں کیا کرتا ہوں ؟ اس سے زیادہ کہتے ہوئے خوف کھایا ۔ اب جنگ احد کا موقعہ آیا تو انہوں نے دیکھا کہ سامنے سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس آرہے ہیں انہیں دیکھ کر تعجب سے فرمایا کہ ابو عمرو کہاں جا رہے ہو؟ واللہ مجھے احد پہاڑ کے اس طرف سے جنت کی خوشبوئیں آرہی ہیں ۔ یہ کہتے ہی آپ آگے بڑھے اور مشرکوں میں خوب تلوار چلائی ۔ چونکہ مسلمان لوٹ گئے تھے یہ تنہا تھے ان کے بےپناہ حملوں نے کفار کے دانت کھٹے کردئیے تھے اور کفا لڑتے لڑتے ان کی طرف بڑھے اور چاروں طرف سے گھیر لیا اور شہید کر دیا ۔ آپ کو ( 80 ) اسی سے اوپر اپر زخم آئے تھے کوئی نیزے کا کوئی تلوار کا کوئی تیر کا ۔ شہادت کے بعد کوئی آپ کو پہچان نہ سکا یہاں تک کہ آپ کی ہمشیرہ نے آپ کو پہچانا اور وہ بھی ہاتھوں کی انگلیوں کی پوریں دیکھ کر ۔ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ اور یہی ایسے تھے جنہوں نے جو کہا تھا کر دکھایا ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔ اور روایت میں ہے کہ جب مسلمان بھاگے تو آپ نے فرمایا اے اللہ انہوں نے جو کیا میں اس سے اپنی معذوری ظاہر کرتا ہوں ۔ اور مشرکوں نے جو کیا میں اس سے بیزار ہوں ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے فرمایا میں آپ کے ساتھ ہوں ۔ ساتھ چلے بھی لیکن فرماتے ہیں جو ہو کررہے تھے وہ میری طاقت سے باہر تھا ۔ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ بیان ابی ابن حاتم میں ہے کہ جنگ احد سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینے آئے تو منبر پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور مسلمانوں سے ہمدردی ظاہر کی جو جو شہید ہوگئے تھے ان کے درجوں کی خبر دی ۔ پھر اسی آیت کی تلاوت کی ۔ ایک مسلمان نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کا اس آیت میں ذکر ہے وہ کون ہیں؟ اس وقت میں سامنے آرہا تھا اور حضرمی سبز رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے تھا ۔ آپ نے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا اے پوچھنے والے یہ بھی ان ہی میں سے ہیں ۔ ان کے صاحبزادے حضرت موسیٰ بن طلحہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار میں گئے جب وہاں سے واپس آنے لگے دروازے سے باہر نکلے ہی تھے جو جناب معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واپس بلایا اور فرمایا آؤ مجھ سے ایک حدیث سنتے جاؤ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تمہارے والد طلحہ رضی اللہ تعالیٰ ان میں سے ہے جن کا بیان اس آیت میں ہے کہ انہوں نے اپنا عہد اور نذر پوری کردی ۔ رب العلمین ان کا بیان فرما کر فرماتا ہے کہ بعض اس دن کے منتظر ہیں کہ پھر لڑائی ہو اور وہ اپنی کار گذاری اللہ کو دکھائیں اور جام شہادت نوش فرمائیں ۔ پس بعض نے تو سچائی اور وفاداری ثابت کردی اور بعض موقعہ کے منتظر ہیں انہوں نے نہ عہد بدلا نہ نذر پوری کرنے کا کبھی انہیں خیال گذرا بلکہ وہ اپنے وعدے پر قائم ہیں وہ منافقوں کی طرح بہانے بنانے والے نہیں ۔ یہ خوف اور زلزلہ محض اس واسطے تھا کہ خبیث وطیب کی تمیز ہوجائے اور برے بھلے کا حال ہر ایک پر کھل جائے ۔ کیونکہ اللہ تو عالم الغیب ہے اس کے نزدیک تو ظاہر وباطن برابر ہے جو نہیں ہوا اسے بھی وہ تو اسی طرح جانتا ہے جس طرح اسے جو ہوچکا ۔ لیکن اس کی عادت ہے کہ جب تک مخلوق عمل نہ کرلے انہیں صرف اپنے علم کی بنا پر جزا سزا نہیں دیتا ۔ جیسے اس کا فرمان ہے آیت ( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ 31؀ ) 47-محمد:31 ) ہم تمہیں خوب پرکھ کر مجاہدین صابرین کو تم میں سے ممتاز کردینگے ۔ پس وجود سے پہلے کا علم پھر وجود کے بعد کا علم دونوں اللہ کو ہیں اور اس کے بعد جزا سزا ۔ جیسے فرمایا آیت ( مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ١٧٩؁ ) 3-آل عمران:179 ) اللہ تعالیٰ جس حال پر تم ہو اسی پر مومنوں کو چھوڑ دے ایسا نہیں جب تک کہ وہ بھلے برے کی تمیز نہ کرلے نہ اللہ ایسا ہے کہ تمہیں غیب پر مطلع کردے ۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ یہ اس لئے کہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے اور عہد شکن منافقوں کو سزادے ۔ یا انہیں توفیق توبہ دے کہ یہ اپنی روش بدل دیں اور سچے دل سے اللہ کی طرف جھک جائیں تو اللہ بھی ان پر مہربان ہوجائے اور ان کو معاف فرمادے ۔ اس لئے کہ وہ اپنی مخلوق کی خطائیں معاف فرمانے والا اور ان پر مہربانی کرنے والا ہے ۔ اس کی رافت ورحمت غضب وغصے سے بڑھی ہوئی ہے ۔