Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰنِسَآءَ النَّبِىِّ لَسۡتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَيَـطۡمَعَ الَّذِىۡ فِىۡ قَلۡبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ۚ‏ ﴿32﴾
اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو ۔
ينساء النبي لستن كاحد من النساء ان اتقيتن فلا تخضعن بالقول فيطمع الذي في قلبه مرض و قلن قولا معروفا
O wives of the Prophet, you are not like anyone among women. If you fear Allah , then do not be soft in speech [to men], lest he in whose heart is disease should covet, but speak with appropriate speech.
Aey nabi ki biwiyo! Tum aam aurton ki tarah nahi ho agar tum perhezgari ikhtiyar kero to naram lehjay say baat na kero kay jiss kay dil mein rog ho woh koi bura khayal keray aur haan qaeeday kay mutabiq kalam kero.
اے نبی کی بیویو ! اگر تم تقوی اختیار کرو تو تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو ۔ ( ٢٤ ) لہذا تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیا کرو ، کبھی کوئی ایسا شخص بیجا لالچ کرنے لگے جس کے دل میں روگ ہوتا ہے ، اور بات وہ کہو جو بھلائی والی ہو ۔ ( ٢٥ )
اے نبی کی بیبیو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو ( ف۸۱ ) اگر اللہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا روگی کچھ لالچ کرے ( ف۸۲ ) ہاں اچھی بات کہو ( ف۸۳ )
نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویو ، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو 46 اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے ، بلکہ صاف سیدھی بات کرو 47
اے اَزواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو ، اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو ( مَردوں سے حسبِ ضرورت ) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں ( نِفاق کی ) بیماری ہے ( کہیں ) وہ لالچ کرنے لگے اور ( ہمیشہ ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :46 یہاں سے آخر پیراگراف تک کی آیات وہ ہیں جن سے اسلام میں پردے کے احکام کا آغاز ہوا ہے ۔ ان آیات میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کیا گیا ہے مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں ان اصلاحات کو نافذ کرنا ہے ۔ ازواج مطہرات کو مخاطب کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے اس پاکیزہ طرز زندگی کی ابتدا ہوگی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین خود اس کی تقلید کریں گی ، کیونکہ یہی گھر ان کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا ۔ بعض لوگ صرف اس بنیاد پر کہ ان آیات کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے ہے ، یہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں کہ یہ احکام انہی کے لیے خاص ہیں ۔ لیکن آگے ان آیات میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اسے پڑھ کر دیکھ لیجئے ۔ کونسی بات ایسی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے لیے خاص ہو اور باقی مسلمان عورتوں کے لیے مطلوب نہ ہو ؟ کیا اللہ تعالیٰ کا منشا یہی ہو سکتا تھا کہ صرف ازواج مطہرات ہی گندگی سے پاک ہوں ، اور وہی اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں ، اور وہی نمازیں پڑھیں اور زکوٰۃ دیں ؟ اگر یہ منشا نہیں ہو سکتا تو پھر گھروں میں چین سے بیٹھے اور تبرُّج جاہلیت سے پرہیز کرنے اور غیر مردوں کے ساتھ دبی زبان سے بات نہ کرنے کا حکم ان کے لیے کیسے خاص ہو سکتا ہے اور باقی مسلمان عورتیں اس سے مستثنیٰ کیسے ہو سکتی ہیں ؟ کیا کوئی معقول دلیل ایسی ہے جس کی بنا پر ایک ہی سلسلۂ کلام کے مجموعی احکام میں سے بعض کو عام اور بعض کو خاص قرار دیا جائے ؟ رہا یہ فقرہ کہ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو تو اس سے بھی یہ مطلب نہیں نکلتا کہ عام عورتوں کو تو بن ٹھن کر نکلنا چاہیے اور غیر مردوں سے خوب لگاوٹ کی باتیں کرنی چاہییں ‘ البتہ تم ایسا طرز عمل اختیار نہ کرو ۔ بلکہ اس کے برعکس یہ طرز کلام کچھ اس طرح کا ہے جیسے ایک شریف آدمی اپنے بچے سے کہتا ہے کہ تمہیں گالی نہ بکنی چاہیے ۔ اس سے کوئی عقلمند آدمی بھی کہنے والے کا یہ مدعا اخذ نہ کرے گا کہ وہ صرف اپنے بچے کے لیے گالیاں بکنے کو برا سمجھتا ہے ، دوسرے بچوں میں یہ عیب موجود رہے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :47 یعنی ضرورت پیش آنے پر کسی مرد سے بات کرنے میں مضائقہ نہیں ہے ، لیکن ایسے مواقع پر عورت کا لہجہ اور انداز گفتگو ایسا ہونا چاہیے جس سے بات کرنے والے مرد کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ گزر سکے کہ اس عورت سے کوئی اور توقع بھی قائم کی جا سکتی ہے ۔ اس کے لہجے میں کوئی لوچ نہ ہو ، اس کی باتوں میں کوئی لگاوٹ نہ ہو ، اس کی آواز میں دانستہ کوئی شیرینی گھلی ہوئی نہ ہو جو سننے والے مرد کے جذبات میں انگیخت پیدا کر دے اور اسے آگے قدم بڑھانے کی ہمت دلائے ۔ اس طرز گفتگو کے متعلق اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ یہ کسی ایسی عورت کو زیب نہیں دیتا جس کے دل میں خدا کا خوف اور بدی سے پرہیز کا جذبہ ہو ۔ دوسرے الفاظ میں یہ فاسقات و فاجرات کا طرز کلام ہے نہ کہ مومنات متقیات کا ۔ اس کے ساتھ اگر سُورۂ نور کی وہ آیت بھی دیکھی جائے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ ( اور زمین پر اس طرح پاؤں مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا علم لوگوں کو ہو ) تو رب العٰلمین کا صاف منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنی آواز یا اپنے زیوروں کی جھنکار غیر مردوں کو نہ سنائیں اور اگر بضرورت اجنبیوں سے بولنا پڑ جائے تو پوری احتیاط کے ساتھ بات کریں ۔ اسی بنا پر عورت کے لیے اذان دینا ممنوع ہے ۔ نیز اگر نماز با جماعت میں کوئی عورت موجود ہو اور امام کوئی غلطی کرے تو مرد کی طرح سبحان اللہ کہنے کی اسے اجازت نہیں ہے بلکہ اس کو صرف ہاتھ پر ہاتھ مار کر آواز پیدا کرنی چاہیے تاکہ امام متنبہ ہو جائے ۔ اب یہ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچ دار انداز گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اسے مردوں کے سامنے بلا ضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتا ہے ، کیا وہ کبھی اس کو پسند کر سکتا ہے کہ عورت اسٹیج پر آ کر گائے ناچے ، تھرکے ، بھاؤ بتائے اور ناز و نخرے دکھائے ؟ کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے اور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سنا سنا کر لوگوں کے جذبات میں آگ لگائے ؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ ادا کریں ؟ یا ہوائی میزبان ( Air-hostess ) بنائی جائیں اور انہیں خاص طور پر مسافروں کا دل لبھانے کی تربیت دے جائے ؟ یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھل مل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں ؟ یہ کلچر آخر کس قرآن سے برآمد کی گئی ہے ؟ خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کے سامنے ہے ۔ اس میں کہیں اس کلچر کی گنجائش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشان دہی کر دی جائے ۔
ارشادات الٰہی کی روشنی میں اسوہ امہات المومنین اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو آداب سکھاتا ہے اور چونکہ تمام عورتیں انہی کے ماتحت ہیں ۔ اس لئے یہ احکام سب مسلمان عورتوں کے لئے ہیں پس فرمایا کہ تم میں سے جو پرہیزگاری کریں وہ بہت بڑی فضیلت اور مرتبے والی ہیں ۔ مردوں سے جب تمہیں کوئی بات کرنی پڑے تو آواز بنا کر بات نہ کرو کہ جن کے دلوں میں روگ ہے انہیں طمع پیدا ہو ۔ بلکہ بات اچھی اور مطابق دستور کرو ۔ پس عورتوں کو غیر مردوں سے نزاکت کے ساتھ خوش آوازی سے باتیں کرنی منع ہیں ۔ گھل مل کر وہ صرف اپنے خاوندوں سے ہی کلام کر سکتی ہیں ۔ پھر فرمایا بغیر کسی ضروری کام کے گھر سے باہر نہ نکلو ۔ مسجد میں نماز کے لئے آنا بھی شرعی ضرورت ہے جیسے کہ حدیث میں ہے اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو ۔ لیکن انہیں چاہئے کہ سادگی سے جس طرح گھروں میں رہتی ہیں اسی طرح آئیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے لئے ان کے گھر بہتر ہیں ۔ بزار میں ہے کہ عورتوں نے حاضر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جہاد وغیرہ کی کل فضیلتیں مرد ہی لے گئے ۔ اب آپ ہمیں کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے ہم مجاہدین کی فضیلت کو پا سکیں ۔ آپ نے فرمایا تم میں سے جو اپنے گھر میں پردے اور عصمت کے ساتھ بیٹھی رہے وہ جہاد کی فضیلت پا لے گی ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں عورت سر تا پا پردے کی چیز ہے ۔ یہ جب گھر سے باہر قدم نکالتی ہے تو شیطان جھانکنے لگتا ہے ۔ یہ سب سے زیادہ اللہ کے قریب اس وقت ہوتی ہے جب یہ اپنے گھر کے اندرونی حجرے میں ہو ۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے عورت کی اپنے گھر کی اندرونی کوٹھڑی کی نماز گھر کی نماز سے افضل ہے اور گھر کی نماز صحن کی نماز سے بہتر ہے ۔ جاہلیت میں عورتیں بےپردہ پھرا کرتی تھیں اب اسلام بےپردگی کو حرام قرار دیتا ہے ۔ ناز سے اٹھلا کر چلنا ممنوع ہے ۔ دوپٹہ گلے میں ڈال لیا لیکن اسے لپیٹا نہیں جس سے گردن اور کانوں کے زیور دوسروں کو نظر آئیں ، یہ جاہلیت کا بناؤ سنگھار تھا جس سے اس آیت میں روکا گیا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نوح اور حضرت ادریس کی دو نسلیں آباد تھیں ۔ ایک تو پہاڑ پر دوسرے نرم زمین پر ۔ پہاڑیوں کے مرد خوش شکل تھے عورتیں سیاہ فام تھیں اور زمین والوں کی عورتیں خوبصورت تھیں اور مردوں کے رنگ سانولے تھے ۔ ابلیس انسانی صورت اختیار کر کے انہیں بہکانے کے لئے نرم زمین والوں کے پاس آیا اور ایک شخص کا غلام بن کر رہنے لگا ۔ پھر اس نے بانسری وضع کی ایک چیز بنائی اور اسے بجانے لگا اس کی آواز پر لوگ لٹو ہوگئے اور پھر بھیڑ لگنے لگی اور ایک دن میلے کا مقرر ہو گیا جس میں ہزارہا مرد و عورت جمع ہونے لگے ۔ اتفاقاً ایک دن ایک پہاڑی آدمی بھی آ گیا اور ان کی عورتوں کو دیکھ کر واپس جا کر اپنے قبیلے والوں میں اس کے حسن کا چرچا کرنے لگا ۔ اب وہ لوگ بکثرت آنے لگے اور آہستہ آہستہ ان عورتوں مردوں میں اختلاط بڑھ گیا اور بدکاری اور زنا کاری کا عام رواج ہو گیا ۔ یہی جاہلیت کا بناؤ ہے جس سے یہ آیت روک رہی ہے ۔ ان کاموں سے روکنے کے بعد اب کچھ احکام بیان ہو رہے ہیں کہ اللہ کی عبادت میں سب سے بڑی عبادت نماز ہے اس کی پابندی کرو اور بہت اچھی طرح سے اسے ادا کرتی رہو ۔ اسی طرح مخلوق کے ساتھ بھی نیک سلوک کرو ۔ یعنی زکوٰۃ نکالتی رہو ۔ ان خاص احکام کی بجا آوری کا حکم دے کر پھر عام طور پر اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا ۔ پھر فرمایا اس اہل بیت سے ہر قسم کے میل کچیل کو دور کرنے کا ارادہ اللہ تعالیٰ کا ہو چکا ہے وہ تمہیں بالکل پاک صاف کر دے گا ۔ یہ آیت اس بات پر نص ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ان آیتوں میں اہل بیت میں داخل ہیں ۔ اس لئے کہ یہ آیت انہی کے بارے میں اتری ہے ۔ آیت کا شان نزول تو آیت کے حکم میں داخل ہوتا ہی ہے گو بعض کہتے ہیں کہ صرف وہی داخل ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیں وہ بھی اور اس کے سوا بھی ۔ اور یہ دوسرا قول ہی زیادہ صحیح ہے ۔ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ تو بازاروں میں منادی کرتے پھرتے تھے کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ہی کے بارے میں خالصتاً نازل ہوئی ہے ( ابن جریر ) ابن ابی حاتم میں حضرت عکرمہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ جو چاہے مجھ سے مباہلہ کر لے ۔ یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ اس قول سے اگر یہ مطلب ہے کہ شان نزول یہی ہے اور نہیں ، تو یہ تو ٹھیک ہے اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ اہل بیت میں اور کوئی ان کے سوا داخل ہی نہیں تو اس میں نظر ہے اس لئے کہ احادیث سے اہل بیت میں ازواج مطہرات کے سوا اوروں کا داخل ہونا بھی پایا جاتا ہے ۔ مسند احمد اور ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لئے جب نکلتے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازے پر پہنچ کر فرماتے اے اہل بیت نماز کا وقت آ گیا ہے پھر اسی آیت تطہیر کی تلاوت کرتے ۔ امام ترمذی اسے حسن غریب بتلاتے ہیں ۔ ابن جریر کی ایک اسی حدیث میں سات مہینے کا بیان ہے ۔ اس میں ایک راوی ابو داؤد اعمی نفیع بن حارث کذاب ہے ۔ یہ روایت ٹھیک نہیں ۔ مسند میں ہے شد اد بن عمار کہتے ہیں میں ایک دن حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا اس وقت وہاں کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت علی کا ذکر ہو رہا تھا ۔ وہ آپ کو برا بھلا کہہ رہے تھے میں نے بھی ان کا ساتھ دیا جب وہ لوگ گئے تو مجھ سے سے حضرت واثلہ نے فرمایا تو نے بھی حضرت علی کی شان میں گستا خانہ الفاظ کہے؟ میں نے کہا ہاں میں نے بھی سب کی زبان میں زبان ملائی ۔ تو فرمایا سن میں نے جو دیکھا ہے تجھے سناتا ہوں ۔ میں ایک مرتبہ حضرت علی کے گھر گیا تو معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں گئے ہوئے ہیں ۔ میں ان کے انتظار میں بیٹھا رہا تھوڑی دیر میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ رہے ہیں اور آپ کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی ہیں دونوں بچے آپ کی انگلی تھامے ہوئے تھے آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تو اپنے سامنے بٹھا لیا اور دونوں نواسوں کو اپنے گھٹنوں پر بٹھا لیا اور ایک کپڑے سے ڈھک لیا پھر اسی آیت کی تلاوت کر کے فرمایا اے اللہ یہ ہیں میرے اہل بیت اور میرے اہل بیت زیادہ حقدار ہیں ۔ دوسری روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے یہ دیکھ کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی آپ کی اہل بیت میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا تو بھی میرے اہل میں سے ہے ۔ حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان میرے لئے بہت ہی بڑی امید کا ہے اور روایت میں ہے حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جب حضرت علی حضرت فاطمہ حضرت حسن حضرت حسین رضی اللہ عنہم اجمعین آئے آپ نے اپنی چادر ان پر ڈال کر فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں یا اللہ ان سے ناپاکی کو دور فرما اور انہیں پاک کر دے ۔ میں نے کہا میں بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں تو بھی ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ میرا مضبوط عمل یہی ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حریرے کی ایک پتیلی بھری ہوئی لائیں ۔ آپ نے فرمایا اپنے میاں کو اور اپنے دونوں بچوں کو بھی بلا لو ۔ چنانچہ وہ بھی آ گئے اور کھانا شروع ہوا آپ اپنے بستر پر تھے ۔ خیبر کی ایک چادر آپ کے نیچے بچھی ہوئی تھی ۔ میں حجرے میں نماز ادا کر رہی تھی جب یہ آیت اتری ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر انہیں اڑھا دی اور چادر میں سے ایک ہاتھ نکال کر آسمان کی طرف اٹھا کر یہ دعا کی کہ الٰہی یہ میرے اہل بیت اور حمایتی ہیں تو ان سے ناپاکی دور کر اور انہیں ظاہر کر میں نے اپنا سر گھر میں سے نکال کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی آپ سب کے ساتھ ہوں آپ نے فرمایا یقینا تو بہتری کی طرف ہے فی الواقع تو خیر کی طرف ہے ۔ اس روایت کے روایوں میں عطا کے استاد کا نام نہیں جو معلم ہو سکے کہ وہ کیسے راوی ہیں باقی راوی ثقہ ہیں ۔ دوسری سند سے انہی حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر آیا تو آپنے فرمایا آیت تطہیر تو میرے گھر میں اتری ہے ۔ آپ میرے ہاں آئے اور فرمایا کسی اور کو آنے کی اجازت نہ دینا ۔ تھوڑی دیر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آئیں ۔ اب بھلا میں بیٹی کو باپ سے کیسے روکتی؟ پھر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو نواسے کو نانا سے کون روکے؟ پھر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے میں نے انہیں بھی نہ روکا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے میں انہیں بھی نہ روک سکی ۔ جب یہ سب جمع ہو گئے تو جو چادر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھے ہوئے تھے اسی میں ان سب کو لے لیا اور کہا الٰہی یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے پلیدی دور کر دے اور انہیں خوب پاک کر دے ۔ پس یہ آیت اس وقت اتری جبکہ یہ چادر میں جمع ہو چکے تھے میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی؟ لیکن اللہ جانتا ہے آپ اس پر خوش نہ ہوئے اور فرمایا تو خیر کی طرف ہے ۔ مسند کی اور روایت میں ہے کہ میرے گھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے جب خادم نے آ کر خبر کی کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ گئے ہیں تو آپ نے مجھ سے فرمایا ایک طرف ہو جاؤ میرے اہل بیت آ گئے ہیں ۔ میں گھر کے ایک کونے میں بیٹھ گئی جب دونوں ننھے بچے اور یہ دونوں صاحب تشریف لائے ۔ آپ نے دونوں بچوں کو گودی میں لے لیا اور پیار کیا پھر ایک ہاتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن میں دوسرا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن میں ڈال کر ان دونوں کو بھی پیار کیا اور ایک سیاہ چادر سب پر ڈال کر فرمایا یا اللہ تیری طرف نہ کہ آگ کی طرف میں اور میری اہل بیت ۔ میں نے کہا میں بھی؟ فرمایا ہاں تو بھی ۔ اور روایت میں ہے کہ میں اس وقت گھر کے دروازے پر بیٹھی ہوئی تھی اور میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟ آپ نے فرمایا تو بھلائی کی طرف ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے ہے اور روایت میں ہے میں نے کہا مجھے بھی ان کے ساتھ شامل کر لیجئے تو فرمایا تو میری اہل ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ چادر اوڑھے ہوئے ایک دن صبح ہی صبح نکلے اور ان چاروں کو اپنی چادر تلے لے کر یہ آیت پڑھی ( مسلم وغیرہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک مرتبہ کسی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا وہ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے ان کے گھر میں آپ کی صاحبزادی تھیں جو سب سے زیادہ آپ کی محبوب تھیں ۔ پھر چادر کا واقعہ بیان فرما کر فرمایا میں نے قریب جا کر کہا یا رسول اللہ میں بھی آپ کے اہل بیت سے ہوں آپ نے فرمایا دور رہو تم یقیناً خیر پر ہو ( ابن ابی حاتم ) حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اور ان چاروں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ اور سند سے یہ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا قول ہونا مروی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری تو آپ نے ان چاروں کو اپنے کپڑے تلے لے کر فرمایا یارب یہ میرے اہل ہیں اور میرے اہل بیت ہیں ( ابن جریر ) صحیح مسلم شریف میں ہے حضرت یزید بن حبان فرماتے ہیں میں اور حصین بن سیرہ اور عمر بن مسلمہ مل کر حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے ۔ حصین کہنے لگے اے زید آپ کو تو بہت سی بھلائیاں مل گئیں ۔ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ، آپ کی حدیثیں سنیں ، آپ کے ساتھ جہاد کئے ، آ پکے پیچھے نمازیں پڑھیں غرض آپ نے بہت خیر و برکت پا لیا اچھا ہمیں کوئی حدیث تو سناؤ ۔ آپ نے فرمایا بھتیجے اب میری عمر بڑی ہو گئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ دور ہو گیا ۔ بعض باتیں ذہن سے جاتی رہیں ۔ اب تم ایسا کرو جو باتیں میں از خود بیان کروں انہیں تم قبول کر لو ورنہ مجھے تکلیف نہ دو ۔ سنو! مکے اور مدینے کے درمیان ایک پانی کی جگہ پر جسے خم کہا جاتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ہمیں ایک خطبہ سنایا ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور وعظ و پند کے بعد فرمایا میں ایک انسان ہوں ۔ بہت ممکن ہے کہ میرے پاس میرے رب کا قاصد آئے اور میں اس کی مان لوں میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ پہلی تو کتاب اللہ جس پر ہدایت و نور ہے ۔ تم اللہ کی کتابوں کو لو اور اسے مضبوطی سے تھام لو پھر تو آپ نے کتاب اللہ کی بڑی رغبت دلائی اور اس کی طرف ہمیں خوب متوجہ فرمایا ۔ پھر فرمایا اور میری اہل بیت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں تین مرتبہ یہی کلمہ فرمایا ۔ تو حصین نے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا آپ کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی بیویاں آپ کی اہل بیت نہیں ہیں؟ فرمایا آپ کی بیویاں تو آپ کی اہل بیت ہیں ہی ۔ لیکن آپ کی اہل بیت وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ کھانا حرام ہے ، پوچھا وہ کون ہیں؟ فرمایا آل علی ، آل عقیل ، آل جعفر ، آل عباس رضی اللہ عنہم ۔ پوچھا کیا ان سب پر آپ کے بعد صدقہ حرام ہے؟ کہا ہاں! دوسری سند سے یہ بھی مروی ہے کہ میں نے پوچھا کیا آپ کی بیویاں بھی اہل بیت میں داخل ہیں؟ کہا نہیں قسم ہے اللہ کی بیوی کا تو یہ حال ہے کہ وہ اپنے خاوند کے پاس گو عرصہ دراز سے ہو لیکن پھر اگر وہ طلاق دے دے تو اپنے میکے میں اور اپنی قوم میں چلی جاتی ہے ۔ آپ کے اہل بیت آپ کی اصل اور عصبہ ہیں جن پر آپکے بعد صدقہ حرام ہے ۔ اس روایت میں یہی ہے لیکن پہلی روایت ہی اولیٰ ہے اور اسی کو لینا ٹھیک ہے اور اس دوسری میں جو ہے اس سے مراد صرف حدیث میں جن اہل بیت کا ذکر ہے وہ ہے کیونکہ وہاں وہ آل مراد ہے جن پر صدقہ خوری حرام ہے یا یہ کہ مراد صرف بیویاں نہیں ہیں بلکہ وہ مع آپ کی اور آل کے ہیں ۔ یہی بات زیادہ راحج ہے اور اس سے اس روایت اور اس سے پہلے کی روایت میں جمع بھی ہو جاتی ہے اور قرآن اور پہلی احادیث میں بھی جمع ہو جاتی ہے لیکن یہ اس صورت میں کہ ان احادیث کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے ۔ کیونکہ ان کی بعض اسنادوں میں نظر ہے واللہ تعالیٰ اعلم ۔ جس شخص کو نور معرفت حاصل ہو اور قرآن میں تدبر کرنے کی عادت ہو وہ یقینا بیک نگاہ جان لے گا کہ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بلاشبک و شبہ داخل ہیں اس لئے کہ اوپر سے کلام ہی ان کے ساتھ اور انہی کے بارے میں چل رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد ہی فرمایا کہ اللہ کی آیتیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں جن کا درس تمہارے گھروں میں ہو رہا ہے انہیں یاد رکھو اور ان پر عمل کرو ۔ پس اللہ کی آیات اور حکمت سے مراد بقول حضرت قتادہ وغیرہ کتاب و سنت ہے ۔ پس یہ خاص خصوصیت ہے جو ان کے سوا کسی اور کو نہیں ملی کہ ان کے گھروں میں اللہ کی وحی اور رحمت الٰہی نازل ہوا کرتی ہے اور ان میں بھی یہ شرف حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بطور اولیٰ اور سب سے زیادہ حاصل ہے کیونکہ حدیث شریف میں صاف وارد ہے کہ کسی عورت کے بستر پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی نہیں آتی بجز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بسترے کے یہ اس لئے بھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے سوا کسی اور باکرہ سے نکاح نہیں کیا تھا ۔ ان کا بستر بجز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کے لئے نہ تھا ۔ پس اس زیادتی درجہ اور بلندی مرتبہ کی وہ صحیح طور پر مستحق تھیں ۔ ہاں جبکہ آپ کی بیویاں آپ کے اہل بیت ہوئیں تو آپ کے قریبی رشتے دار بطور اولیٰ آپ کی اہل بیت ہیں ۔ جیسے حدیث میں گذر چکا کہ میرے اہل بیت زیادہ حقدار ہیں ۔ اس کی مثال میں یہ آیت ٹھیک طور پر پیش ہو سکتی ہے ۔ ( لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَي التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْهِ ۭ فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا ۭوَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ ١٠٨؁ ) 9- التوبہ:108 ) کہ یہ اتری تو ہے مسجد قبا کے بارے میں جیسا کہ صاف صاف احادیث میں موجود ہے ۔ لیکن صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ اس مسجد سے کون سی مسجد مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا وہ میری ہی مسجد ہے یعنی مسجد نبوی ۔ پس جو صفت مسجد قبا میں تھی وہی صفت چونکہ مسجد نبوی میں بھی ہے اس لئے اس مسجد کو بھی اسی نام سے اس آیت کے تحت داخل کر دیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا ۔ آپ ایک مرتبہ نماز پڑھا رہے تھے کہ بنو اسد کا ایک شخص کود کر آیا اور سجدے کی حالت میں آپ کے جسم میں خنجر گھونپ دیا جو آپ کے نرم گوشت میں لگا جس سے آپ کئی مہینے بیمار رہے جب اچھے ہوگئے تو مسجد میں آئے منبر پر بیٹھ کر خطبہ پڑھا جس میں فرمایا اے عراقیو! ہمارے بارے میں اللہ کا خوف کیا کرو ہم تمہارے حاکم ہیں ، تمہارے مہمان ہیں ، ہم اہل بیت ہیں جن کے بارے میں آیت ( وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا 33؀ۚ ) 33- الأحزاب:33 ) اتری ہے ۔ اس پر آپ نے خوب زور دیا اور اس مضمون کو بار بار ادا کیا جس سے مسجد والے رونے لگے ۔ ایک مرتبہ آپ نے ایک شامی سے فرمایا تھا کیا تو نے سورہ احزاب کی آیت تطہیر نہیں پڑھی؟ اس نے کہا ہاں کیا اس سے مراد تم ہو؟ فرمایا ہاں! اللہ تعالیٰ بڑے لطف و کرم والا ، بڑے علم اور پوری خبر والا ہے ۔ اس نے جان لیا کہ تم اس کے لطف کے اہل ہو ، اس لیے اس نے تمہیں یہ نعمتیں عطا فرمائیں اور یہ فضیلتیں تمہیں دیں ۔ پس اس آیت کے معنی مطابق تفسیر ابن جریر یہ ہوئے کہ اے نبی کی بیویو! اللہ کی جو نعمت تم پر ہے اسے تم یاد کرو کہ اس نے تمہیں ان گھروں میں کیا جہاں اللہ کی آیات اور حکمت پڑھی جاتی ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر اس کا شکر کرنا چاہئے اور اس کی حمد پڑھنی چاہئے کہ تم پر اللہ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے تمہیں ان گھروں میں آباد کیا ۔ حکمت سے مراد سنت و حدیث ہے ۔ اللہ انجام تک سے خبردار ہے ۔ اس نے اپنے پورے اور صحیح علم سے جانچ کر تمہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بننے کے لئے منتخب کر لیا ۔ پس دراصل یہ بھی اللہ کا تم پر احسان ہے جو لطیف و خبیر ہے ہر چیز کے جزوکل سے ۔