Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَقَرۡنَ فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ وَلَا تَبَـرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاهِلِيَّةِ الۡاُوۡلٰى وَاَقِمۡنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيۡنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ ؕ اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُذۡهِبَ عَنۡكُمُ الرِّجۡسَ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيۡرًا ۚ‏ ﴿33﴾
اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکٰوۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو اللہ تعالٰی یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ ( ہر قسم کی ) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے ۔
و قرن في بيوتكن و لا تبرجن تبرج الجاهلية الاولى و اقمن الصلوة و اتين الزكوة و اطعن الله و رسوله انما يريد الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت و يطهركم تطهيرا
And abide in your houses and do not display yourselves as [was] the display of the former times of ignorance. And establish prayer and give zakah and obey Allah and His Messenger. Allah intends only to remove from you the impurity [of sin], O people of the [Prophet's] household, and to purify you with [extensive] purification.
Aur apnay gharon mein qarar say raho aur qadeem jahiliyat kay zamaney ki tarah apna banao ka izhar na kero aur namaz ada kerti raho aur zakat deti raho aur Allah aur uss kay rasool ki itaat guzari kero. Allah Taalaa yehi chahta hai kay aey nabi ki ghar waliyon! Tum say woh ( her qisam ki ) gandagi ko door kerday aur tumhen khoob pak ker day.
اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو ( ٢٦ ) اور ( غیر مردوں کو ) بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو ، جیسا کہ پہلی بار جاہلیت میں دکھایا جاتا تھا ( ٢٧ ) اور نماز قائم کرو ، اور زکوٰۃ ادا کرو ، اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو ۔ اے نبی کے اہل بیت ! ( گھر والو ) ( ٢٨ ) اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور رکھے ، اور تمہیں ایسی پاکیزگی عطا کرے جو ہر طرح مکمل ہو ۔
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بےپردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بےپردگی ( ف۸٤ ) اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اللہ تو یہی چاہتا ہے ، اے نبی کے گھر والو! کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے ( ف۸۵ )
اپنے گھروں میں ٹک کر رہو 48 اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو 49 نماز قائم کرو ، زکوۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرو ۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے 50
اور اپنے گھروں میں سکون سے قیام پذیر رہنا اور پرانی جاہلیت کی طرح زیب و زینت کا اظہار مت کرنا ، اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا اور اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت گزاری میں رہنا ، بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے ( رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل ( اور شک و نقص کی گرد تک ) دُور کر دے اور تمہیں ( کامل ) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :48 اصل میں لفظ قَرْنَ استعمال ہوا ہے ۔ بعض اہل لغت نے اس کو قرار سے ماخوذ بتایا ہے اور بعض نے وقار سے ۔ اگر اس کو قرار سے لیا جائے تو معنی ہوں گے قرار پکڑو ۔ ٹک رہو ۔ اور اگر وقار سے لیا جائے تو مطلب ہو گا سکون سے رہو ، چین سے بیٹھو ۔ دونوں صورتوں میں آیت کا منشا یہ ہے کہ عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے ، اس کو اسی دائرے میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہییں ، اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاہیے ۔ یہ منشا خود آیت کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اس کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں ۔ حافظ ابو بکر بَزّار حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ساری فضیلت تو مرد لوٹ لے گئے ، وہ جہاد کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں ۔ ہم کیا عمل کریں کہ ہمیں بھی مجاہدین کے برابر اجر مل سکے ؟ جواب میں فرمایا من قعدت منکن فی بیتھا فانھا تدرک عمل المجاھدین جو تم میں سے گھر میں بیٹھے گی وہ مجاہدین کے عمل کو پالے گی ۔ مطلب یہ ہے کہ مجاہد دل جمعی کے ساتھ اسی وقت تو خدا کی راہ میں لڑ سکتا ہے جبکہ اسے اپنے گھر کی طرف سے پورا اطمینان ہو ، اس کی بیوی اس کے گھر اور بچوں کو سنبھالے بیٹھی ہو ، اور اسے کوئی خطرہ اس امر کا نہ ہو کہ پیچھے وہ کوئی گل کھلا بیٹھے گی ۔ یہ اطمینان جو عورت اسے فراہم کرے گی وہ گھر بیٹھے اس کے جہاد میں برابر کی حصہ دار ہو گی ۔ ایک اور روایت جو بزّار اور ترمذی نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے اس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان کرتے ہیں کہ انّ المرأۃ عورۃ فاذا خرجت استشرفھا الشیطان و اقرب ما تکون بروحۃ ربھا وھی فی قعر بیتھا ۔ عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے ۔ جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے ۔ اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر میں ہو ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور ، حاشیہ ٤۹ ) قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں ، بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں ، سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں ، کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائیں ، مردانہ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمت انجام دیں ، ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں مسافر نوازی کے لیے استعمال کی جائیں ، اور تعلیم و تربیت کے لیے امریکہ و انگلستان بھیجی جائیں عورت کے بیرون خانہ سرگرمیوں کے جواز میں بڑی سے بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جنگِ جَمَل میں حصہ لیا تھا ۔ لیکن یہ استدلال جو لوگ پیش کرتے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ خود حضرت عائشہ کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا ۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل نے زوائد الزھد میں ، اور ابن المُنذِر ، ابن ابی شَیْبَہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مَسْروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے اس آیت ( وَقَرْنَ فِی بُیُوْتِکُنَّ ) پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک کہ ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا تھا ، کیونکہ اس پر انہیں اپنی وہ غلطی یاد آ جاتی تھی جو ان سے جنگ جَمَل میں ہوئی تھی ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :49 اس آیت میں دو اہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کا سمجھنا آیت کے منشا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ۔ ایک تَبُّرج ‘ دوسرے جاہلیت اولیٰ ۔ تَبَرُّج کے معنی عربی زبان میں نمایاں ہونے ‘ ابھرنے اور کھل کر سامنے آنے کے ہیں ۔ ہر ظاہر اور مرتفع چیز کے لیے عرب لفظ بَرَج استعمال کرتے ہیں بُرج کو بُرج اس کے ظہور و ارتفاع کی بنا پر ہی کہا جاتا ہے ۔ بادبانی کشتی کے لیے بارجہ کا لفظ اسی لیے بولا جاتا ہے کہ اس کے بادبان دور سے نمایاں ہوتے ہیں ۔ عورت کے لیے جب لفظ تَبَرُّج استعمال کیا جائے تو اس کے تین مطلب ہونگے ۔ ایک یہ کہ وہ اپنے چہرے اور جسم کا حسن لوگوں کو دکھائے ، دوسرے یہ کہ وہ اپنے لباس اور زیور کی شان دوسروں کے سامنے نمایاں کرے ۔ تیسرے یہ کہ وہ اپنی چال ڈھال اور چَٹک مَٹک سے اپنے آپ کو نمایاں کرے ۔ یہی تشریح اس لفظ کی اکابر اہل لغت اور اکابر مفسرین نے کی ہے ۔ مجاہد ، قَتَادہ اور ابن انی نُجَیح کہتے ہیں : التبُّرج المشی بتبختُر و تکسر و تفنج تبرُّج کے معنی ہیں ناز و ادا کے ساتھ لچکے کھاتے اور اٹھلاتے ہوئے چلنا مُقاتل کہتے ہیں : ابدأ قلائدھا و قرطھا و عنقھا عورت کا اپنے ہار اور اپنے بندے اور اپنا گلا نمایاں کرنا ۔ المبّرد کا قول ہے : ان تبدی من محاسنھا ما یجب علیھا سترہ یہ کہ عورت اپنے وہ محاسن ظاہر کر دے جن کو اسے چھپانا چاہیے ۔ ابو عبیدہ کی تفسیر ہے : ان تُخرج من محاسنھا ما تستدعی بہ شہوۃ الرّجَال ۔ یہ کہ عورت اپنے جسم لباس کے حسب کو نمایاں کرے جس سے مردوں کو اس کی طرف رغبت ہو ۔ جاہلیت کا لفظ قرآن مجید میں اس مقام کے علاوہ تین جگہ اور استعمال ہوا ہے ۔ ایک ، آل عمران کی آیت ۱۵٤ میں ، جہاں اللہ کی راہ میں لڑنے سے جی چرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں حق کے خلاف جاہلیت کے سے گمان رکھتے ہیں ۔ دوسرے سُورۂ مائدہ ، آیت ۵۰ میں ، جہاں خدا کے قانون کے بجائے کسی اور قانون کے مطابق اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ۔ تیسرے سُورۂ فتح ، آیت ۲٦ میں ، جہاں کفار مکہ کے اس فعل کو حمیت جاہلیہ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ انہوں نے محض تعصب کی بنا پر مسلمانوں کو عمرہ نہ کرنے دیا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو الدرداء نے کسی سے جھگڑا کرتے ہوئے اس کو ماں کی گالی دے دی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا تم میں ابھی تک جاہلیت موجود ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین کام جاہلیت کے ہیں ۔ دوسروں کے نسب پر طعن کرنا ، ستاروں کی گردش سے فال لینا ، اور مردوں پر نوحہ کرنا ۔ ان تمام استعمالات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جا ہلیت سے مراد اسلام کی اصطلاح میں ہر وہ طرز عمل ہے جو اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اخلاق و آداب اور اسلامی ذہنیت کے خلاف ہو ۔ اور جاہلیت اولیٰ کا مطلب وہ برائیاں ہیں جن میں اسلام سے پہلے عرب کے لوگ اور دنیا بھر کے دوسرے لوگ مبتلا تھے ۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرز عمل سے عورتوں کو روکنا چاہتا ہے وہ ان کا اپنے حسن کی نمائش کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکلنا ہے ۔ وہ ان کو ہدایت فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹک کر رہو ، کیونکہ تمہارا اصل کام گھر میں ہے نہ کہ اس سے باہر ۔ لیکن اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو اس شان کے ساتھ نہ نکلو جس کے ساتھ سابق دور جاہلیت میں عورتیں نکلا کرتی تھیں ۔ بن ٹھن کر نکلنا ، چہرے اور جسم کے حسن کو زیب و زینت اور چست لباسوں یا عریاں لباسوں سے نمایاں کرنا ، اور ناز و ادا سے چلنا ایک مسلم معاشرے کی عورتوں کا کام نہیں ہے ۔ یہ جاہلیت کے طور طریقے ہیں جو اسلام میں نہیں چل سکتے ۔ اب یہ بات ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ جو ثقافت ہمارے ہاں رائج کی جا رہی ہے وہ قرآن کی رو سے اسلام کی ثقافت ہے یا جاہلیت کی ثقافت ۔ البتہ اگر کوئی اور قرآن ہمارے کار فرماؤں کے پاس آگیا ہے جس سے اسلام کی یہ نئی روح نکال کر مسلمانوں میں پھیلائی جا رہی ہے تو بات دوسری ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :50 جس سیاق و سباق میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اہل البیت سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں ۔ کیونکہ خطاب کا آغاز ہی یَا نِساء النبی کے الفاظ سے کیا گیا ہے اور ما قبل و ما بعد کی پوری تقریر میں وہی مخاطب ہیں ۔ علاوہ بریں اہل البیت کا لفظ عربی زبان میں ٹھیک انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ہم گھر والوں کا لفظ بولتے ہیں ، اور اس کے مفہوم میں آدمی کی بیوی اور اس کے بچے ، دونوں شامل ہوتے ہیں ۔ بیوی کو مستثنٰی کر کے اہل خانہ کا لفظ کوئی نہیں بولتا ۔ خود قرآن مجید میں بھی اس مقام کے سوا دو مزید مقامات پر یہ لفظ آیا ہے اور دونوں جگہ اس کے مفہوم میں بیوی شامل ، بلکہ مقدم ہے ۔ سورۂ ہود میں جب فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دیتے ہیں تو ان کی اہلیہ اسے سن کر تعجب کا اظہار کرتی ہیں کہ بھلا اس بڑھاپے میں ہمارے ہاں بچہ کیسے ہو گا ۔ اس پر فرشتے کہتے ہیں اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ ۔ کیا تم اللہ کے امر پر تعجب کرتی ہو؟ اس گھر کے لوگو ، تم پر تو اللہ کی رحمت ہے اور اس کی برکتیں ہیں ۔ سُورۂ قصص میں جب حضرت موسیٰ ایک شیر خوار بچے کی حیثیت سے فرعون کے گھر میں پہنچتے ہیں اور فرعون کی بیوی کو کسی ایسی انا کی تلاش ہوتی ہے جس کا دودھ بچہ پی لے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن جا کر کہتی ہیں ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلیٰٓ اَھْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْنَہ لَکُمْ ۔ کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کا پتہ دوں جو تمہارے لیے اس بچے کی پرورش کا ذمہ لیں ؟ پس محاورہ ، اور قرآن کے استعمالات ، اور خود اس آیت کا سیاق و سباق ، ہر چیز اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں آپ کی ازواج مطہرات بھی داخل ہیں اور آپ کی اولاد بھی ۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کا اصل خطاب ازواج سے ہے اور اولاد مفہوم لفظ سے اس میں شامل قرار پاتی ہے ۔ اسی بنا پر ابن عباس اور عُروہ بن زبیر اور عکْرمہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اہل البیت سے مراد ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ اہل البیت کا لفظ صرف ازواج کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس میں دوسرا کوئی داخل نہیں ہو سکتا ، تو یہ بات بھی غلط ہو گی ۔ صرف یہی نہیں کہ گھر والوں کے لفظ میں آدمی کے سب اہل و عیال شامل ہوتے ہیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تصریح فرمائی ہے کہ وہ بھی شامل ہیں ۔ ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ سے ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: تسألنی عن رجل کان من احبّ الناس الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکانت تحتہ ابنتہ واحبّ الناس الیہ ۔ تم اس شخص کے متعلق پوچھتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور جس کی بیوی حضور صلی اللہ علی وسلم کی وہ بیٹی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑھ کر محبوب تھی ۔ اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ واقعہ سنایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور فاطمہ اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان پر ایک کپڑا ڈال دیا اور دعا فرمائی اللھمّ ھٰؤلاء اھلُ بیتی فاَذْھِبْ عنھُم الرّجس و طھّرھم تطھیراً ۔ خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں ، ان سے گندگی کو دور کر دے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا ، میں بھی تو آپ کے اہل بیت میں سے ہوں ( یعنی مجھے بھی اس کپڑے میں داخل کر کے میرے حق میں دعا فرمایئے ) ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم الگ رہو ، تم تو ہو ہی ۔ اس سے ملتے جلتے مضمون کی بکثرت احادیث مسلم ، ترمذی ۔ احمد ، ابن جَریر ، حاکم ، بیہقی وغیرہ محدّثین نے انو سعید خُدری ، حضرت اَنَس ، حضرت اُمِّ سلمہ ، حضرت واثِلہ بن اَسْقَع رضی اللہ عنہم اور بعض دوسرے صحابہ سے نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما اور ان کے دونوں صاحبزادوں کو اپنا اہل البیت قرار دیا ۔ لہٰذا ان لوگوں کا خیال غلط ہے جو ان حضرات کو اس سے خارج ٹھہراتے ہیں ۔ اسی طرح ان لوگوں کی رائے بھی غلط ہے جو مذکورۂ بالا احادیث کی بنیاد پر ازواج مطہرات کو اہل البیت سے خارج ٹھہراتے ہیں ۔ اول تو جو چیز صراحۃً قرآن سے ثابت ہو اس کو کسی حدیث کے بل پر رد نہیں کیا جا سکتا ۔ دوسرے ‘ خود ان احادیث کا مطلب بھی وہ نہیں ہے جو ان سے نکالا جا ربا ہے ۔ ان میں سے بعض روایت میں جو یہ بات آئی ہے کہ حضرت عائشہ اور حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہما کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چادر کے نیچے نہیں لیا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں اصحاب کو لیا تھا ‘ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے گھر والوں سے خارج قرار دیا تھا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیویاں تو اہل بیت میں شامل تھیں ہی ‘ کیونکہ قرآن نے انہی کو مخاطب کیا تھا ‘ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ ان دوسرے اصحاب کے متعلق ظاہر قرآن کے لحاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو جائے کہ یہ اہل بیت سے خارج ہیں ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصریح کی ضرورت ان کے حق میں محسوس فرمائی نہ کہ ازواج مطہرات کے حق میں ۔ ایک گروہ نے اس آیت کی تفسیر میں صرف اتنا ہی ستم نہیں کیا ہے کہ ازواج مطہرات کو اہل البیت سے خارج کر کے صرف حضرت علی و فاطمہ اور ان کی اولاد کے لیے اس لفظ کو خاص کر دیا ، بلکہ اس پر مزید ستم یہ بھی کیا ہے کہ اس کے الفاظ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ حضرت علی و فاطمہ اور ان کی اولاد انبیاء علیہم السلام کی طرح معصوم ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ گندگی سے مراد خطا اور گناہ ہے اور ارشاد اِلٰہی کی رو سے یہ اہل البیت اس سے پاک کر دیے گئے ہیں ۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ تم سے گندگی دور کر دی گئی اور تم بالکل پاک کر دیے گئے ۔ بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تم سے گندگی کو دور کرنا اور تمہیں پاک کر دینا چاہتا ہے ۔ سیاق و سباق بھی یہ نہیں بتاتا کہ یہاں مناقب اہل بیت بیان کرنے مقصود ہیں ، بلکہ یہاں تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو ، اس لیے کہ اللہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے ۔ بالفاظ دیگر مطلب یہ ہے کہ تم فلاں رویہ اختیار کرو گے تو پاکیزگی کی نعمت تمہیں نصیب ہوگی ورنہ نہیں ۔ تاہم اگر یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ .........وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْراً کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ نے ان کو معصوم کر دیا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وضو اور غسل اور تیمم کرنے والے سب مسلمانوں کو معصوم نہ مان لیا جائے کیونکہ ان کی متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہ عَلَیْکُمْ ۔ مگر اللہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے ( المائدہ ۔ آیت ٦ ) ۔