Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاذۡكُرۡنَ مَا يُتۡلٰى فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالۡحِكۡمَةِؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيۡفًا خَبِيۡرًا‏ ﴿34﴾
اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقیناً اللہ تعالٰی لطف کرنے والا خبردار ہے ۔
و اذكرن ما يتلى في بيوتكن من ايت الله و الحكمة ان الله كان لطيفا خبيرا
And remember what is recited in your houses of the verses of Allah and wisdom. Indeed, Allah is ever Subtle and Acquainted [with all things].
Aur tumharay gharon mein Allah ki jo aayaten aur rasool ki jo aahdees parhi jati hain unn ka zikar kerti raho yaqeenan Allah Taalaa lutf kerney wala khabar daar hai.
اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور حکمت کی جو باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ یقین جانو اللہ بہت باریک بین اور ہر بات سے باخبر ہے ۔
اور یاد کرو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں اللہ کی آیتیں اور حکمت ( ف۸٦ ) بیشک اللہ ہر باریکی جانتا خبردار ہے ،
یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں 51 بے شک اللہ لطیف 52 اور باخبر ہے ۔ ع4
اور تم اللہ کی آیتوں کو اور ( رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ) سنت و حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے یاد رکھا کرو ، بیشک اللہ ( اپنے اولیاء کے لئے ) صاحبِ لُطف ( اور ساری مخلوق کے لئے ) خبردار ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :51 اصل میں لفظ وَاذْکُرْنَ استعمال ہوا ہے ، جس کے دو معنی ہیں : یاد رکھو اور بیان کرو ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اے نبی کی بیویو ، تم کبھی اس بات کو فراموش نہ کرنا کہ تمہارا گھر وہ ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیات الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے ، اس لیے تمہاری ذمہ داری بڑی سخت ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی گھر میں لوگ جاہلیت کے نمونے دیکھنے لگیں ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ نبی کی بیویو ، جو کچھ تم سنو اور دیکھو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتی رہو ، کیونکہ رسول کے ساتھ ہر وقت کی معاشرت سے بہت سی ہدایات تمہارے علم میں ایسی آئیں گی جو تمہارے سوا کسی اور ذریعہ سے لوگوں کو معلوم نہ ہو سکیں گی ۔ اس آیت میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک آیات اللہ ۔ دوسرے حکمت ۔ آیات اللہ سے مراد تو کتاب اللہ کی آیات ہی ہیں ۔ مگر حکمت کا لفظ وسیع ہے جس میں وہ تمام دانائی کی باتیں آجاتی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سکھاتے تھے ۔ اس لفظ کا اطلاق کتاب اللہ کی تعلیمات پر بھی ہو سکتا ہے ، مگر صرف انہی کے ساتھ اس کو خاص کر دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ قرآن کی آیات سنانے کے علاوہ جس حکمت کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سیرت پاک سے اور اپنے ارشادات سے دیتے تھی وہ بھی لا محالہ اس میں شامل ہے ۔ بعض لوگ محض اس بنیاد پر کہ آیت میں مَا یُتْلیٰ ( جو تلاوت کی جاتی ہیں ) کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آیات اللہ اور حکمت سے مراد صرف قرآن ہے ، کیونکہ تلاوت کا لفظ اصطلاحاً قرآن کی تلاوت کے لیے مخصوص ہے ۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے ۔ تلاوت کے لفظ کو اصطلاح کے طور پر قرآن یا کتاب اللہ کی تلاوت کے لیے مخصوص کر دینا بعد کے لوگوں کا فعل ہے ۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔ سُورۂ بقرہ آیت ۱۰۲ میں یہی لفظ جادو کے ان منتروں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو سناتے تھے ۔ وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلیٰ مُلْکِ سُلَیْمٰنَ ۔ انہوں نے پیروی کی اس چیز کی جس کی تلاوت کرتے تھے ( یعنی جسے سناتے تھے ) شیاطین سلیمان کی بادشاہی کی طرف منسوب کر کے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن اس لفظ کو اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتا ہے ۔ کتاب اللہ کی آیات سنانے کے لیے اصطلاحاً مخصوص نہیں کرتا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :52 اللہ لطیف ہے ۔ یعنی مخفی باتوں تک اس کا علم پہنچ جاتا ہے ۔ اس سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی ۔