Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّ الۡمُسۡلِمِيۡنَ وَالۡمُسۡلِمٰتِ وَالۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ وَالۡقٰنِتِيۡنَ وَالۡقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيۡنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيۡنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالۡخٰشِعِيۡنَ وَالۡخٰشِعٰتِ وَالۡمُتَصَدِّقِيۡنَ وَ الۡمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآٮِٕمِيۡنَ وَالصّٰٓٮِٕمٰتِ وَالۡحٰفِظِيۡنَ فُرُوۡجَهُمۡ وَالۡحٰـفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيۡنَ اللّٰهَ كَثِيۡرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا‏ ﴿35﴾
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں بردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں ، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں ، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنی والی عورتیں ، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں ، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ( ان سب کے ) لئے اللہ تعالٰی نے ( وسیع ) مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔
ان المسلمين و المسلمت و المؤمنين و المؤمنت و القنتين و القنتت و الصدقين و الصدقت و الصبرين و الصبرت و الخشعين و الخشعت و المتصدقين و المتصدقت و الصاىمين و الصىمت و الحفظين فروجهم و الحفظت و الذكرين الله كثيرا و الذكرت اعد الله لهم مغفرة و اجرا عظيما
Indeed, the Muslim men and Muslim women, the believing men and believing women, the obedient men and obedient women, the truthful men and truthful women, the patient men and patient women, the humble men and humble women, the charitable men and charitable women, the fasting men and fasting women, the men who guard their private parts and the women who do so, and the men who remember Allah often and the women who do so - for them Allah has prepared forgiveness and a great reward.
Bey shak musalman mard aur musalman aurten momin mard aur momin aurten farman bardaari kerney walay mard aur farman bardar aurten raast baaz mard aur raast baaz aurten aajzi kerney walay mard aur aajzi kerney wali aurten kheyraat kerney walay mard aur kheyraat kerney wali aurten rozay rakhney walay mard aur roza rakhney wali aurten apni sharamgah ki hifazat kerney walay mard aur hifazat kerney waliyan ba-kasrat Allah ka ziker kerney walay aur zikar kerney waliyan inn ( sab kay ) liye Allah Taalaa ney ( wasee ) maghfirat aur bara sawab tayyar ker rakha hai.
بیشک فرمانبردار مرد ہوں یا فرمانبردار عورتیں ( ٢٩ ) مومن مرد ہوں یا مومن عورتیں ، عبادت گذار مرد ہوں یا عبادت گذار عورتیں ، سچے مرد ہوں یا سچی عورتیں ، صابر مرد ہوں یا صابر عورتیں ، دل سے جھکنے والے مرد ہوں یا دل سے جھکنے والی عورتیں ( ٣٠ ) صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا صدقہ کرنے والی عورتیں ، روزہ دار مرد ہوں یا روزہ دار عورتیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد ہوں یا حفاظت کرنے والی عورتیں ، اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد ہوں یا ذکر کرنے والی عورتیں ، ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور شاندار اجر تیار کر رکھا ہے ۔
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ( ف۸۷ ) اور ایمان والے اور ایمان والیاں اور فرمانبردار اور فرمانبرداریں اور سچے اور سچیاں ( ف۸۸ ) اور صبر والے اور صبر والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور روزے والے اور روزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اس نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ،
بالیقین 53 جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں 54 ، مومن ہیں 55 ، مطیع فرمان ہیں 56 ، راست باز ہیں 57 ، صابر ہیں 58 ، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں 59 صدقہ دینے والے ہیں 60 ، روزہ رکھنے والے ہیں 61 ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں 62 ، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں 63 ، اور اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے 64
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں ، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں ، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں ، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں ، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں ، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں ، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں ، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :53 پچھلے پیراگراف کے بعد متصلاً یہ مضمون ارشاد فرما کر ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف کر دیا گیا ہے کہ اوپر ازواج مطہرات کو جو ہدایات دی گئی ہیں وہ ان کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ مسلم معاشرے کو بالعموم اپنے کردار کی اصلاح انہی ہدایات کے مطابق کرنی چاہیے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :54 یعنی جنہوں نے اسلام کو اپنے لیے ضابطۂ حیات کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے اور یہ طے کر لیا ہے کہ اب وہ اسی کی پیروی میں زندگی بسر کریں گے ۔ دوسرے الفاظ میں ، جن کے اندر اسلام کے دیے ہوئے طریق فکر اور طرز زندگی کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت باقی نہیں رہی ہے ۔ بلکہ وہ اس کی اطاعت اور اتباع کی راہ اختیار کر چکے ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :55 یعنی جن کی یہ اطاعت محض ظاہری نہیں ہے ۔ بادل ناخواستہ نہیں ہے ، بلکہ دل سے وہ اسلام ہی کی رہنمائی کو حق مانتے ہیں ۔ ان کا ایمان یہی ہے کہ فکر و عمل کا جو راستہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا ہے وہی سیدھا اور صحیح راستہ ہے اور اسی کی پیروی میں ہماری فلاح ہے ۔ جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے غلط کہہ دیا ہے ان کی اپنی رائے بھی یہی ہے کہ وہ یقیناً غلط ہے ، اور جسے اللہ اور اس کے رسول نے حق کہہ دیا ہے ان کا اپنا دل و دماغ بھی اسے برحق ہی یقین کرتا ہے ۔ ان کے نفس اور ذہن کی حالت یہ نہیں ہے کہ قرآن اور سنت سے جو حکم ثابت ہو اسے وہ نامناسب سمجھتے ہوں اور اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہیں کہ کسی طرح اسے بدل کر اپنی رائے کے مطابق ، یا دنیا کے چلتے ہوئے طریقوں کے مطابق ڈھال بھی دیا جائے اور یہ الزام بھی اپنے سر نہ لیا جائے کہ ہم نے حکم خدا اور رسول میں ترمیم کر ڈالی ہے ۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایمان کی صحیح کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں : ذاق طعم الایمان من رضی باللّٰہ ربّاً و بالاسلام دینا و بِمُحمَّدٍ رسُولا ۔ ایمان کا لذت شناس ہو گیا وہ شخص جو راضی ہوا اس بات پر کہ اللہ ہی اس کا رب ہو اور اسلام ہی اس کا دین ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے رسول ہوں ۔ اور ایک دوسری حدیث میں آپ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں ۔ لا یؤمن احدکم حتٰی یکون ھواہ تبعاً لما جئتُ بہ ( شرح السنّہ ) تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس چیز کے تابع نہ ہو جائے جسے میں لایا ہوں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :56 یعنی وہ محض مان کر رہ جانے والے بھی نہیں ہیں بلکہ عملاً اطاعت کرنے والے ہیں ۔ ان کی یہ حالت نہیں ہے کہ ایمانداری کے ساتھ حق تو اسی چیز کو مانیں جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے مگر عملاً اس کی خلاف ورزی کریں ، اور اپنی مخلصانہ رائے میں تو ان سب کاموں کو برا ہی سمجھتے رہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے مگر اپنی عملی زندگی میں ارتکاب انہی کا کرتے چلے جائیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :57 یعنی اپنی گفتار میں بھی سچے ہیں اور اپنے معاملات میں بھی کھرے ہیں ۔ جھوٹ ، فریب ، بدنیتی ، دغا بازی اور چھل بٹے ان کی زندگی میں نہیں پائے جاتے ۔ ان کی زبان وہی بولتی ہے جسے ان کا ضمیر صحیح جانتا ہے ۔ وہ کام وہی کرتے ہیں جو ایمانداری کے ساتھ ان کے نزدیک راستی و صداقت کے مطابق ہوتا ہے ۔ اور جس سے بھی وہ کوئی معاملہ کرتے ہیں دیانت کے ساتھ کرتے ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :58 یعنی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے اور خدا کے دین کو قائم کرنے میں جو مشکلات بھی پیش آئیں ، جو خطرات بھی درپیش ہوں ، جو تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں اور جن نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑے ، ان کا پوری ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں ۔ کوئی خوف ، کوئی لالچ اور خواہشات نفس کا کوئی تقاضا ان کو سیدھی راہ سے ہٹا دینے میں کامیاب نہیں ہوتا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :59 یعنی وہ تکبُّر اور استکبار اور غرور نفس سے خالی ہیں ۔ وہ اس حقیقت کا پورا شعور و احساس رکھتے ہیں کہ ہم بندے ہیں اور بندگی سے بالا تر ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ اس لیے ان کے دل اور جسم دونوں ہی اللہ کے آگے جھکے رہتے ہیں ۔ ان پر خدا کا خوف غالب رہتا ہے ۔ ان سے کبھی وہ رویہ ظاہر نہیں ہوتا جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا اور خدا سے بے خوف لوگوں سے ظاہر ہوا کرتا ہے ۔ ترتیب کلام ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس عام خدا ترسانہ رویہ کے ساتھ خاص طور پر خشوع سے مراد نماز ہے کیونکہ اس کے بعد ہی صدقے اور روزے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :60 اس سے مراد صرف فرض زکوٰۃ ادا کرنا ہی نہیں ہے ، بلکہ عام خیرات بھی اس میں شامل ہے ۔ مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کھلے دل سے اپنے مال صرف کرتے ہیں ۔ اللہ کے بندوں کی مدد کرنے میں اپنی حد استطاعت تک وہ کوئی دریغ نہیں کرتے ۔ کوئی یتیم ، کوئی بیمار ، کوئی مصیبت زدہ ، کوئی ضعیف و معذور ، کوئی غریب و محتاج آدمی ان کی بستیوں میں دستگیری سے محروم نہیں رہتا ۔ اور اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لیے ضرورت پیش آجائے تو اس پر اپنے مال لٹا دینے میں وہ کبھی بخل سے کام نہیں لیتے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :61 اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے شامل ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :62 اس میں دو مفہوم شامل ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ زنا سے پرہیز کرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ برہنگی و عریانی سے اجتناب کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ برہنگی و عریانی صرف اسی چیز کا نام نہیں ہے کہ آدمی لباس کے بغیر بالکل ننگا ہو جائے ۔ بلکہ ایسا لباس پہننا بھی برہنگی ہی ہے جو اتنا رقیق ہو کہ جسم اس میں سے جھلکتا ہو ، یا اتنا چست ہو کہ جسم کی ساخت اور اس کے نشیب و فراز سب اس میں سے نمایاں نظر آتے ہوں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :63 اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے ۔ یہ کیفیت آدمی پر اس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو ۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لا شعور تک میں جب یہ خیال گہرا اتر جاتا ہے تب ہے اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا ۔ کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا ۔ فارغ ہو گا تو الحمد للہ کہے گا ۔ سوئے گا تو اللہ کو یاد کر کے اور اٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے ۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ ، الحمد للہ ، ماشاء اللہ اور اسی طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے ۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگے گا ۔ ہر نعمت ملنے پر اس کا شکر ادا کرے گا ۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلبگار ہو گا ۔ مشکل میں اس سے رجوع کرے گا ۔ ہر برائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا ۔ ہر قصور سرزد ہو جانے پر اس سے معافی چاہے گا ۔ ہر حاجت پیش آنے پر اس سے دعا مانگے گا ۔ غرض اٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہو گا ۔ یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے ۔ دوسری جتنی بھی عبادات ہیں ان کے لیے بہرحال کو ئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہو جاتا ہے ۔ لیکن یہ وہ عبادت ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے ۔ خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کا دل محض ان خاص اعمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کی طرف راغب اور اس کی زبان دائماً اس کے ذکر سے تر رہے ۔ یہ حالت انسان کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اسی طرح پروان چڑھتے اور نشو و نما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطابق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو ۔ اس کے برعکس جو زندگی اس دائمی ذکر خدا سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پر ادا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہو اور محض باغبان کی خاص خبر گیری کی وجہ سے پل رہا ہو ۔ اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں یوں واضح فرماتے ہیں : عن معاذ بن انس الجھنی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان رجلاً سألہ ای المجاھدین اعظمُ اجراً یا رسول اللہَ؟ قال اکثرھم للہِ تعَالیٰ ذکراً قال ایُّ الصائمین اکثر اجرا ؟ قال اکثرھم لِلہ عزّ وجل ذکراً ثم ذکرا لصّلوٰۃ والزکوٰۃ والحجّ والصَّدَقَۃکل ذٰلک یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثرھم لِلہ ذکراً ۔ ( مسند احمد ) معاذ بن انَس جُہَنی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ، جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے ؟ فرمایا جو ان میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے ۔ اس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گا ؟ فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرنے والا ہو ۔ پھر اس شخص نے اسی طرح نماز ، زکوٰۃ حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کا یہی جواب دیا کہ جو اللہ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :64 اس آیت میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اصل قدر و قیمت کن اوصاف کی ہے ۔ یہ اسلام کی بنیادی قدریں ( Basic values ) ہیں جنہیں ایک فقرے کے اندر سمیٹ دیا گیا ہے ۔ ان قدروں کے لحاظ سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ عمل کے لحاظ سے تو بلاشبہ دونوں صنفوں کا دائرۂ کار الگ ہے ۔ مردوں کو زندگی کے کچھ شعبوں میں کام کرنا ہے اور عورتوں کو کچھ اور شعبوں میں اگر یہ اوصاف دونوں میں یکساں موجود ہوں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں دونوں کا مرتبہ یکساں اور دونوں کا اجر برابر ہو گا ۔ اس لحاظ سے ان کے مرتبے اور اجر میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ایک نے چولھا چکی سنبھالا اور دوسرے نے خلافت کی مسند پر بیٹھ کر احکام شریعت جاری کیے ، ایک نے گھر میں بچے پالے اور دوسرے نے میدان جنگ میں جا کر اللہ اور اس کے دین کے لیے جان لڑائی ۔
اسلام اور ایمان میں فرق اور ذکر الٰہی ۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ مردوں کا ذکر تو قرآن میں آتا رہتا ہے لیکن عورتوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا جاتا ۔ ایک دن میں اپنے گھر میں بیٹھی اپنے سر کے بال سلجھا رہی تھی جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز منبر پر سنی میں نے بالوں کو تو یونہی لپیٹ لیا اور حجرے میں آ کر آپ کی باتیں سننے لگی تو آپ اس وقت یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے ۔ نسائی وغیرہ ۔ اور بہت سی روایتیں آپ سے مختصراً مروی ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ چند عورتوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا تھا اور روایت میں ہے کہ عورتوں نے ازواج مطہرات سے یہ کہا تھا ۔ اسلام و ایمان کو الگ الگ بیان کرنا دلیل ہے اس بات کی کہ ایمان اسلام کا غیر ہے اور ایمان اسلام سے مخصوص و ممتاز ہے ( قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا 14؀ ) 49- الحجرات:14 ) والی آیت اور بخاری و مسلم کی حدیث کہ زانی زنا کے وقت مومن نہیں ہوتا پھر اس پر اجماع کہ زنا سے کفر لازم نہیں آتا ۔ یہ اس پر دلیل ہے اور ہم شرح بخاری کی ابتداء میں اسے ثابت کر چکے ہیں ۔ ( یہ یاد رہے کہ ان میں فرق اس وقت ہے جب اسلام حقیقی نہ ہو جیسے کہ امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کتاب الایمان میں بدلائل کثیرہ ثابت کیا ہے ، واللہ اعلم ، مترجم ) قنوت سے مراد سکون کے ساتھ کی اطاعت گذاری ہے جیسے ( اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَّقَاۗىِٕمًا يَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ ۭ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ Ḍ۝ۧ ) 39- الزمر:9 ) ، میں ہے اور فرمان ہے ( وَلَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ 26؀ ) 30- الروم:26 ) یعنی آسمان و زمین کی ہر چیزاللہ کی فرماں بردار ہے اور فرماتا ہے ( يٰمَرْيَمُ اقْنُتِىْ لِرَبِّكِ وَاسْجُدِيْ وَارْكَعِيْ مَعَ الرّٰكِعِيْنَ 43 ؀ ) 3-آل عمران:43 ) ، اور فرماتا ہے ( وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ ٢٣٨؁ ) 2- البقرة:238 ) یعنی اللہ کے سامنے با ادب فرماں برداری کی صورت میں کھڑے ہوا کرو ۔ پس اسلام کے اوپر کا مرتبہ ایمان ہے اور ان کے اجتماع سے انسان میں فرماں برداری اور اطاعت گذاری پیدا ہو جاتی ہے ۔ باتوں کی سچائی اللہ کو بہت ہی محبوب ہے اور یہ عادت ہر طرح محمود ہے ۔ صحابہ کبار میں تو وہ بزرگ بھی تھے جنہوں نے جاہلیت کے زمانے میں بھی کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا ، سچائی ایمان کی نشانی ہے اور جھوٹ نفاق کی علامت ہے ۔ سچا نجات پاتا ہے ۔ سچ ہی بولا کرو ۔ سچائی نیکی کی طرف رہبری کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف ۔ جھوٹ سے بچو ۔ جھوٹ بدکاری کی طرف رہبری کرتا ہے اور فسق وفجور انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے ۔ انسان سچ بولتے بولتے اور سچائی کا قصد کرتے کرتے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ بولتے ہوئے اور جھوٹ کا قصد کرتے ہوئے اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ صبر ثابت قدمی کا نتیجہ ہے ۔ مصیبتوں پر صبر ہوتا ہے اس علم پر کہ تقدیر کا لکھا ٹلتا نہیں ۔ سب سے زیادہ سخت صبر صدمے کے ابتدائی وقت پر ہے اور اسی کا اجر زیادہ ہے ۔ پھر تو جوں جوں زمانہ گذرتا ہے خواہ مخواہ ہی صبر آ جاتا ہے ۔ خشوع سے مراد تسکین دلجمعی تواضح فروتنی اور عاجزی ہے ۔ یہ انسان میں اس وقت آتی ہے جبکہ دل میں اللہ کا خوف اور رب کو ہر وقت حاضر ناظر جانتا ہو اور اس طرح اللہ کی عبادت کرتا ہو جیسے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور یہ نہیں تو کم از کم اس درجے پر وہ ضرور ہو کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ صدقے سے مراد محتاج ضعیفوں کو جن کی کوئی کمائی نہ ہو نہ جن کا کوئی کمانے والا ہو انہیں اپنا فالتو مال دینا اس نیت سے کہ اللہ کی اطاعت ہو اور اس کی مخلوق کا کام بنے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا ان میں ایک وہ بھی ہے جو صدقہ دیتا ہے لیکن اسطرح پوشیدہ طور پر کہ داہنے ہاتھ کے خرچ کی بائیں ہاتھ کو خبر نہیں لگتی اور حدیث میں ہے صدقہ خطاؤں کو اسطرح مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور بھی اس بارے کی بہت سی حدیثیں ہیں جو اپنی اپنی جگہ موجود ہیں ۔ روزے کی بابت حدیث میں ہے کہ یہ بدن کی زکوٰۃ ہے یعنی اسے پاک صاف کر دیتا ہے اور طبی طور پر بھی ردی اخلاط کو مٹا دیتا ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رمضان کے روزے رکھ کر جس نے ہر مہینے میں تین روزے رکھ لئے وہ ( وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا 35؀ ) 33- الأحزاب:35 ) ، میں داخل ہو گیا ۔ روزہ شہوت کو بھی جھکا دینے والا ہے ۔ حدیث میں ہے اے نوجوانو تم میں سے جسے طاقت ہو وہ تو اپنا نکاح کر لے تاکہ اس سے نگاہیں نیچی رہیں اور پاک دامنی حاصل ہو جائے اور جسے اپنے نکاح کی طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے ، یہی اس کے لئے گویا خصی ہونا ہے ۔ اسی لئے روزوں کے ذکر کے بعد ہی بدکاری سے بچنے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ایسے مسلمان مرد و عورت حرام سے اور گناہ کے کاموں سے بچتے رہتے ہیں ۔ اپنی اس خاص قوت کو جائز جگہ صرف کرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ یہ لوگ اپنے بدن کو روکے رہتے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں سے اور لونڈیوں سے ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ ہاں اس کے سوا جو اور کچھ طلب کرے وہ حد سے گذر جانے والا ہے ۔ ذکر اللہ کی نسبت ایک حدیث میں ہے کہ جب میاں اپنی بیوی کو رات کے وقت جگا کر دو رکعت نماز دونوں پڑھ لیں تو وہ اللہ کا ذکر کرنے والوں میں لکھ لئے جاتے ہیں ( ملاحظہ ہو ابو داؤد وغیرہ ) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے درجے والا بندہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک کون ہے؟ آپ نے فرمایا کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ کے مجاہد سے بھی؟ آپ نے فرمایا اگرچہ وہ کافروں پر تلوار چلائے یہاں تک کہ تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خون میں رنگ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنے والا اس سے افضل ہی رہے گا ۔ ( مسند احمد ) مسند ہی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے کے راستے میں جا رہے تھے جمدان پر پہنچ کر فرمایا یہ جمدان ہے مفرد بن کر چلو ۔ آگے بڑھنے والوں نے پوچھا مفرد سے کیا مراد ہے؟ فرمایا اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے ۔ پھر فرمایا اے اللہ حج و عمرے میں اپنا سر منڈوانے والوں پر رحم فرما! لوگوں نے کہا بال کتروانے والوں کے لئے بھی دعا کیجئے آپ نے فرمایا یا اللہ سر منڈوانے والوں کو بخش ۔ لوگوں نے پھر کتروانے الوں کے لئے درخواست کی تو آپ نے فرمایا کتروانے والے بھی ۔ آپ کا فرمان ہے کہ اللہ کے عذابوں سے نجات دینے والا کوئی عمل اللہ کے ذکر سے بڑا نہیں ۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا میں تمہیں سب سے بہتر سب سے پاک اور سب سے بلند درجے کا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے حق میں سونا چاندی اللہ کی راہ میں لٹانے سے بھی بہتر ہو اور اس سے بھی افضل ہو جب تم کل دشمن سے ملو گے اور ان کی گردنیں مارو گے اور وہ تمہاری گردنیں ماریں گے ۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلائے فرمایا اللہ عزوجل کا ذکر ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون سا مجاہد افضل ہے؟ آپ نے فرمایا سب سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے والا ۔ اس نے پھر روزے دار کی نسبت پوچھا یہی جواب ملا پھر نماز ، زکوٰۃ ، حج صدقہ ، سب کی بابت پوچھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کا یہی جواب دیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا پھر اللہ کا ذکر کرنے والے تو بہت ہی بڑھ گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ کثرت ذکر اللہ کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں آئی ہیں ۔ اسی سورت کی آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا 41؀ۙ ) 33- الأحزاب:41 ) کی تفسیر میں ہم ان احادیث کو بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرمایا یہ نیک صفتیں جن میں ہوں ہم نے ان کے لئے مغفرت تیار کر رکھی ہے اور اجر عظیم یعنی جنت