Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّلَا مُؤۡمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ اَمۡرًا اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهُمُ الۡخِيَرَةُ مِنۡ اَمۡرِهِمۡ ؕ وَمَنۡ يَّعۡصِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيۡنًا‏ ﴿36﴾
اور ( دیکھو ) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا ( یاد رکھو ) اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا ۔
و ما كان لمؤمن و لا مؤمنة اذا قضى الله و رسوله امرا ان يكون لهم الخيرة من امرهم و من يعص الله و رسوله فقد ضل ضللا مبينا
It is not for a believing man or a believing woman, when Allah and His Messenger have decided a matter, that they should [thereafter] have any choice about their affair. And whoever disobeys Allah and His Messenger has certainly strayed into clear error.
Aur ( dekho ) kissi momin mard-o-aurat ko Allah aur uss kay rasool kay faislay kay baad apnay kissi amar ka koi ikhtiyar baqi nahi rehta ( yaad rakho ) Allah Taalaa aur uss kay rasool ki jo bhi na farmani keray ga woh sareeh gumrahee mein paray ga.
اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا حتمی فیصلہ کردیں تو نہ کسی مومن مرد کے لیے یہ گنجائش ہے نہ کسی مومن عورت کے لیے کہ ان کو اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے ۔ ( ٣١ ) اور جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ، وہ کھلی گمراہی میں پڑگیا ۔
اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انھیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے ( ف۸۹ ) اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بیشک صریح گمراہی بہکا ،
کسی65 مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے ۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا 66
اور نہ کسی مومن مرد کو ( یہ ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کسی کام کا فیصلہ ( یا حکم ) فرما دیں تو ان کے لئے اپنے ( اس ) کام میں ( کرنے یا نہ کرنے کا ) کوئی اختیار ہو ، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقیناً کھلی گمراہی میں بھٹک گیا
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :65 یہاں سے وہ آیات شروع ہوتی ہیں جو حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :66 ابن عباس ، مجاہد ، قَتادہ ، عِکْرِمَہ اور مُقاتِل بن حَیّان کہتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا تھا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور ان کے رشتہ داروں نے اسے نامنظور کر دیا تھا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیغام دیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا ، انا خیر منہ نسباً ، میں اس سے نسب میں بہتر ہوں ۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ انہوں نے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ لا ارضاہ لنفسی وانا ایّم قریش ۔ میں اسے اپنے لیے پسند نہیں کرتی ، میں قریش کی شریف زادی ہوں ۔ اسی طرح کا اظہار نارضا مندی ان کے بھائی عبداللہ بن جَحْش رضی اللہ عنہ نے بھی کیا تھا ۔ اس لیے کہ حضرت زید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ( اُمَیْمہ بنت عبدالمطلب ) کی صاحبزادی تھیں ۔ ان لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی ، اور وہ بھی کوئی غیر نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی پھوپھی زاد بہن ہے ، اور اس کا پیغام آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آزاد کردہ غلام کے لیے دے رہے ہیں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، اور اسے سنتے ہی حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور ان کے سب خاندان والوں نے بلا تامل سر اطاعت خم کر دیا ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح پڑھایا ، خود حضرت زید رضی اللہ عنہ کی طرف سے دس دینار اور ٦۰ درہم مہر ادا کیا ، چڑھاوے کے کپڑے دیے ، اور کچھ سامان خوراک گھر کے خرچ کے لیے بھجوا دیا ۔ یہ آیت اگرچہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی ہے ، مگر جو حکم اس میں بیان کیا گیا ہے وہ اسلامی آئین کا اصل الاصول ہے اور اس کا اطلاق پورے اسلامی نظام زندگی پر ہوتا ہے ، اس کی رو سے کسی مسلمان فرد ، یا قوم ، یا ادارے ، یا عدالت ، یا پارلیمنٹ ، یا ریاست کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم ثابت ہو اس میں وہ خود اپنی آزادی رائے استعمال کرے ۔ مسلمان ہونے کے معنی ہی خدا اور رسول کے آگے اپنے آزادانہ اختیار سے دستبردار ہو جانے کے ہیں ۔ کسی شخص یا قوم کا مسلمان ہونا اور اپنے لیے اس اختیار کو محفوظ بھی رکھنا ، دونوں ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں ۔ کوئی ذی عقل انسان ان دونوں رویوں کو جمع کرنے کا تصور نہیں کر سکتا جسے مسلمان رہنا ہو اس کو لازماً حکم خدا و رسول کے آگے جھک جانا ہو گا ۔ اور جسے نہ جھکنا ہو اس کو سیدھی طرح ماننا پڑے گا کہ وہ مسلمان نہیں ہے ۔ نہ مانے گا تو چاہے اپنے مسلمان ہونے کا وہ کتنا ہی ڈھول پیٹے ، خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ منافق ہی قرار پائے گا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو رد کرنا گناہ عظیم ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کا پیغام لے کر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئے ۔ انہوں نے کہا میں اس سے نکاح نہیں کروں گی آپ نے فرمایا! ایسا نہ کہو اور ان سے نکاح کر لو ۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ اچھا پھر کچھ مہلت دیجئے میں سوچ لوں ۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ وحی نازل ہوئی اور یہ آیت اتری ۔ اسے سن کر حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ۔ یا رسول اللہ! کیا آپ اس نکاح سے رضامند ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ بس پھر مجھے کوئی انکار نہیں ، میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کروں گی ۔ میں نے اپنا نفس ان کے نکاح میں دے دیا اور روایت میں ہے کہ وجہ انکار یہ تھی کہ نسب کے اعتبار سے یہ بہ نسبت حضرت زید کے زیادہ شریف تھیں ۔ حضرت زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عقبہ بن ابو معیط کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ صلح حدیبیہ کے بعد سب سے پہلے مہاجر عورت یہی تھی ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا نفس آپ کو ہبہ کرتی ہوں ۔ آپ نے فرمایا مجھے قبول ہے ۔ پھر حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کرا دیا ۔ غالباً یہ نکاح حضرت زینب رضی اللہ عنہ کی علیحدگی کے بعد ہوا ہو گا ۔ اس سے حضرت ام کلثوم ناراض ہوئیں اور ان کے بھائی بھی بگڑ بیٹھے کہ ہمارا اپنا ارادہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کا تھا نہ کہ آپ کے غلام سے نکاح کرنے کا ، اس پر یہ آیت اتری بلکہ اس سے بھی زیادہ معاملہ صاف کر دیا گیا اور فرما دیا گیا کہ ( اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا Č۝ ) 33- الأحزاب:6 ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ اولیٰ ہیں ۔ پس آیت ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا 36؀ۭ ) 33- الأحزاب:36 ) خاص ہے اور اس سے بھی جامع آیت یہ ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک انصاری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی لڑکی کا نکاح جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اچھی بات ہے ۔ میں اس کی ماں سے بھی مشورہ کرلوں ۔ جا کر ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا ، ہم نے فلاں فلاں ان سے بڑے بڑے آدمیوں کے پیغام کو رد کردیا اور اب جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر دیں ۔ انصاری اپنی بیوی کا یہ جواب سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانا چاہتے ہی تھے کہ لڑکی جو پردے کے پیچھے سے یہ تمام گفتگو سن رہی تھی بول پڑی کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد کرتے ہو؟جب حضور اس سے خوش ہیں تو تمہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔ اب دونوں نے کہا کہ بچی ٹھیک کہہ رہی ہے ۔ بیچ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس نکاح سے انکار کرنا گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور خواہش کو رد کرنا ہے ، یہ ٹھیک نہیں ۔ چنانچہ انصاری سیدھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کیا آپ اس بات سے خوش ہیں؟ آپ نے فرمایا! ہاں میں تو اس سے رضامند ہوں ۔ کہا پھر آپ کو اختیار ہے آپ نکاح کر دیجئے ، چنانچہ نکاح ہو گیا ۔ ایک مرتبہ اہل اسلام مدینہ والے دشمنوں کے مقابلے کے لئے نکلے ، لڑائی ہوئی جس میں حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے انہوں نے بھی بہت سے کافروں کو قتل کیا تھا جن کی لاشیں ان کے آس پاس پڑی ہوئی تھیں ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے خود دیکھا ان کا گھر بڑا آسودہ حال تھا ۔ تمام مدینے میں ان سے زیادہ خرچیلا کوئی نہ تھا ۔ ایک اور روایت میں حضرت ابو بردہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ کی طبیعت خوش مذاق تھی اس لئے میں نے اپنے گھر میں کہہ دیا تھا کہ یہ تمہارے پاس نہ آئیں ۔ انصاریوں کی عادت تھی کہ وہ کسی عورت کا نکاح نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ یہ معلوم کرلیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بابت کچھ نہیں فرماتے ۔ پھر وہ واقعہ بیان فرمایا جو اوپر مذکور ہوا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سات کافروں کو اس غزوے میں قتل کیا تھا ۔ پھر کافروں نے یک مشت ہو کر آپ کو شہید کر دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تلاش کرتے ہوئے جب ان کی نعش کے پاس آئے تو فرمایا سات کو مار کر پھر شہید ہوئے ہیں ۔ یہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں ۔ دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا پھر قبر کھدوا کر اپنے ہاتھوں پر انہیں اٹھا کر قبر میں اتارا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک ہی ان کا جنازہ تھا اور کوئی چار پائی وغیرہ نہ تھی ۔ یہ بھی مذکور نہیں کہ انہیں غسل دیا گیا ہو ۔ اس نیک بخت انصاریہ عورت کے لئے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی عزت رکھ کر اپنے ماں باپ کو سمجھایا تھا کہ انکار نہ کرو ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ اس پر اپنی رحمتوں کی بارش برسا اور اسے زندگی کے پورے لطف عطا فرما ۔ تمام انصار میں ان سے زیادہ خرچ کرنے والی عورت نہ تھی ۔ انہوں نے جب پردے کے پیچھے سے اپنے والدین سے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات رد نہ کرو اس وقت یہ آیت ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا 36؀ۭ ) 33- الأحزاب:36 ) نازل ہوئی تھی ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت طاؤس نے پوچھا کہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھ سکتے ہیں؟ آپ نے منع فرمایا اور اسی آیت کی تلاوت کی پس یہ آیت گو شان نزول کے اعتبار سے مخصوص ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے ہوتے ہوئے نہ تو کوئی مخالفت کر سکتا ہے نہ اسے ماننے نہ ماننے کا اختیار کسی کو باقی رہتا ہے ۔ نہ رائے اور قیاس کرنے کا حق ، نہ کسی اور بات کا ۔ جیسے فرمایا ( فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65؀ ) 4- النسآء:65 ) ، یعنی قسم ہے تیرے رب کی لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک کہ وہ آپس کے تمام اختلافات میں تجھے حاکم نہ مان لیں ۔ پھر تیرے فرمان سے اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی نہ رکھیں بلکہ کھلے دل سے تسلیم کر لیا ۔ صحیح حدیث میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو گا جب تک کہ اس کی خواہش اس چیز کی تابعدار نہ بن جائے جسے میں لایا ہوں ۔ اسی لئے یہاں بھی اس کی نافرمانی کی برائی بیان فرما دی کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والا کھلم کھلا گمراہ ہے ۔ جیسے فرمان ہے ( فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63؀ ) 24- النور:63 ) یعنی جو لوگ ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو ان پر کوئی فتنہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب ہو ۔