Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِذۡ تَقُوۡلُ لِلَّذِىۡۤ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِ وَاَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِ اَمۡسِكۡ عَلَيۡكَ زَوۡجَكَ وَاتَّقِ اللّٰهَ وَتُخۡفِىۡ فِىۡ نَفۡسِكَ مَا اللّٰهُ مُبۡدِيۡهِ وَتَخۡشَى النَّاسَ ‌ۚ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشٰٮهُ ؕ فَلَمَّا قَضٰى زَيۡدٌ مِّنۡهَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰكَهَا لِكَىۡ لَا يَكُوۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ حَرَجٌ فِىۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِيَآٮِٕهِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡهُنَّ وَطَرًا ؕ وَكَانَ اَمۡرُ اللّٰهِ مَفۡعُوۡلًا‏ ﴿37﴾
۔ ( یاد کرو ) جبکہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر تو اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا ، حالانکہ اللہ تعالٰی اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو ا س سے ڈرے پس جب کہ زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالکوں کی بیویوں کے بارے میں کسی طرح تنگی نہ رہے جب کہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کرلیں اللہ کا ( یہ ) حکم تو ہو کر ہی رہنے والا تھا ۔
و اذ تقول للذي انعم الله عليه و انعمت عليه امسك عليك زوجك و اتق الله و تخفي في نفسك ما الله مبديه و تخشى الناس و الله احق ان تخشىه فلما قضى زيد منها وطرا زوجنكها لكي لا يكون على المؤمنين حرج في ازواج ادعياىهم اذا قضوا منهن وطرا و كان امر الله مفعولا
And [remember, O Muhammad], when you said to the one on whom Allah bestowed favor and you bestowed favor, "Keep your wife and fear Allah ," while you concealed within yourself that which Allah is to disclose. And you feared the people, while Allah has more right that you fear Him. So when Zayd had no longer any need for her, We married her to you in order that there not be upon the believers any discomfort concerning the wives of their adopted sons when they no longer have need of them. And ever is the command of Allah accomplished.
( yaad rakho ) jab kay tu uss shaks say keh raha tha jiss per Allah ney bhi inam kiya aur tu ney bhi kay tu apni biwi ko apnay pass rakh aur Allah say darr aur tu apnay dil mein woh baat chupaye huyey tha jissay Allah zahir kerney wala tha aur tu logo say khof khata tha halankay Allah Taalaa iss ka ziyada haq daar tha kay tu uss say daray pus jab kay zaid ney uss aurat say apni gharaz poori kerli hum ney ussay teray nikkah mein dey diya takay musalmano per apnay ley palakon ki biwiyon kay baray mein kissi tarah ki tangi na rahey jab kay woh apni gharaz unn say poori na ker len Allah ka ( yeh ) hukum to hoker hi rehney wala hai.
اور ( اے پیغمبر ! ) یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر اللہ نے بھی احسان کیا تھا اور تم نے بھی احسان کیا تھا ( ٣٢ ) یہ کہہ رہے تھے کہ : اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں رہنے دو ، اور اللہ سے ڈرو ، ( ٣٣ ) اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھول دینے والا تھا ( ٣٤ ) اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے ، حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو ۔ پھر جب زید نے اپنی بیوی سے تعلق ختم کرلیا تو ہم نے اس سے تمہارا نکاح کرادیا ، تاکہ مسلمانوں کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں ( سے نکاح کرنے ) میں اس وقت کوئی تنگی نہ رہے جب انہوں نے اپنی بیویوں سے تعلق ختم کرلیا ہو ۔ اور اللہ نے جو حکم دیا تھا اس پر عمل تو ہو کر رہنا ہی تھا ۔
اور اے محبوب! یاد کرو جب تم فرماتے تھے اس سے جسے اللہ نے اسے نعمت دی ( ف۹۰ ) اور تم نے اسے نعمت دی ( ف۹۱ ) کہ اپنی بی بی اپنے پاس رہنے دے ( ف۹۲ ) اور اللہ سے ڈر ( ف۹۳ ) اور تم اپنے دل میں رکھتے تھے وہ جسے اللہ کو ظاہر کرنا منظور تھا ( ف۹٤ ) اور تمہیں لوگوں کے طعنہ کا اندیشہ تھا ( ف۹۵ ) اور اللہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس کا خوف رکھو ( ف۹٦ ) پھر جب زید کی غرض اس سے نکل گئی ( ف۹۷ ) تو ہم نے وہ تمہارے نکاح میں دے دی ( ف۹۸ ) کہ مسلمانوں پر کچھ حرج نہ رہے ان کے لے پالکوں ( منہ بولے بیٹوں ) کی بیبیوں میں جب ان سے ان کا کام ختم ہوجائے ( ف۹۹ ) اور اللہ کا حکم ہو کر رہنا ،
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) 67 ، یاد کرو وہ موقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا 68 کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑ اور اللہ سے ڈر69 ۔ اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا ، تم لوگوں سے ڈر رہے تھے ، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو 70 پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا 71 تو ہم نے اس ( مطلقہ خاتون ) کا تم سے نکاح کر دیا 72 تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں 73 اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہئے تھا ۔
اور ( اے حبیب! ) یاد کیجئے جب آپ نے اس شخص سے فرمایا جس پر اللہ نے انعام فرمایا تھا اور اس پر آپ نے ( بھی ) اِنعام فرمایا تھا کہ تُو اپنی بیوی ( زینب ) کو اپنی زوجیت میں روکے رکھ اور اللہ سے ڈر ، اور آپ اپنے دل میں وہ بات٭ پوشیدہ رکھ رہے تھے جِسے اللہ ظاہر فرمانے والا تھا اور آپ ( دل میں حیاءً ) لوگوں ( کی طعنہ زنی ) کا خوف رکھتے تھے ۔ ( اے حبیب! لوگوں کو خاطر میں لانے کی کوئی ضرورت نہ تھی ) اور فقط اللہ ہی زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس کا خوف رکھیں ( اور وہ آپ سے بڑھ کر کس میں ہے؟ ) ، پھر جب ( آپ کے متبنٰی ) زید نے اسے طلاق دینے کی غرض پوری کرلی ، تو ہم نے اس سے آپ کا نکاح کر دیا تاکہ مومنوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں ( کے ساتھ نکاح ) کے بارے میں کوئی حَرج نہ رہے جبکہ ( طلاق دے کر ) وہ ان سے بے غَرض ہو گئے ہوں ، اور اللہ کا حکم تو پورا کیا جانے والا ہی تھا
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :67 یہاں سے آیت ٤۸ تک کا مضمون اس وقت نازل ہوا جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کر چکے تھے اور اس پر منافقین ‘ یہود اور مشرکین نے آپ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان عظیم بر پا کر رکھا تھا ۔ ان آیات کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات ان دشمنوں کی تفہیم کے لیے نہیں تھے جو قصداً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے اور اپنے دل کی جلن نکالنے کے لئے جھوٹ اور بہتان اور طعن و تشنیع کی مہم چلا رہے تھے ، بلکہ اصل مقصود مسلمانوں کو ان کی اس مہم کے اثرات سے بچانا اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات سے محفوظ کرنا تھا ۔ اس سے اگر اطمینان نصیب ہو سکتا تھا تو انہی لوگوں کو جو جانتے اور مانتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے ۔ ان بندگان حق کے متعلق اس وقت یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ دشمنوں کے اعتراضات کہیں ان کے دلوں میں بھی شک اور ان کے دماغوں میں بھی الجھن نہ پیدا کر دیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تمام امکانی شبہات کا ازالہ فرمایا ، اور دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ بتا یا کہ ان حالات میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :68 مراد ہیں حضرت زید ، جیسا کہ آگے بصراحت بیان فرما دیا گیا ہے ۔ ان پر اللہ تعالیٰ کا احسان کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان کیا ؟ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مختصراً یہاں ان کا قصہ بیان کر دیا جائے ۔ یہ دراصل قبیلۂ کَلْب کے ایک شخص حارِثہ بن شَراحیل کے بیٹے تھے اور ان کی ماں سُعدیٰ بنت ثَعْلَبَہ قبیلۂ طَے کی شاخ بنی مَعْن سے تھیں ۔ جب یہ آٹھ سال کے بچے تھے اس وقت ان کی ماں انہیں اپنے میکے لے گئیں ۔ وہاں بنی ْ قَیْن بن جَسْر کے لوگوں نے ان کے پڑاؤ پر حملہ کیا اور لوٹ مار کے ساتھ جن آدمیوں کو وہ پکڑ لے گئے ان میں حضرت زید بھی تھے ۔ پھر انہوں نے طائف کے قریب عکاظ کے میلے میں لے جا کر ان کو بیچ دیا ۔ خریدنے والے حضرت خَدِیجہ کے بھتیجے حکیم بن حِزام تھے ۔ انہوں نے مکہ لا کر اپنی پھوپھی صاحبہ کی خدمت میں نذر کر دیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا جب نکاح ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاں زید کو دیکھا اور ان کی عادات و اطوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر پسند آئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضرت خدیجہ سے مانگ لیا ۔ اس طرح یہ خوش قسمت لڑکا اس خیر الخلائق ہستی کی خدمت میں پہنچ گیا جسے چند سال بعد اللہ تعالیٰ نبی بنانے والا تھا ۔ اس وقت حضرت زید کی عمر ۱۵ سال تھی ۔ کچھ مدت بعد ان کے باپ اور چچا کو پتہ چلا کہ ہمارا بچہ مکہ میں ہے ۔ وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے اور عرض کیا کہ آپ جو فدیہ چاہیں ہم دینے کے لیے تیار ہیں ، آپ ہمارا بچہ ہمیں دے دیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں لڑکے کو بلاتا ہوں اور اسی کی مرضی پر چھوڑے دیتا ہوں کہ وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے یا میرے پاس رہنا پسند کرتا ہے ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے گا تو میں کوئی فدیہ نہ لوں گا اور اسے یوں ہی چھوڑ دوں گا ۔ لیکن اگر وہ میرے پاس رہنا چاہے تو میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ جو شخص میرے پاس رہنا چاہتا ہو اسے خواہ مخواہ نکال دوں ۔ انہوں نے کہا یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاف سے بھی بڑھ کر درست بات فرمائی ہے ۔ آپ بچے کو بلا کر پوچھ لیجیے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے کہا ان دونوں صاحبوں کو جانتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں ، یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اچھا ، تم ان کو بھی جانتے ہو اور مجھے بھی ۔ اب تمہیں پوری آزادی ہے کہ چاہو ان کے ساتھ چلے جاؤ اور چاہو میرے ساتھ رہو ۔ انہوں نے جواب دیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں جانا چاہتا ۔ ان کے باپ اور چچا نے کہا ، زید ، کیا تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے ، اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اس شخص کے جو اوصاف دیکھے ہیں ان کا تجربہ کر لینے کے بعد میں اب دنیا میں کسی کو بھی اس پر ترجیح نہیں دے سکتا ۔ زید کا یہ جواب سن کر ان کے باپ اور چچا بخوشی راضی ہو گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت زید کو آزاد کر دیا اور حرم میں جا کر قریش کے مجمع عام میں اعلان فرمایا کہ آپ سب لوگ گواہ رہیں ، آج سے زید میرا بیٹا ہے ، یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے ۔ اسی بنا پر لوگ ان کو زید بن محمد کہنے لگے ۔ یہ سب واقعات نبوت سے پہلے کے ہیں پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوت پر سرفراز ہوئے تو چار ہستیاں ایسی تھیں جنہوں نے ایک لمحہ شک و تردُّد کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نبوت کا دعویٰ سنتے ہی اسے تسلیم کر لیا ۔ ایک حضرت خدیجہ ، دوسرے حضرت زید ، تیسرے حضرت علی ، اور چوتھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہم ۔ اس وقت حضرت زید رضی اللہ عنہ کی عمر ۳۰ سال تھی اور ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتے ہوئے ۱۵ سال گزر چکے تھے ۔ ہجرت کے بعد ٤ ھج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے ان کا نکاح کر دیا ، اپنی طرف سے ان کا مہر ادا کیا ، اور گھر بسانے کے لیے ان کو ضروری سامان عنایت فرمایا ۔ یہی حالات ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں اشارہ فرما رہا ہے کہ جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :69 یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت زید رضی اللہ عنہ سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے ۔ اور انہوں نے بار بار شکایات پیش کرنے کے بعد آخر کار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں ان کو طلاق دینا چاہتا ہوں ۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اگرچہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مان کر ان کے نکاح میں جانا قبول کر لیا تھا ، لیکن وہ اپنے دل سے اس احساس کو کسی طرح نہ مٹا سکیں کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں ، ان کے اپنے خاندان کے پروردہ ہیں ، اور وہ عرب کے شریف ترین گھرانے کی بیٹی ہونے کے باوجود اس کم تر درجے کے آدمی سے بیاہی گئی ہیں ۔ اس احساس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں انہوں نے کبھی حضرت زید رضی اللہ عنہ کو اپنے برابر کا نہ سمجھا ، اور اسی وجہ سے دونوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی چلی گئیں ۔ ایک سال سے کچھ ہی زیادہ مدت گزری تھی کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :70 بعض لوگوں نے اس فقرے کا الٹا مطلب یہ نکال لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کے خواہشمند تھے ، اور آپ کا جی چاہتا تھا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ ان کو طلاق دے دیں ، مگر جب انہوں نے آ کر عرض کیا کہ میں بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں تو آپ نے معاذاللہ اوپری دل سے ان کو منع کیا ، اس پر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تم دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا ۔ حالانکہ اصل بات اس کے برعکس ہے ۔ اگر اس سورہ کی آیات نمبر ۱ ۔ ۲ ۔ ۳ ۔ اور ۔ ۷ کو ساتھ ملا کر یہ فقرہ پڑھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جس زمانے میں حضرت زید رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ کے درمیان تلخی بڑھتی چلی جا رہی تھی اسی زمانے میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اشارہ کر چکا تھا کہ زید رضی اللہ عنہ جب اپنی بیوی کو طلاق دیں تو ان کی مطلقہ خاتون سے آپ کو نکاح کرنا ہو گا ۔ لیکن چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ عرب کی اس سوسائٹی میں منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنا کیا معنی رکھتا ہے .........اور وہ بھی عین اس حالت میں جبکہ مٹھی بھر مسلمانوں کے سوا باقی سارا عرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پہلے ہی خار کھائے بیٹھا تھا ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شدید آزمائش میں پڑنے سے ہچکچا رہے تھے ۔ اسی بنا پر جب حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو طلاق نہ دو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ یہ شخص طلاق نہ دے تو میں اس بلا میں پڑنے سے بچ جاؤں ، اور نہ اس کے طلاق دے دینے کی صورت میں مجھے حکم کی تعمیل کرنی ہو گی اور پھر مجھ پر وہ کیچڑ اچھالی جائے گی کہ پناہ بخدا ۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اولو العزمی اور رضا بقضا کے جس بلند مرتبے پر دیکھنا چاہتا تھا اس کے لحاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات اس کو فروتر نظر آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصداً زید رضی اللہ عنہ کو طلاق سے روکا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام سے بچ جائیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنامی کا اندیشہ تھا ، حالانکہ اللہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر وہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لینا چاہتا تھا ۔ تم لوگوں سے ڈر رہے تھے ، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو کے الفاظ صاف صاف اسی مضمون کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ یہی بات اس آیت کی تشریح میں امام زین العابدین حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے چکا تھا کہ زینب رضی اللہ عنہا آپ کی بیویوں میں شامل ہونے والی ہیں ، مگر جب زید رضی اللہ عنہ نے آکر ان کی شکایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو نہ چھوڑو ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہیں پہلے خبر دے چکا تھا کہ میں تمہارا نکاح زینب رضی اللہ عنہا سے کرنے والا ہوں ، تم زید رضی اللہ عنہ سے یہ بات کہتے وقت اس بات کو چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا ( ابن جریر ۔ ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم ) علامہ آلوسی نے بھی تفسیر روح المعانی میں اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عتاب کا ترک اولیٰ پر ۔ اس حالت میں اولیٰ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے ، یا زید رضی اللہ عنہ سےفرما دیتے کہ تم جو کچھ کرنا چاہو کر سکتے ہو ، عتاب کا ماحصل یہ ہے کہ تم نے زید رضی اللہ عنہ سے یہ کیوں کہا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو ، حالانکہ میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ زینب رضی اللہ عنہا تمہاری بیویوں میں شامل ہوں گی سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :71 یعنی جب زید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور ان کی عدت پوری ہو گئی ۔ حاجت پوری کر چکا کے الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ زید رضی اللہ عنہ کی اس سے کوئی حاجت باقی نہ رہی ۔ اور یہ صورت حال محض طلاق دے دینے سے رونما نہیں ہوتی ، کیونکہ عدت کے دوران میں شوہر کو اگر کچھ دلچسپی باقی ہو تو وہ رجوع کر سکتا ہے ، اور شوہر کی یہ حاجت بھی مطلقہ بیوی سے باقی رہتی ہے کہ اس کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے کا پتہ چل جائے ۔ اس لیے مطلقہ بیوی کے ساتھ اس کے سابق شوہر کی حاجت صرف اسے وقت ختم ہو تی ہے جب عدت گزر جائے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :72 یہ الفاظ اس باب میں صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکاح خود اپنے خواہش کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر کیا تھا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :73 یہ الفاظ اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسی ضرورت اور مصلحت کی خاطر کرایا تھا جو اس تدبیر کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے پوری نہ ہو سکتی تھی ۔ عرب میں منہ بولے رشتوں کے بارے میں جو غلط رسوم رائج ہو گئی تھیں ، ان کے توڑنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ ، اللہ کا رسول خود آگے بڑھ کر ان کو توڑ ڈالے ۔ لہٰذا یہ نکاح اللہ تعالیٰ نے محض نبی کے گھر میں ایک بیوی کا اضافہ کرنے کی خاطر نہیں بلکہ ایک اہم ضرورت کی خاطر کروایا ۔
عظمت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ کو ہر طرح سمجھایا ۔ ان پر اللہ کا انعام تھا کہ اسلام اور متابعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق دی ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ان پر احسان تھا کہ انہیں غلامی سے آزاد کر دیا ۔ یہ بڑی شان والے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی پیارے تھے یہاں تک کہ انہیں سب مسلمان حب الرسول کہتے تھے ۔ ان کے صاحبزادے اسامہ کو بھی حب بن حب کہتے تھے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ جس لشکر میں انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھیجتے تھے اس لشکر کا سردارانہی کو بناتے تھے ۔ اگر یہ زندہ رہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بن جاتے ( احمد ) بزار میں ہے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں مسجد میں تھا میرے پاس حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما آئے اور مجھ سے کہا جاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لیے اجازت طلب کرو ۔ میں نے آپ کو خبر کی آپ نے فرمایا جانتے ہو وہ کیوں آئے ہیں ؟ میں نے کہا نہیں ! آپ نے فرمایا لیکن میں جانتا ہوں جاؤ بلا لاؤ یہ آئے اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا بتایے آپ کو اپنے اہل میں سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا میری بیٹی فاطمہ ۔ انہوں نے کہا ہم حضرت فاطمہ کے بارے میں نہیں پوچھتے ۔ آپ نے فرمایا پھر اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن پر اللہ نے انعام کیا اور میں نے بھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اپنی پھوپھی امیمہ بنت جحش اسدیہ سے کرادیا تھا ۔ دس دینار اور سات درہم مہر دیا تھا ، ایک ڈوپٹہ ایک چادر ایک کرتا پچاس مد اناج اور دس مد کھجوریں دی تھیں ۔ ایک سال یا کچھ اوپر تک تو یہ گھر بسا لیکن پھر ناچاقی شروع ہو گئی ۔ حضرت زید نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر شکایت شروع کی تو آپ انہیں سمجھانے لگے کہ گھر نہ توڑو اللہ سے ڈرو ۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے اس جگہ بہت سے غیر صحیح آثار نقل کئے ہیں جن کا نقل کرنا ہم نامناسب جان کر ترک کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے ایک بھی ثابت اور صحیح نہیں ۔ مسند احمد میں بھی ایک روایت حضرت انس سے ہے لیکن اس میں بھی بڑی غرابت ہے اس لئے ہم نے اسے بھی وارد نہیں کیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ یہ آیت حضرت زینب بنت جحش اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اتری ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا آپ کے نکاح میں آئیں گی ۔ یہی بات تھی جسے آپ نے ظاہر نہ فرمایا اور حضرت زید کو سمجھایا کہ وہ اپنی بیوی کو الگ نہ کریں ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر اللہ کی وحی کتاب اللہ میں سے ایک آیت بھی چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپالیتے ۔ وطر کے معنی حاجت کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جب زید ان سے سیر ہوگئے اور باوجود سمجھانے بجھانے کے بھی میل ملاپ قائم نہ رہ سکا بلکہ طلاق ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت زینب کو اپنے نبی کے نکاح میں دے دیا ۔ اس لئے ولی کے ایجاب و قبول سے مہر اور گواہوں کی ضرورت نہ رہی ۔ مسند احمد میں ہے حضرت زینب کی عدت پوری ہو چکی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ سے کہا کہ تم جاؤ اور انہیں مجھ سے نکاح کرنے کا پیغام پہنچاؤ ۔ حضرت زید گئے اس وقت آپ آٹاگوندھ رہی تھیں ۔ حضرت زید پر ان کی عظمت اس قدر چھائی کہ سامنے پڑ کر بات نہ کر سکے منہ پھیر کر بیٹھ گئے اور ذکر کیا ۔ حضرت زینب نے فرمایا ٹھہرو!میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرلوں ۔ یہ تو کھڑی ہو کر نماز پڑھنے لگیں ادھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے ان کا نکاح تجھ سے کر دیا ۔ چنانچہ اسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے اطلاع چلے آئے پھر ولیمے کی دعوت میں آپ نے ہم سب کو گوشت روٹی کھلائی ۔ لوگ کھا پی کر چلے گئے مگر چند آدمی وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ آپ باہر نکل کر اپنی بیویوں کے حجرے کے پاس گئے ۔ آپ انہیں السلام علیک کرتے تھے اور وہ آپ سے دریافت کرتی تھیں کہ فرمائیے بیوی صاحبہ سے خوش تو ہیں ؟ مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی یا آپ خبر دیئے گئے کہ لوگ وہاں سے چلے گئے ۔ اس کے بعد آپ اس گھر کی طرف تشریف لے گئے میں بھی آپ کے ہمراہ تھا میں نے آپ کے ساتھ ہی جانے کا ارادہ کیا لیکن آپ نے پردہ گرا دیا اور میرے اور آپ کے درمیان حجاب ہو گیا اور پردے کی آیتیں اتریں اور صحابہ کو نصیحت کی گئی اور فرما دیا گیا کہ نبی کے گھروں میں بے اجازت نہ جاؤ ۔ ( مسلم وغیرہ ) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ازواج مطہرات سے فخر اً کہا کرتی تھیں کہ تم سب کے نکاح تمھارے ولی وارثوں نے کئے اور میرا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر کرا دیا ۔ سورۃ نور کی تفسیر میں ہم یہ روایت بیان کر چکے ہیں کہ حضرت زینب نے کہا میرا نکاح آسمان سے اترا اور ان کے مقابلے پر حضرت عائشہ نے فرمایا میری برات کی آیتیں آسمان سے اتریں جس کا حضرت زینب نے اقرار کیا ۔ ابن جریر میں ہے حضرت زینب نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کہا مجھ میں اللہ تعالیٰ نے تین خصوصیتیں رکھی ہیں جو آپ کی اور بیویوں میں نہیں ایک تو یہ کہ میرا اور آپ کا دادا ایک ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے مجھے آپ کے نکاح میں دیا ۔ تیسرے یہ کہ ہمارے درمیان سفیر حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے ان سے نکاح کرنا تیرے لئے جائز کر دیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے لے پالک لڑکوں کو بیویوں کے بارے میں جب انہیں طلاق دے دی جائے کوئی حرج نہ رہے ۔ یعنی وہ اگر چاہیں ان سے نکاح کر سکیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے حضرت زید کو اپنا متنبی بنا رکھا تھا ۔ عام طور پر انہیں زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا تھا ۔ قرآن نے اس نسبت سے بھی ممانعت کر دی اور حکم دیا کہ انہیں اپنے حقیقی باپ کی طرف نسبت کر کے پکارا کرو پھر حضرت زید نے جب حضرت زینب کو طلاق دے دی تو اللہ پاک نے انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دے کر یہ بات بھی ہٹادی ۔ جس آیت میں حرام عورتوں کا ذکر کیا ہے وہاں بھی یہی فرمایا کہ تمھارے اپنے صلبی لڑکوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں ۔ تاکہ لے پالک لڑکوں کی لڑکیاں اس حکم سے خارج رہیں ۔ کیونکہ ایسے لڑکے عرب میں بہت تھے ۔ یہ امر اللہ کے نزدیک مقرر ہو چکا تھا ۔ اس کا ہونا حتمی ، یقینی اور ضروری تھا ۔ اور حضرت زینب کو یہ شرف ملنا پہلے ہی سے لکھا جا چکا تھا کہ وہ ازواج مطہرات امہات المومنین میں داخل ہوں رضی اللہ عنہا ۔