Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اۨلَّذِيۡنَ يُبَـلِّـغُوۡنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَيَخۡشَوۡنَهٗ وَلَا يَخۡشَوۡنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ حَسِيۡبًا‏ ﴿39﴾
یہ سب ایسے تھے کے اللہ تعالٰی کے احکام پہنچایا کرتے تھے اور اللہ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے اور اللہ تعالٰی حساب لینے کے لئے کافی ہے ۔
الذين يبلغون رسلت الله و يخشونه و لا يخشون احدا الا الله و كفى بالله حسيبا
[ Allah praises] those who convey the messages of Allah and fear Him and do not fear anyone but Allah . And sufficient is Allah as Accountant.
Yeh sab aisay thay kay Allah Taalaa key ehkaam phonchaya kertay thay aur Allah hi say dartay thay aur Allah kay siwa kissi say nahi dartay thay aur Allah Taalaa hisab leney kay liye kafi hai.
پیغمبر وہ لوگ ہیں جو اللہ کے بھیجے ہوئے احکام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں ، اور اسی سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔ اور حساب لینے کے لیے اللہ کو کسی کی ضرورت نہیں ۔
وہ جو اللہ کے پیام پہنچاتے اور اس سے ڈرتے اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ کرے ، اور اللہ بس ہے حساب لینے والا ( ف۱۰۲ )
۔ ( یہ اللہ کی سنت ہے ان لوگوں کے لیے ) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ، اور محاسبہ کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے 76
وہ ( پہلے ) لوگ اللہ کے پیغامات پہنچاتے تھے اور اس کا خوف رکھتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے ، اور اللہ حساب لینے والا کافی ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :76 اصل الفاظ ہیں کَفیٰ بِا للّٰہِ حَسِیْباً ۔ اس کے دو معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ ہر خوف اور خطرے کے مقابلے میں اللہ کافی ہے ۔ دوسرے یہ کہ حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے ، اس کے سوا کسی اور کی باز پرس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
امی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ان کی تعریف ہو رہی ہے جو اللہ کی مخلوق کو اللہ کے پیغام پہنچاتے ہیں اور امانت اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہیں کرتے ، کسی کی سطوت و شان سے مرعوب ہو کر پیغام اللہ کا پہنچانے میں خوف نہیں کھاتے ۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد کافی ہے ۔ اس منصب کی ادائیگی میں سب کے پیشوا بلکہ ہر اک امر میں سب کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ خیال فرمائیے کہ مشرق و مغرب کے ہر ایک بنی آدم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین کی تبلیغ کی ۔ اور جب تک اللہ کا دین چار دانگ عالم میں پھیل نہ گیا ، آپ مسلسل مشقت کے ساتھ اللہ کے دین کی اشاعت میں مصروف رہے ۔ آپ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قوم ہی کی طرف آتے رہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی طرف اللہ کے رسول بن کر آئے تھے ۔ قرآن میں فرمان الٰہی ہے کہ لوگوں میں اعلان کر دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں سلام علیہ ۔ پھر آپ کے بعد منصب تبلیغ آپ کی امت کو ملا ۔ ان میں سب کے سردار آپ کے صحابہ ہیں رضوان اللہ علیہم ۔ جو کچھ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا ، سب کچھ بعد والوں کو سکھا دیا ۔ تمام اقوال و افعال جو احوال دن اور رات کے ، سفر و حضر کے ، ظاہر و پوشیدہ دنیا کے سامنے رکھ دئیے ۔ اللہ ان پر اپنی رضامندی نازل فرمائے ۔ پھر ان کے بعد والے ان کے وارث ہوئے اور اسی طرح پھر بعد والے اپنے سے پہلے والوں کے وارث بنے اور اللہ کا دین ان سے پھیلتا رہا ۔ اور قرآن و حدیث لوگوں تک پہنچتے رہے ہدایت والے ان کی اقتدا سے منور ہوتے رہے اور توفیق خیر والے ان کے مسلک پر چلتے رہے ۔ اللہ کریم سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی ان میں سے کر دے ۔ مسند احمد میں ہے تم میں سے کوئی اپنا آپ ذلیل نہ کرے ۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے! فرمایا خلاف شرع کام دیکھ کر ، لوگوں کے خوف کے مارے خاموش ہو رہے ۔ قیامت کے دن اس سے باز پرس ہو گی کہ تو کیوں خاموش رہا ؟ یہ کہے گا کہ لوگوں کے ڈر سے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا سب سے زیادہ خوف رکھنے کے قابل تو میری ذات تھی ، پھر اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے کہ کسی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحبزادہ کہا جائے ۔ لوگ جو زید بن محمد کہتے تھے جس کا بیان اوپر گذر چکا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم زید کے والد نہیں ۔ یہی ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نرینہ اولاد بلوغت کو پہنچی ہی نہیں ۔ قاسم ، طیب اور طاہر تین بچے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے ، حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے ایک بچہ ہوا جس کا نام حضرت ابراہیم لیکن یہ بھی دودھ پلانے کے زمانے میں ہی انتقال کر گئے ۔ آپ کی لڑکیاں حضرت خدیجہ سے چار تھیں زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہم اجمعین ان میں سے تین تو آپ کی زندگی میں ہی رحلت فرما گئیں صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال آپ کے چھ ماہ بعد ہوا ۔ پھر فرماتا ہے بلکہ آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں جیسے فرمایا اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھتا ہے ۔ یہ آیت نص ہے اس امر پر کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ اور جب نبی ہی نہیں تو رسول کہاں ؟ کوئی نبی ، رسول آپ کے بعد نہیں آئے گا ۔ رسالت تو نبوت سے بھی خاص چیز ہے ۔ ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ۔ متواتر احادیث سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ختم الانبیاء ہونا ثابت ہے ۔ بہت سے صحابہ سے یہ حدیثیں روایت کی گئی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ میری مثال نبیوں میں ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک بہت اچھا اور پورامکان بنایا لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی جہاں کچھ نہ رکھا لوگ اسے چاروں طرف سے دیکھتے بھالتے اور اس کی بناوٹ سے خوش ہوتے لیکن کہتے کیا اچھا ہو تاکہ اس اینٹ کی جگہ پُر کر لی جاتی ۔ پس میں نبیوں میں اسی اینٹ کی جگہ ہوں ۔ امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے حسن صحیح کہا ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ، میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم پر یہ بات گراں گذری تو آپ نے فرمایا لیکن خوش خبریاں دینے والے ۔ صحابہ نے پوچھا خوشخبریاں دینے والے کیا ہیں ۔ فرمایا مسلمانوں کے خواب جو نبوت کے اجزا میں سے ایک جز ہیں ۔ یہ حدیث بھی ترمذی شریف میں ہے اور امام ترمذی اسے صحیح غریب کہتے ہیں محل کی مثال والی حدیث ابو داؤد طیالسی میں بھی ہے ۔ اس کے آخر میں یہ ہے کہ میں اس اینٹ کی جگہ ہوں مجھ سے انبیا علیہم الصلوۃ السلام ختم کئے گئے ۔ اسے بخاری مسلم اور ترمذی بھی لائے ہیں ۔ مسند کی اس حدیث کی ایک سند میں ہے کہ میں آیا اور میں نے اس خالی اینٹ کی جگہ پر کر دی ۔ مسند میں ہے میرے بعد نبوت نہیں مگر خوشخبری والے ۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہیں ؟ فرمایا اچھے خواب یا فرمایا نیک خواب ۔ عبدالرزاق وغیرہ میں محل کی اینٹ کی مثال والی حدیث میں ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر محل والے سے کہتے ہیں کہ تو نے اس اینٹ کی جگہ کیوں چھوڑ دی ؟ پس میں وہ اینٹ ہوں ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے تمام انبیاء پر چھ فضیلتیں دی گئی ہیں ، مجھے جامع کلمات عطافرمائے گئے ہیں ۔ صرف رعب سے میری مدد کی گئی ہے ۔ میرے لئے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ۔ میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو بنائی گئی ، میں ساری مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ اور میرے ساتھ نبیوں کو ختم کر دیا گیا ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں محل مثال والی روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ میں آیا اور میں نے اس اینٹ کی جگہ پوری کر دی ۔ مسند میں ہے میں اللہ کے نزدیک نبیوں کا علم کرنے والا تھا اس وقت جبکہ آدم پوری طور پر پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ۔ اور حدیث میں ہے میرے کئی نام ہیں ، میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں اللہ تعالیٰ میری وجہ سے کفر کو مٹادے گا اور میں حاشر ہوں تمام لوگوں کا حشر میرے قدموں تلے ہو گا اور میں عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہیں ( بخاری و مسلم ) حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے گویا کہ آپ رخصت کر رہے ہیں اور تین مرتبہ فرمایا میں امی نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ میں فاتح کلمات دیا گیا ہوں جو نہایت جامع اور پورے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ جہنم کے داروغے کتنے ہیں اور عرش کے اٹھانے والے کتنے ہیں ۔ میرا اپنی امت سے تعارف کرایا گیا ہے ۔ جب تک میں تم میں ہوں میری سنتے رہو اور مانتے چلے جاؤ ۔ جب میں رخصت ہوجاؤں تو کتاب اللہ کو مضبوط تھام لو اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو ( مسندامام احمد ) اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی اس وسیع رحمت پر اس کا شکر کرنا چاہیے کہ اس نے اپنے رحم وکرم سے ایسے عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری طرف بھیجا اور انہیں ختم المرسلین اور خاتم الانبیاء بنایا اور یکسوئی والا ، آسان ، سچا اور سہل دین آپ کے ہاتھوں کمال کو پہنچایا ۔ رب العالمین نے اپنی کتاب میں اور رحمتہ للعامین نے اپنی متواتر احادیث میں یہ خبر دی کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ پس جو شخص بھی آپ کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ، مفتری ، دجال ، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے ۔ گو وہ شعبدے دکھائے اور جادوگری کرے اور بڑے کمالات اور عقل کو حیران کردینے والی چیزیں پیش کرے اور طرح طرح کی بیرنگیاں دکھائے لیکن عقلمند جانتے ہیں کہ یہ سب فریب دکھوکہ اور مکاری ہے ۔ یمن کے مدعی نبوت عنسی اور یمانہ کے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کو دیکھ لو کہ دنیا نے انہیں جیسے یہ تھے سمجھ لیا اور ان کی اصلیت سب پر ظاہر ہو گئ ۔ یہی حال ہوگا ہر اس شخص کا جو قیامت تک اس دعوے سے مخلوق کے سامنے آئے گا کہ اس کا جھوٹ اور اس کی گمراہی سب پر کھل جائے گی ۔ یہاں تک کہ سب سے آخری دجال مسیح آئے گا ۔ اس کی علامتوں سے بھی ہر عالم اور ہر مومن اس کا کذاب ہونا جان لے گا پس یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے کہ ایسے جھوٹے دعوے داروں کو یہ نصیب ہی نہیں ہوتا کہ وہ نیکی کے احکام دیں اور برائی سے روکیں ۔ ہاں جن احکام میں ان کا اپنا کوئی مقصد ہوتا ہے ان پر بہت زورر دیتے ہیں ۔ ان کے اقوال ، افعال افترا اور فجور والے ہوتے ۔ جیسے فرمان باری ہے ۔ ( هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰي مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ ٢٢١؀ۭ ) 26- الشعراء:221 ) یعنی کیا میں تمھیں بتاؤں کہ شیاطن کن کے پاس آتے ہیں ؟ ہر ایک بہتان بازگنہگار کے پاس ۔ سچے نبیوں کا حال اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے وہ نہایت نیکی والے ، بہت سچے ہدایت والے ، استقامت والے ، قول و فعل کے اچھے ، نیکیوں کا حکم دینے والے ، برائیوں سے روکنے والے ہوتے ہیں ۔ ساتھ ہی اللہ کی طرف سے ان کی تائید ہوتی ہے ۔ معجزوں سے اور خارق عادت چیزوں سے ان کی سچائی اور زیادہ ظاہر ہوتی ہے ۔ اور اس قدر ظاہر واضح اور صاف دلیلیں ان کی نبوت پر ہوتی ہیں کہ ہر قلب سلیم ان کے ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے تمام سچے نبیوں پر قیامت تک درود سلام نازل فرماتا رہے ۔