Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيۡرًا ۙ‏ ﴿45﴾
اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو ( رسول بنا کر ) گواہیاں دینے والا خوشخبریاں سنانے والا آگاہ کرنے والا بھیجا ہے ۔
يايها النبي انا ارسلنك شاهدا و مبشرا و نذيرا
O Prophet, indeed We have sent you as a witness and a bringer of good tidings and a warner.
Aey nabi! Yaqeenan hum ney hi aap ko ( rasool bana ker ) gawahiyan denay wala khuskhabriyan sunanay wala aagah kerney wala bheja hai.
اے نبی ! بیشک ہم نے تمہیں ایسا بنا کر بھیجا ہے کہ تم گواہی دینے والے ، خوشخبری سنانے والے اور خبردار کرنے والے ہو ۔
۔ ( اے غیب کی خبریں بتانے والے ( نبی ) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر ( ف۱۱۰ ) اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا ( ف۱۱۱ )
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) 81 ، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر 82 ، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر 83 ،
اے نبیِ ( مکرّم! ) بیشک ہم نے آپ کو ( حق اور خَلق کا ) مشاہدہ کرنے والا اور ( حُسنِ آخرت کی ) خوشخبری دینے والا اور ( عذابِ آخرت کا ) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :81 مسلمانوں کو نصیحت کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو خطاب کر کے چند کلمات تسکین ارشاد فرماتا ہے ۔ مقصود کلام یہ ہے کہ آپ کو ہم نے یہ کچھ مراتب عالیہ بخشے ہیں ، آپ کی شخصیت اس سے بہت بلند ہے کہ یہ مخالفین اپنے بہتان و افترا کے طوفان اٹھا کر آپ کا کچھ بگاڑ سکیں ۔ لہٰذا آپ نہ ان کی شرارتوں سے رنجیدہ ہوں اور نہ ان کے پروپیگینڈے کو پر کاہ کے برابر بھی کوئی وقعت دیں ۔ اپنے فرائض منصبی ادا کیے جائیے اور انہیں جو کچھ ان کا جی چاہے بکنے دیجیے ۔ ان کے ساتھ ضمناً تمام خلق کو ، جس میں مومن و کافر سب شامل ہیں ، یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا سابقہ کسی معمولی انسان سے نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی شخصیت سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بلند ترین مقام پر سرفراز فرمایا ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :82 نبی کو گواہ بنانے کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے جس میں تین قسم کی شہادتیں شامل ہیں ۔ ایک قولی شہادت ، یعنی یہ کہ اللہ کا دین جن حقائق اور اصولوں پر مبنی ہے ، نبی ان کی صداقت کا گواہ بن کر کھڑا ہو اور دنیا سے صاف صاف کہہ دے کہ وہی حق ہیں اور ان کے خلاف جو کچھ ہے باطل ہے ۔ خدا کی ہستی اور اس کی توحید ، ملائکہ کا سجود ، وحی کا نزول ، حیات بعد الموت کا وقوع اور جنت و دوزخ کا ظہور خواہ دنیا کو کیسا ہی عجیب معلوم ہو اور دنیا ان باتوں کے پیش کرنے والے کا مذاق اڑائے یا اسے دیوانہ کہے ، مگر نبی کسی کی پروا کیے بغیر اٹھے اور ہانک پکار کر کہہ دے کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے اور گمراہ ہیں وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے ۔ اسی طرح اخلاق اور تہذیب اور تمدن کے جو تصورات اقدار ، اصول اور ضابطے خدا نے اس پر منکشف کیے ہیں ، انہیں اگر ساری دنیا غلط کہتی ہو اور ان کے خلاف چل رہی ہو تب بھی نبی کا کام یہ ہے کہ انہی کو علی الاعلان پیش کرے اور ان تمام خیالات اور طریقوں کو غلط قرار دے جو ان کے خلاف دنیا میں رائج ہوں ۔ اسی طرح جو کچھ خدا کی شریعت میں حلال ہے نبی اس کو حلال ہی کہے خواہ ساری دنیا اسے حرام سمجھتی ہو ، اور جو کچھ خدا کی شریعت میں حرام ہے نبی اس کو حرام ہی کہے خواہ ساری دنیا اسے حلال و طیب قرار دے رہی ہو ۔ دوسرے عملی شہادت ، یعنی یہ کہ نبی اپنی پوری زندگی میں اس مسلک کا عملاً مظاہرہ کرے جسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے وہ اٹھا ہے ۔ جس چیز کو وہ برائی کہتا ہے اس کے ہر شائبے سے اس کی زندگی پاک ہو ۔ جس چیز کو وہ بھلائی کہتا ہے ، اس کی اپنی سیرت میں وہ پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو ۔ جس چیز کو وہ فرض کہتا ہے اسے ادا کرنے میں وہ سب سے بڑھ کر ہو ۔ جس چیز کو وہ گناہ کہتا ہے اس سے بچنے میں کوئی اس کی برابری نہ کر سکے ۔ جس قانون حیات کو وہ خدا کا قانون کہتا ہے اسے نافذ کرنے میں وہ کوئی کسر نہ اٹھا رکھے ۔ اس کا اپنا اخلاق و کردار اس بات پر گواہ ہو کہ وہ اپنی دعوت میں کس قدر سچا اور کتنا مخلص ہے ۔ اور اس کی ذات اس کی تعلیم کا ایسا مجسم نمونہ ہو جسے دیکھ کر ہر شخص معلوم کر لے کہ جس دین کی طرف وہ دنیا کو بلا رہا ہے وہ کس معیار کا انسان بنانا چاہتا ہے ، کیا کردار اس میں پیدا کرنا چاہتا ہے ، اور کیا نظام زندگی اس سے برپا کرانا چاہتا ہے ۔ تیسرے اخروی شہادت ، یعنی آخرت میں جب اللہ کی عدالت قائم ہو اس وقت نبی اس امر کی شہادت دے کہ جو پیغام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ اس نے بےکم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا اور ان کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق واضح کر دینے میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ اسی شہادت پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ماننے والے کس جزا کے ، اور نہ ماننے والے کس سزا کے مستحق ہیں ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہادت کے مقام پر کھڑا کر کے اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی اور وہ کیسی عظیم شخصیت ہونی چاہیے جو اس مقام بلند پر کھڑی ہو سکے ۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دین حق کی قولی اور عملی شہادت پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے ، تبھی تو آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ شہادت دے سکیں گے کہ میں نے لوگوں پر حق پوری طرح واضح کر دیا تھا ، اور تبھی اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہو گی ۔ ورنہ اگر معاذاللہ آپ ہی سے یہاں شہادت ادا کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو نہ آپ آخرت میں ان پر گواہ ہو سکتے ہیں اور نہ منکرین کے خلاف مقدمہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ بعض لوگوں نے اس شہادت کو یہ معنی پہنانے کی کو شش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخرت میں لوگوں کے اعمال پر شہادت دیں گے ، اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں ، ورنہ بے دیکھے شہادت کیسے دے سکیں گے ۔ لیکن قرآن مجید کی رو سے یہ تاویل قطعاً غلط ہے ۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کے لوگوں کے اعمال پر شہادت قائم کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا ہی انتظام فرمایا ہے ۔ اس غرض کے لیے اس کے فرشتے ہر شخص کا نامۂ اعمال تیار کر رہے ہیں ( ملاحظہ ہو ق ٓ ، آیات ۱۷ ۔ ۱۸اور الکہف ۔ آیت ۱٤۹ ) اور اس کے لیے وہ لوگوں کے اپنے اعضاء سے بھی گواہی لے لے گا ( یٰسٓ٦۵ ۔ حم السجدہ ۲۰ ۔ ۲۱ ) رہے انبیاء علیم السلام ، تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا گیا تھا ۔ قرآن صاف فرماتا ہے : یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ۔ ( المائدہ ۔ ۱۰۹ ) جس روز اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا ، کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا ، تو وہ کہیں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں ، تمام غیب کی باتوں کو جاننے والے تو آپ ہی ہیں ۔ اور اسی سلسلے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے عیسائیوں کی گمراہی کے متعلق سوال ہو گا تو وہ عرض کریں گے : وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْداً مَّادُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ ۔ ( المائدہ ۔ ۱۱۷ ) میں جب تک ان کے درمیان تھا اسی وقت تک ان پر گواہ تھا ۔ جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان پر نگراں تھے ۔ یہ آیات اس باب میں بالکل صریح ہیں کہ انبیا علیہم السلام اعمال خلق کے گواہ نہیں ہوں گے ۔ پھر گواہ کس چیز کے ہو نگے ؟ اس کا جواب قرآن اتنی ہی صراحت کے ساتھ یہ دیتا ہے : وَکذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّتہً وَّسَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلیَ النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً ۔ ( البقرہ ۔ ۱٤۳ ) اور اے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تم کو ایک امت وَسَط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں ۔ وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْداً عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِھِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَھِیْداً عَلیٰ ھٰٓؤُلَآءِ ۔ ( النحل ۔ ۸۹ ) اور جس روز ہم ہر امت میں انہی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو ان پر گواہی دے گا اور ( اے محمد ) تمہیں ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اپنی نوعیت میں اس شہادت سے مختلف نہ ہو گی جسے ادا کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اور ہر امت پر گواہی دینے والے شہداء کو بلایا جائے گا ۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا بھی حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے ۔ اور اگر یہ گواہ صرف اس امر کی شہادت دینے کے لیے بلائے جائیں گے کہ خلق تک اس کے خالق کا پیغام پہنچ گیا تھا تو لامحالہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی غرض کے لیے پیش ہوں گے ۔ اسی مضمون کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن کو بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابن ماجہ امام احمد وغیرہم نے عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس ، ابو الدرداء ، انس بن مالک اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے ، جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں ، مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر عرض کریں گے کہ خدایا ، یہ تو میرے صحابی ہیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کرتوت کیے ہیں ۔ یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ اور اس سے یہ بات صریحاً ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ایک ایک شخص اور اس کی ایک ایک حرکت کے شاہد قطعاً نہیں ہیں ۔ رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کی امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ، تو وہ کسی طرح بھی اس مضمون سے متعارض نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے حالات سے باخبر رکھتا ہے ۔ اس کے یہ معنی کب ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص کے اعمال کا عینی مشاہدہ فرما رہے ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :83 یہاں اس فرق کو ملحوظ رکھیے کہ کسی شخص کا بطور خود ایمان و عمل صالح پر اچھے انجام کی بشارت دینا اور کفر وبد عملی پر برے انجام سے ڈرانا اور بات ہے اور کسی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبشر و نذیر بنا کر بھیجا جانا بالکل ہی ایک دوسری بات ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر مامور ہو وہ تو اپنی بشارت اور اپنے انذار کے پیچھے لازماً ایک اقتدار رکھتا ہے جس کی بنا پر اس کی بشارتوں اور اس کی تنبیہوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے ۔ اس کا کسی کام پر بشارت دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس احکم الحاکمین کی طرف سے وہ بھیجا گیا ہے وہ اس کام کے پسندیدہ اور مستحق اجر ہونے کا اعلان کر رہا ہے ، لہٰذا وہ فرض یا واجب یا مستحب ہے اور اس کا کرنے و الا ضرور اجر پائے گا ۔ اور اس کا کسی کام کے برے انجام کی خبر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ قادر مطلق اس کام سے منع کر رہا ہے لہٰذا وہ ضرور گناہ اور حرام ہے اور یقیناً اس کا مرتکب سزا پائے گا ۔ یہ حیثیت کسی غیر مامور کی بشارت اور تنبیہ کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی ۔
تورات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات ۔ عطابن یسار فرماتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں تورات میں کیا ہیں ؟ فرمایا جو صفتیں آپ کی قرآن میں ہیں انہی میں بعض اوصاف آپ کے تورات میں بھی ہیں ۔ تورات میں ہے اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور خوشی سنانے والا ، ڈرانے والا امتیوں کو بچانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ تو میرا بندہ اور رسول ہے ۔ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو بدگو اور فحش کلام نہیں ہے ، نہ بازاروں میں شور مچانے والا ۔ وہ برائی کے بدلے برائی نہیں کرتا بلکہ درگذر کرتا ہے ۔ اور معاف فرماتا ہے ۔ اسے اللہ تعالیٰ قبض نہیں کرے گا ۔ جب تک لوگوں کو ٹیڑھا کر دئیے ہوئے دین کو اس کی ذات سے بالکل سیدھا نہ کر دے اور وہ لا الہ الا اللہ کے قائل نہ ہو جائیں ۔ جس سے اندھی آنکھیں روشن ہو جائیں ۔ اور بہرے کان سننے والے بن جائیں ۔ اور پردوں والے دلوں کے زنگ چھوٹ جائیں ( بخاری ) ابن ابی حاتم میں ہے حضرت وہیب بن منبہ فرماتے ہیں بنی اسرائیل کے ایک نبی حضرت شعیا علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اپنی قوم بنی اسرائیل میں کھڑے ہو جاؤ ، میں تمھاری زبان سے اپنی باتیں کہلواؤں گا ۔ میں امیوں میں سے ایک نبی امی کو بھیجنے والا ہوں جو نہ بدخلق ہے نہ بد گو ۔ نہ بازاروں میں شوروغل کرنے والا ۔ اس قدر سکون و امن کا حامل ہے کہ اگر چراغ کے پاس سے بھی گذر جائے تو وہ نہ بجھے اور اگر بانسوں پر بھی چلے تو پیر کی چاپ نہ معلوم ہو ۔ میں اسے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجوں گا ۔ جو حق گو ہوگا اور میں اس کی وجہ سے اندھی آنکھوں کو کھول دوں گا اور بہرے کانوں کو سننے والا کروں گا اور زنگ آلود دلوں کو صاف کر دوں گا ۔ ہر بھلائی کی طرف اس کی ضمیر ہوگی ۔ حکمت اس کی گویائی ہوگی ۔ صدق و وفا اس کی عادت ہو گی ۔ عفو درگذر اس کا خلق ہو گا ۔ حق اس کی شریعت ہو گی ۔ عدل اس کی سیرت ہو گی ۔ ہدایت اس کی امام ہوگی اسلام اس کا دین ہوگا ۔ احمد اس کا نام ہو گا ۔ گمراہوں کو میں اس کی وجہ سے ہدایت دوں گا ۔ جاہلوں کو اس کی بدولت علماء بنادوں گا ۔ تنزل والوں کو ترقی پر پہنچا دوں گا ۔ انجانوں کو مشہور و معروف کر دوں گا ۔ مختلف اور متضاد دلوں کو متفق اور متحد کر دوں گا ۔ جداگانہ خواہشوں کو یکسو کر دوں گا ۔ دنیا کو اس کی وجہ سے ہلاکت سے بچا لوں گا ۔ تمام امتوں سے اس کی امت کو اعلیٰ اور افضل بنادوں گا ۔ وہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے دنیا میں پیدا کئے جائیں گے ۔ ہر ایک کو نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے ۔ وہ موحد ہوں گے ، مومن ہوں گے ، اخلاص والے ہوں گے ، رسولوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے سب کو سچ ماننے والے ہوں گے ۔ وہ اپنی مسجدوں مجلسوں اور بستروں پر چلتے پھرتے بیٹھے اٹھتے میری تسبیح حمد و ثنا بزرگی اور بڑائی بیان کرتے رہیں گے ۔ کھڑے اور بیٹھے نمازیں ادا کرتے رہیں گے ۔ دشمنان اللہ سے صفیں باندھ کر حملہ کر کے جہاد کریں گے ۔ ان میں سے ہزارہا لوگ میری رضامندی کی جستجو میں اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوں گے ۔ منہ ہاتھ وضو میں دھویا کریں گے ۔ تہمد آدھی پنڈلی تک باندھیں گے ۔ میری راہ میں قربانیاں دیں گے ۔ میری کتاب ان کے سینوں میں ہوگی ۔ راتوں کو عابد اور دنوں کو مجاہد ہوں گے ۔ میں اس نبی کی اہل بیت اور اولاد میں سبقت کرنے والے صدیق شہید اور صالح لوگ پیدا کردوں گا ۔ اس کی امت اس کے بعد دنیا کو حق کی ہدایت کرے گی ، اور حق کے ساتھ عدل و انصاف کرے گی ۔ ان کی امداد کرنے والوں کو میں عزت والا کروں گا ۔ اور ان کو بلانے والوں کی مدد کروں گا ۔ ان کے مخالفین اور ان کے باغی اور ان کے بدخواہوں پر میں برے دن لاؤں گا ۔ میں انہیں ان کے نبی کے وارث کردوں گا ۔ جو اپنے زب کی طرف لوگوں کو دعوت دیں گے ۔ نیکیوں کی باتیں بتائیں گے ، برائیوں سے روکیں گے ، نماز ادا کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، وعدے پورے کریں گے ، اس خیر کو میں ان کے ہاتھوں پوری کروں گا جو ان سے شروع ہوئی تھی ۔ یہ ہے میرا فضل جسے چاہوں دوں ۔ اور میں بہت بڑے فضل و کرم کا مالک ہوں ، ابن ابی خاتم میں ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیج رہے تھے جب یہ آیت اتری تو آپ نے انہیں فرمایا جاؤ خوشخبریاں سنانا نفرت نہ دلانا ، آسانی کرنا سختی نہ کرنا ، دیکھو مجھ پر یہ آیت اتری ہے ۔ طبرانی میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا مجھ پر یہ اترا ہے کہ اے نبی ہم نے تجھے تیری امت پر گواہ بنا کر جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر جہنم سے ڈرانے والا بنا کر اور اللہ کے حکم سے اس کی توحید کی شہادت کی طرف لوگوں کو بلانے والا بنا کر اور روشن چراغ قرآن کے ساتھ بنا کر بھیجا پس آپ اللہ کی وحدانیت پر کہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں گواہ ہیں ۔ اور قیامت کے دن آپ لوگوں کے اعمال پر گواہ ہوں گے ۔ جیسے ارشاد ہے ( وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا 41؀ڲ ) 4- النسآء:41 ) یعنی ہم تجھے ان پر گواہ بنا کر لائیں گے ۔ اور آیت میں ہے کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور تم پر یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہیں ۔ آپ مومنوں کو بہترین اجر کی بشارت سنانے والے اور کافروں کو بدترین عذاب کاڈر سنانے والے ہیں ۔ اور چونکہ اللہ کا حکم ہے اس کی بجا آوری کے ماتحت آپ مخلوق کو خالق کی عبادت کی طرف بلانے والے ہیں ۔ آپ کی سچائی اس طرح ظاہر ہے جیسے سورج کی روشنی ۔ ہاں کوئی ضدی اڑ جائے تو اور بات ہے ، اے نبی !کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو نہ ان کی طرف کان لگاؤ اور ان سے درگذر کرو ۔ یہ جو ایذائیں پہنچاتے ہیں انہیں خیال میں بھی نہ لاؤ اور اللہ پر پورا بھروسہ کرو وہ کافی ہے ۔