Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَكَحۡتُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقۡتُمُوۡهُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡهُنَّ فَمَا لَـكُمۡ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ عِدَّةٍ تَعۡتَدُّوۡنَهَا ۚ فَمَتِّعُوۡهُنَّ وَسَرِّحُوۡهُنَّ سَرَاحًا جَمِيۡلًا‏ ﴿49﴾
اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ( ہی ) طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دواور بھلے طریق پر انہیں رخصت کر دو ۔
يايها الذين امنوا اذا نكحتم المؤمنت ثم طلقتموهن من قبل ان تمسوهن فما لكم عليهن من عدة تعتدونها فمتعوهن و سرحوهن سراحا جميلا
O You who have believed, when you marry believing women and then divorce them before you have touched them, then there is not for you any waiting period to count concerning them. So provide for them and give them a gracious release.
Aey momin! Jab tum momin auraton say nikkah kero phir hath laganey say pehlay ( hi ) tallaq dey do to unn per tumahra koi haq iddat ka nahi jissay tum shumaar kero pus tum kuch na kuch enhen dey do aur bhalay tareeq per unhen rukhsat kerdo.
اے ایمان والو ! جب تم نے مومن عورتوں سے نکاح کیا ہو ، پھر تم نے انہیں چھونے سے پہلے ہی طلاق دے دی ہو ، تو ان کے ذمہ تمہاری کوئی عدت واجب نہیں ہے جس کی گنتی تمہیں شمار کرنی ہو ۔ ( ٣٦ ) لہذا انہیں کچھ تحفہ دے دو ، ( ٣٧ ) اور انہیں خوبصورتی سے رخصت کردو ۔
اے ایمان والو! جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو پھر انھیں بےہاتھ لگائے چھوڑ دو تو تمہارے لیے کچھ عدت نہیں جسے گنو ( ف۱۱۵ ) تو انھیں کچھ فائدہ دو ( ف۱۱٦ ) اور اچھی طرح سے چھوڑ دو ( ف۱۱۷ )
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو 85 تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو ۔ لہذا انہیں کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کر دو ۔ 86
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم انہیں مَس کرو ( یعنی خلوتِ صحیحہ کرو ) تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدّت ( واجب ) نہیں ہے کہ تم اسے شمار کرنے لگو ، پس انہیں کچھ مال و متاع دو اور انہیں اچھی طرح حُسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کرو
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :85 یہ عبارت اس باب میں صریح ہے کہ یہاں لفظ نکاح کا اطلاق صرف عقد پر کیا گیا ہے ۔ علمائے لغت میں اس امر پر بہت کچھ اختلاف ہوا ہے کہ عربی زبان میں نکاح کے اصل معنی کیا ہیں ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ لفظ وطی اور عقد کے درمیان لفظاً مشترک ہے ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ ان دونوں میں معنیً مشترک ہے ۔ تیسرا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی عقدِ ترْویج کے ہیں اور وطی کے لیے اس کو مجازاً استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور چوتھا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی وطی کے ہیں اور عقد کے لیے یہ مجازاً استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے ثبوت میں ہر گروہ نے کلام عرب سے شواہد پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن راغب اصفہانی نے پورے زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ : اصل النکاح العقد ثم استعیر للجماع و محال ان یکون فی الاصل للجماع ثم استعیر للعقد ۔ لفظ نکاح کے اصل معنی عقد ہی کے ہیں پھر یہ لفظ استعارۃً جماع کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، اور یہ بات محال ہے کہ اس کے اصل معنی جماع کے ہوں اور استعارے کے طور پر اسے عقد کے لیے استعمال کیا گیا ہو ۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ جتنے الفاظ بھی جماع کے لیے عربی زبان ، یا دنیا کی کسی دوسری زبان میں حقیقۃً وضع کیے گیے ہیں وہ سب فحش ہیں ۔ کوئی شریف آدمی کسی مہذب مجلس میں ان کو زبان پر لانا بھی پسند نہیں کرتا ۔ اب آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لفظ حقیقۃً اس فعل کے لیے وضع کیا گیا ہو اسے کوئی معاشرہ شادی بیاہ کے لیے مجاز و استعارے کے طور پر استعمال کرے ۔ اس معنی کو ادا کرنے کے لیے تو دنیا کی ہر زبان میں مہذب الفاظ ہی استعمال کیے گیے ہیں نہ کہ فحش الفاظ ۔ جہاں تک قرآن اور سنت کا تعلق ہے ، ان میں نکاح ایک اصطلاحی لفظ ہے جس سے مراد یا تو مجرد عقد ہے ، یا پھر وطی بعد عقد ۔ لیکن وطی بلا عقد کے لیے اس کو کہیں استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔ اس طرح کی وطی کو تو قرآن اور سنت زنا اور سفاح کہتے ہیں نہ کہ نکاح ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :86 یہ ایک منفرد آیت ہے جو غالباً اسی زمانے میں طلاق کا کوئی مسئلہ پیدا ہو جانے پر نازل ہوئی تھی ، اس لیے پچھلے سلسلۂ بیان اور بعد کے سلسلۂ بیان کے درمیان اس کو رکھ دیا گیا ۔ اس ترتیب سے یہ بات خود مترشح ہوتی ہے کہ یہ تقریر ما سبق کے بعد اور تقریر ما بعد سے پہلے نازل ہوئی تھی ۔ اس آیت سے جو قانونی احکام نکلتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے : ۱ ) آیت میں اگرچہ مومن عورتوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ کتابی عورتوں کے معاملہ میں قانون وہ نہیں ہے جو یہاں بیان ہوا ہے ، لیکن تمام علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ معنًی یہی حکم کتابیات کے بارے میں بھی ہے ۔ یعنی کتابی عورت سے بھی کسی مسلمان نے نکاح کیا ہو تو اس کی طلاق ، اس کے مہر ، اس کی عدت اور اس کو متعۂ طلاق دینے کے جملۂ احکام وہی ہیں جو مومن عورت سے نکاح کی صورت میں ہیں ۔ علماء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں مخصوص طور پر صرف مومن عورتوں کا ذکر جو کیا ہے اس سے مقصود دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ مسلمانوں کے لیے مومن عورتیں ہی موزوں ہیں ۔ یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح جائز ضرور ہے مگر مناسب اور پسندیدہ نہیں ہے ۔ بالفاظ دیگر قرآن کے اس انداز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اہل ایمان سے متوقع یہی ہے کہ وہ مومن عورتوں سے نکاح کریں گے ۔ ۲ ) ہاتھ لگانے یا مَس کرنے سے مراد لغت کے اعتبار سے تو محض چھونا ہے ، لیکن یہاں یہ لفظ کنایۃً مباشرت کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ اس لحاظ سے ظاہر آیت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر شوہر نے مباشرت نہ کی ہو تو خواہ وہ عورت کے پاس تنہائی میں رہا ہو ، بلکہ اسے ہاتھ بھی لگا چکا ہو تب بھی طلاق دینے کی صورت میں عدت لازم نہ آئے ۔ لیکن فقہاء نے برسبیل احتیاط یہ حکم لگایا ہے کہ اگر خلوت صحیحہ ہو جائے ( یعنی جس میں مباشرت ممکن ہو ) تو اس کے بعد طلاق دینے کی صورت میں عدت لازم آئے گی اور سقوط عدت صرف اس حالت میں ہو گا جبکہ خلوت سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو ۔ ۳ ) طلاق قبل خلوت کی صورت میں عدت ساقط ہو جانے کے معنی یہ ہیں کہ اس صورت میں مرد کا حق رجوع باقی نہیں رہتا اور عورت کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ طلاق کے فوراً بعد جس سے چاہے نکاح کر لے ۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ حکم صرف طلاق قبل خلوت کا ہے ۔ اگر خلوت سے پہلے عورت کا شوہر مر جائے تو اس صورت میں عدت وفات ساقط نہیں ہوتی بلکہ عورت کو وہی چار مہینے دس دن کی عدت گزارنی ہوتی ہے جو منکوحۂ مدخولہ کے لیے واجب ہے ۔ ( عدت سے مراد وہ مدت ہے جس کے گزر نے سے پہلے عورت کے لیے دوسرا نکاح جائز نہ ہو ۔ ) ٤ ) مَالَکُمْ عَلَیھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ ( تمہارے لیے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے ) کے الفاظ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ عدت عورت پر مرد کا حق ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ صرف مرد ہی کا حق ہے ۔ دراصل اس میں دو حق اور بھی شامل ہیں ۔ ایک حق اولاد ۔ دوسرے حق اللہ یا حق الشرع ۔ مرد کا حق وہ اس بنا پر ہے کہ اس دوران میں اس کو رجوع کر لینے کا حق ہے ، نیز اس بنا پر کہ اس کی اولاد کے نسب کا ثبوت اس بات پر منحصر ہے کہ عدت کے زمانہ میں عورت کا حاملہ ہونا یا نہ ہونا ظاہر ہو جائے ۔ اولاد کا حق اس میں شامل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اپنے باپ سے بچے کے نسب کا ثابت ہونا اس کے قانونی حقوق قائم ہونے کے لیے ضروری ہے اور اس کے اخلاقی مرتبے کا انحصار بھی اس امر پر ہے کہ اس کا نسب مشتبہ نہ ہو ۔ پھر اس میں حق اللہ ( یا حق الشرع ) اس لیے شامل ہو جاتا ہے کہ اگر لوگوں کو اپنے اور اپنی اولاد کے حقوق کی پروا نہ بھی ہو تو خدا کی شریعت ان حقوق کی حفاظت ضروری سمجھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو یہ پروانہ بھی لکھ کر دیدے کہ میرے مرنے کے بعد یا مجھ سے طلاق لے لینے کے بعد تیرے اوپر میری طرف سے کوئی عدت واجب نہ ہو گی تب بھی شریعت کسی حال میں اس کو ساقط نہ کرے گی ۔ ۵ ) فَمَتِّعُوْھُنَّ وَسَرِّحُوْھُنَّ سَرَاحاً جَمِیْلاً ( ان کو کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کردو ) اس حکم کا منشا دو طریقوں میں سے کسی ایک طریقے پر پورا کرنا ہو گا ۔ اگر نکاح کے وقت مہر مقرر کیا گیا تھا اور پھر خلوت سے پہلے طلاق دے دی گئی تو اس صورت میں نصف مہر دینا واجب ہو گا جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۳۷ میں ارشاد ہوا ہے ۔ اس واجب سے زائد کچھ دینا لازم نہیں ہے مگر مستحب ہے ۔ مثلاً یہ بات پسندیدہ ہے کہ نصف مہر دینے کے ساتھ مرد وہ جوڑا بھی عورت کے پاس ہی رہنے دے جو دلہن بننے کے لیے بھیجا گیا تھا ، یا اور کچھ سامان اگر شادی کے موقع پر اسے دیا گیا تھا تو وہ واپس نہ لے لیکن اگر نکاح کے وقت مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو اس صورت میں عورت کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرنا واجب ہے ، اور یہ کچھ نہ کچھ آدمی کی حیثیت اور مقدرت کے مطابق ہونا چاہیے ، جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۳٦ میں فرمایا گیا ہے ۔ علماء کا ایک گروہ اس بات کا بھی قائل ہے کہ متعۂ طلاق دینا بہرحال واجب ہے خواہ مہر مقرر کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو ۔ ( اسلامی فقہ کی اصطلاح میں متعۂ طلاق اس مال کو کہتے ہیں جو طلاق دے کر رخصت کرتے وقت عورت کو دیا جاتا ہے ) ۔ ٦ ) بھلے طریقے سے رخصت کرنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ عورت کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے بلکہ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی تھکا فضیحتی کے بغیر شریفانہ طریقے سے علیٰحدگی اختیار کر لی جائے ۔ ایک آدمی کو اگر عورت پسند نہیں آئی ہے یا کوئی اور وجہ شکایت پیدا ہوئی ہے جس کی بنا پر وہ اس عورت کو نہیں رکھنا چاہتا تو بھلے آدمیوں کی طرح اسے طلاق دے اور رخصت کر دے ۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس کے عیوب لوگوں کے سامنے بیان کرے اور اپنی شکایتوں کے دفتر کھولے تاکہ کوئی دوسرا بھی اس عورت قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو ۔ قرآن کے اس ارشاد سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ طلاق کے نفاذ کو کسی پنچایت یا عدالت کی اجازت کے ساتھ معلق کرنا خدائی تشریع کی حکمت و مصلحت کے بالکل خلاف ہے ، کیونکہ اس صورت میں بھلے طریقے سے رخصت کرنے کا کوئی امکان نہیں رہتا ، بلکہ مرد نہ بھی چاہے تو تھُکّا فضیحتی اور بدنامی و رسوائی ہو کر رہتی ہے ۔ علاوہ بریں آیت کے الفاظ میں اس امر کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے کہ مرد کا اختیار طلاق کسی پنچایت یا عدالت کی اجازت کے ساتھ مشروط ہو ۔ آیت بالکل صراحت کے ساتھ ناکح کو طلاق کا اختیار دے رہی ہے اور اسی پر یہ ذمہ داری ڈال رہی ہے کہ اگر وہ ہاتھ لگانے سے پہلے عورت کو چھوڑنا چاہے تو لازماً نصف مہر دے کر یا اپنی حیثیت کے مطابق کچھ مال دے کر چھوڑے ۔ اس سے آیت کا مقصود صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کو کھیل بننے سے روکنے کے لیے مرد پر مالی ذمہ داری کا ایک بوجھ ڈال دیا جائے تاکہ وہ خود ہی اپنے اختیار طلاق کو سوچ سمجھ کر استعمال کرے اور دو خاندانوں کے اندرونی معاملے میں کسی بیرونی مداخلت کی نوبت نہ آنے پائے ، بلکہ شوہر سرے سے کسی کو یہ بتانے پر مجبور ہی نہ ہو کہ وہ بیوی کو کیوں چھوڑ رہا ہے ۔ ۷ ) ابن عباس ، سعید بن المُسَیِّب ، حسن بصری ، علی بن الحسین ( زین العابدین ) ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے آیت کے الفاظ جب تم نکاح کرو پھر طلاق دے دو سے یہ استدلال کیا ہے کہ طلاق اسی صورت میں واقع ہوتی ہے جبکہ اس سے پہلے نکاح ہو چکا ہو ۔ نکاح سے پہلے طلاق بے اثر ہے ۔ اس لیے اگر کوئی شخص یوں کہے کہ اگر میں فلاں عورت سے ، یا فلاں قبیلے یا قوم کی عورت سے یا کسی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ۔ تو یہ قول لغو و بے معنیٰ ہے ، اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو سکتی ۔ اس خیال کی تائید میں یہ احادیث پیش کی جاتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا طلاق لابن اٰدم فی مالا یملک ، ابن آدم جس چیز کا مالک نہیں ہے اس کے بارے میں طلاق کا اختیار استعمال کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا ( احمد ، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ) اور لاَ طلاق قبل النکاح ، نکاح سے پہلے کوئی طلاق نہیں ۔ ( ابن ماجہ ) ۔ مگر فقہاء کی ایک بڑی جماعت یہ کہتی ہے کہ اس آیت اور ان احادیث کا اطلاق صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی شخص ایک غیر عورت کو جو اس کے نکاح میں نہ ہو یوں کہے کہ تجھ پر طلاق ہے یا میں نے تجھے طلاق دی ۔ یہ قول بلا شبہ لغو ہے جس پر کوئی قانونی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا ۔ لیکن اگر وہ یوں کہے کہ اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھ پر طلاق ہے ۔ تو یہ نکاح سے پہلے طلاق دینا نہیں ہے بلکہ دراصل وہ شخص اس امر کا فیصلہ اور اعلان کرتا ہے کہ جب وہ عورت اس کے نکاح میں آئے گی تو اس پر طلاق وارد ہو گی ۔ یہ قول لغو و بے اثر نہیں ہو سکتا ، بلکہ جب بھی وہ عورت اس کے نکاح میں آئے گی اسی وقت اس پر طلاق پڑ جائے گی ۔ یہ مسلک جن فقہاء کا ہے ان کے درمیان پھر اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ اس نوعیت کے ایقاع طلاق کی وسعت کس حد تک ہے ۔ امام ابو حنیفہ ، امام محمد اور امام زُفَر کہتے ہیں کہ خواہ کوئی شخص عورت یا قوم یا قبیلے کی تخصیص کرے یا مثال کے طور پر عام بات اس طرح کہے کہ جس عورت سے بھی میں نکاح کروں اس پر طلاق ہے ، دونوں صورتوں میں طلاق واقع ہو جائے گی ۔ ابو بکر جَصّاص نے یہی رائے حضرت عمر ، عبداللہ بن مسعود ، ابراہیم النَّخعی ، مجاہد اور عمر بن عبدالعزیز رحمہم اللہ سے بھی نقل کی ہے ۔ سُفیان ثَوری اور عثمان الْبَتِّی کہتے ہیں کہ طلاق صرف اسی صورت میں پڑے گی جب کہنے والا یوں کہے کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ۔ حسن بن صالح ، لَیث بن سعد اور عامر الشَّعبِی کہتے ہیں کہ اس طرح کی طلاق عمومیت کے ساتھ بھی پڑ سکتی ہے بشرطیکہ اس میں کسی نوع کی تخصیص ہو ۔ مثلاً آدمی نے یوں کہا ہو کہ اگر میں فلاں خاندان ، یا فلاں قبیلے ، یا فلاں شہر یا ملک یا قوم کی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ۔ ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک اوپر کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے مزید شرط یہ لگاتے ہیں کہ اس میں مدت کا بھی تعین ہونا چاہیے ۔ مثلاً اگر آدمی نے یوں کہا ہو کہ اگر میں اس سال یا آئندہ دس سال کے اندر فلاں عورت یا فلاں گروہ کی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے تب یہ طلاق واقع ہو گی ورنہ نہیں ۔ بلکہ امام مالک رحمہ اللہ اس پر اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ اگر یہ مدت اتنی طویل ہو جس میں اس شخص کا زندہ رہنا متوقع نہ ہو تو اس کا قول بے اثر رہے گا ۔
نکاح کی حقیقت ۔ اس آیت میں بہت سے احکام ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف عقد پر بھی نکاح کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اس کے ثبوت میں اس سے زیادہ صراحت والی آیت اور نہیں ۔ اس میں اختلاف ہے کہ لفظ نکاح حقیقت میں صرف ایجاب وقبول کے لئے ہے ؟ یا صرف جماع کے لئے ہے ؟ یا ان دونوں کے مجموعے کے لئے ؟ قرآن کریم میں اس کا اطلاق عقد و وطی دونوں پر ہی ہوا ہے ۔ لیکن اس آیت میں صرف عقد پر ہی اطلاق ہے ۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دخول سے پہلے بھی خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے ۔ مومنات کا ذکر یہاں پر بوجہ غلبہ کے ہے ورنہ حکم کتابیہ عورت کا بھی یہی ہے ۔ سلف کی ایک بڑی جماعت نے اس آیت سے استدلال کر کے کہا ہے کہ طلاق اسی وقت واقع ہوتی ہے جب اس سے پہلے نکاح ہو گیا ہو اس آیت میں نکاح کے بعد طلاق کو فرمایا ہے پس معلوم ہوا ہے کہ نکاح سے پہلے نہ طلاق صحیح ہے نہ وہ واقع ہوتی ہے ۔ امام شافعی اور امام احمد اور بہت بڑی جماعت سلف و خلف کا یہی مذہب ہے ۔ مالک اور ابو حنفیہ کا خیال ہے کہ نکاح سے پہلے بھی طلاق درست ہو جاتی ہے ۔ مثلاً کسی نے کہا کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ۔ تو اب جب بھی اس سے نکاح کرے گا طلاق پڑ جائے گی ۔ پھر مالک اور ابو حنیفہ میں اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو کہے کہ جس عورت سے میں نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو امام ابو حنیفہ کہتے ہیں پس وہ جس سے نکاح کرے گا اس پر طلاق پڑ جائے گی اور امام مالک کا قول ہے کہ نہیں پڑے گی کیونکہ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ اگر کسی شخص نے نکاح سے پہلے یہ کہا ہو کہ میں جس عورت سے نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو کیا حکم ہے ؟ آپ نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا اس عورت کو طلاق نہیں ہوگی ۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے طلاق کو نکاح کے بعد فرمایا ہے ۔ پس نکاح سے پہلے کی طلاق کوئی چیز نہیں ۔ مسند احمد ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ ابن آدم جس کا مالک نہ ہو اس میں طلاق نہیں ۔ اور حدیث میں ہے جو طلاق نکاح سے پہلے کی ہو وہ کسی شمار میں نہیں ۔ ( ابن ماجہ ) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم عورتوں کو نکاح کے بعد ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر کوئی عدت نہیں بلکہ وہ جس سے چاہیں اسی وقت نکاح کر سکتی ہیں ۔ ہاں اگر ایسی حالت میں ان کا خاوند فوت ہوگیا ہو تو یہ حکم نہیں اسے چار ماہ دس دن کی عدت گذارنی پڑے گی ۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے ۔ پس نکاح کے بعد ہی میاں نے بیوی کو اس سے پہلے ہی اگر طلاق دے دی ہے تو اگر مہر مقرر ہو چکا ہے تو اس کا آدھا دینا پڑے گا ۔ ورنہ تھوڑا بہت دے دینا کافی ہے ۔ اور آیت میں ہے ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا 49؀ ) 33- الأحزاب:49 ) یعنی اگر مہر مقرر ہو چکا ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی تو آدھے مہر کی وہ مستحق ہے ۔ اور آیت میں ارشاد ہے ( لَاجُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ مَالَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِيْضَةً ښ وَّمَتِّعُوْھُنَّ ۚ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ ۚ حَقًّا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ ٢٣٦؁ ) 2- البقرة:236 ) یعنی اگر تم اپنی بیویوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو یہ کچھ گناہ کی بات نہیں ۔ اگر ان کا مہر مقرر نہ ہوا ہو تو تم انہیں کچھ نہ کچھ دے دو ۔ اپنی اپنی طاقت کے مطابق ، امیر و غریب دستور کے مطابق ان سے سلوک کریں اور بھلے لوگوں پر یہ ضروری ہے ۔ چنانچہ ایسا ایک واقعہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی گذرا ۔ کہ آپ نے امیمہ بنت شرجیل سے نکاح کیا یہ رخصت ہو کر آگئیں آپ گئے ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے اسے پسند نہ کیا آپ نے حضرت ابو اسید کو حکم دیا کہ ان کا سامان تیار کر دیں اور دو کپڑے ارزقیہ کے انہیں دے دیں ۔ پس سراح جمیل یعنی اچھائی سے رخصت کر دینا یہی ہے کہ اس صورت میں اگر مہر مقرر ہے تو آدھا دے دے ۔ اور اگر مقرر نہیں تو اپنی طاقت کے مطابق اس کے ساتھ کچھ سلوک کر دے ۔