Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَـكَ اَزۡوَاجَكَ الّٰتِىۡۤ اٰتَيۡتَ اُجُوۡرَهُنَّ وَمَا مَلَـكَتۡ يَمِيۡنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَيۡكَ وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَبَنٰتِ خَالِكَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِىۡ هَاجَرۡنَ مَعَكَ وَامۡرَاَةً مُّؤۡمِنَةً اِنۡ وَّهَبَتۡ نَفۡسَهَا لِلنَّبِىِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِىُّ اَنۡ يَّسۡتَـنۡكِحَهَا خَالِصَةً لَّـكَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ؕ قَدۡ عَلِمۡنَا مَا فَرَضۡنَا عَلَيۡهِمۡ فِىۡۤ اَزۡوَاجِهِمۡ وَمَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ لِكَيۡلَا يَكُوۡنَ عَلَيۡكَ حَرَجٌؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿50﴾
اے نبی! ہم نے تیرے لئے تیری وہ بیویاں حلال کر دی ہیں جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہے اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ تعالٰی نے غنیمت میں تجھے دی ہیں اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ با ایمان عورت جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے یہ اس صورت میں کہ خود نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے یہ خاص طور پر صرف تیرے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں ہم اسے بخوبی جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ( احکام ) مقرر کر رکھے ہیں یہ اس لئے کہ تجھ پر حرج واقع نہ ہو اللہ تعالٰی بہت بخشنے اور بڑے رحم والا ہے ۔
يايها النبي انا احللنا لك ازواجك التي اتيت اجورهن و ما ملكت يمينك مما افاء الله عليك و بنت عمك و بنت عمتك و بنت خالك و بنت خلتك التي هاجرن معك و امراة مؤمنة ان وهبت نفسها للنبي ان اراد النبي ان يستنكحها خالصة لك من دون المؤمنين قد علمنا ما فرضنا عليهم في ازواجهم و ما ملكت ايمانهم لكيلا يكون عليك حرج و كان الله غفورا رحيما
O Prophet, indeed We have made lawful to you your wives to whom you have given their due compensation and those your right hand possesses from what Allah has returned to you [of captives] and the daughters of your paternal uncles and the daughters of your paternal aunts and the daughters of your maternal uncles and the daughters of your maternal aunts who emigrated with you and a believing woman if she gives herself to the Prophet [and] if the Prophet wishes to marry her, [this is] only for you, excluding the [other] believers. We certainly know what We have made obligatory upon them concerning their wives and those their right hands possess, [but this is for you] in order that there will be upon you no discomfort. And ever is Allah Forgiving and Merciful.
Aey nabi hum ney teray liye teri woh biwiyan halal kerdi hain jinehn tum unn kay mehar day chuka hai aur woh londiyan bhi jo Allah Taalaa ney ghanimat mein tujhay di hain aur teray chacha ki larkiyan aur phophiyon ki betiyan aur teray mamo ki betiyan aur teri khalaon ki betiyan bhi jinhon ney teray sath hijrat ki hai aur woh ba-emaan aurat jo apna nafs nabi ko hiba ker day yeh uss soorat mein kay khud nabi bhi uss say nikkah kerna chahaye yeh khas tor per sirf teray liye hi hai aur momino kay liye hum issay ba-khoobi jantay hain jo hum ney inn per aur inn ki biwiyon aur londiyon kay baray mein ( ehkaam ) muqarrar ker rakhay hain yeh iss liye kay tujh per haraj waqey na ho Allah Taalaa boht bakhshney aur baray reham wala hai.
اے نبی ! ہم نے تمہارے لیے وہ بیویاں حلال کردی ہیں جن کو تم نے ان کا مہرا دا کردیا ہے ۔ ( ٣٨ ) نیز اللہ نے غنیمت کا جو مال تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے جو کنیزیں تمہاری ملکیت میں آچکی ہیں وہ بھی ( تمہارے لیے حلال ہیں ) اور تمہاری وہ چچا کی بیٹیاں اور پھوپی کی بیٹیاں اور ماموں کی بیٹیاں اور خالاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے ۔ ( ٣٩ ) نیز کوئی مسلمان عورت جس نے مہر کے بغیر نبی کو اپنے آپ ( سے نکاح کرنے ) کی پیشک کی ہو ، ( ٤٠ ) بشرطیکہ نبی اس سے نکاح کرنا چاہے ۔ یہ سارے احکام خاص تمہارے لیے ہیں ، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ۔ ہمیں وہ احکام خوب معلوم ہیں جو ہم نے ان کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں ان پر عائد کیے ہیں ۔ ( اور تمہیں ان سے مستثنی کیا ہے ) تاکہ تم پر کوئی تنگی نہ رہے اور اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے ۔
اے غیب بتانے والے ( نبی ) ! ہم نے تمہارے لیے حلال فرمائیں تمہاری وہ بیبیاں جن کو تم مہر دو ( ف۱۱۸ ) اور تمہارے ہاتھ کا مال کنیزیں جو اللہ نے تمہیں غنیمت میں دیں ( ف۱۱۹ ) اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور پھپیوں کی بیٹیاں اور ماموں کی بیٹیاں اور خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ( ف۱۲۰ ) اور ایمان والی عورت اگر وہ اپنی جان نبی کی نذر کرے اگر نبی اسے نکاح میں لانا چاہے ( ف۱۲۱ ) یہ خاص تمہارے لیے ہہے امت کے لیے نہیں ( ف۱۲۲ ) ہمیں معلوم ہے جو ہم نے مسلمانوں پر مقرر کیا ہے ان کی بیبیوں اور ان کے ہاتھ کی مال کنیزوں میں ( ف۱۲۳ ) یہ خصوصیت تمہاری ( ف۱۲٤ ) اس لیے کہ تم پر کوئی تنگی نہ ہو ، اور اللہ بخشنے والا مہربان ،
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں 87 ، اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں ، اور تمہاری وہ چچازاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے ، اور وہ مومن عورت جس نے اپنے آپ کو نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے ہبہ کیا ہو اگر نبی اسے نکاح میں لینا چاہے 88 ۔ یہ رعایت خالصتا تمہارے لیے ہے ، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ہے 89 ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدود عائد کیے ہیں ۔ ( تمہیں ان حدود سے ہم نے اس لیے مستثنی کیا ہے ) تاکہ تمہارے اوپر کوئی تنگی نہ رہے 90 ، اور اللہ غفور و رحیم ہے ۔
اے نبی! بیشک ہم نے آپ کے لئے آپ کی وہ بیویاں حلال فرما دی ہیں جن کا مہَر آپ نے ادا فرما دیا ہے اور جو ( احکامِ الٰہی کے مطابق ) آپ کی مملوک ہیں ، جو اللہ نے آپ کو مالِ غنیمت میں عطا فرمائی ہیں ، اور آپ کے چچا کی بیٹیاں ، اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں ، اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں ، اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں ، جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور کوئی بھی مؤمنہ عورت بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح ) کے لئے دے دے اور نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ) اسے اپنے نکاح میں لینے کا ارادہ فرمائیں ( تو یہ سب آپ کے لئے حلال ہیں ) ، ( یہ حکم ) صرف آپ کے لئے خاص ہے ( امّت کے ) مومنوں کے لئے نہیں ، واقعی ہمیں معلوم ہے جو کچھ ہم نے اُن ( مسلمانوں ) پر اُن کی بیویوں اور ان کی مملوکہ باندیوں کے بارے میں فرض کیا ہے ، ( مگر آپ کے حق میں تعدّدِ ازواج کی حِلّت کا خصوصی حکم اِس لئے ہے ) تاکہ آپ پر ( امتّ میں تعلیم و تربیتِ نسواں کے وسیع انتظام میں ) کوئی تنگی نہ رہے ، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :87 یہ دراصل جواب ہے ان لوگوں کے اعتراض کا جو کہتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دوسرے لوگوں کے لیے تو بیک وقت چار بیویاں رکھنا ممنوع قرار دیتے ہیں ، مگر خود انہوں نے یہ پانچویں بیوی کیسے کر لی ۔ اس اعتراض کی بنیاد یہ تھی کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیویاں موجود تھیں ۔ ایک حضرت سودہ جن سے ۳ قبل ہجرت میں آپ نے نکاح کیا تھا ۔ دوسری ، حضرت عائشہ جن سے نکاح تو ۳ قبل ہجرت میں ہو چکا تھا مگر انکی رخصتی شوال ۱ ہجری میں ہوئی تھی ، تیسری ، حضرت حفصہ جن سے شعبان ۳ ھجری میں آپ کا نکاح ہوا ۔ اور چوتھی ، حضرت اُم سَلمہ ، جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال ٤ ہجری میں زوجیت کا شرف عطا فرمایا ۔ اس طرح حضرت زینب آپ کی پانچویں بیوی تھیں ۔ اس پر کفار و منافقین جو اعتراض کر رہے تھے اس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دے رہا ہے کہ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہاری یہ پانچوں بیویاں جنہیں مہر دے کر تم اپنے نکاح میں لائے ہو ، ہم نے تمہارے لیے حلال کی ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے چار کی قید لگانے والے بھی ہم ہی ہیں اور اپنے نبی کو اس قید سے مستثنیٰ کرنے والے بھی ہم خود ہیں ۔ اگر وہ قید لگانے کے ہم مجاز تھے تو آخر اس استثناء کے مجاز ہم کیوں نہیں ہیں ۔ اس جواب کے بارے میں یہ بات پھر ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ اس سے مقصود کفار و منافقین کو مطمئن کرنا نہیں تھا بلکہ ان مسلمانوں کو مطمئن کرنا تھا جن کے دلوں میں مخالفین اسلام وسوسے ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ انہیں چونکہ یقین تھا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں نازل ہوا ہے ، اس لیے قرآن کی ایک محکم آیت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ نبی نے چار بیویوں کے عام قانون سے اپنے آپ کو خود مستثنیٰ نہیں کر لیا ہے بلکہ یہ استثنا کا فیصلہ ہمارا کیا ہوا ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :88 پانچویں بیوی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کرنے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چند مزید اقسام کی عورتوں سے بھی نکاح کی اجازت عطا فرمائی: ۱ ۔ وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے آپ کی ملکیت میں آئیں ۔ اس اجازت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ قُریظہ کے سبایا میں سے حضرت رَیحانہ ، غزوۂ بنی المُصْطَلِق کے سبایا میں سے حضرت جُوَیْریہ غزوۂ خیبر کے سبایا میں سے حضرت صفیہ اور مُقَقَسِ مصر کی بھیجی ہوئی حضرت ماریہ قبطیہ کو اپنے لیے مخصوص فرمایا ۔ ان میں سے مقدم الذکر تین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر کے ان سے نکاح کیا تھا ، لیکن حضرت ماریہ سے بربنائے مِلکِ یمین تمتع فرمایا ، ان کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کیا ہو ۔ ۲ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد ، ماموں زاد ، پھوپھی زاد اور خالہ زاد بہنوں میں سے وہ خواتین جنہوں نے ہجرت میں آپ کا ساتھ دیا ہو ۔ آیت میں آپ کے ساتھ ہجرت کرنے کا جو ذکر آیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سفر میں آپ کے ساتھ رہی ہوں ، بلکہ یہ تھا کہ وہ بھی اسلام کی خاطر راہ خدا میں ہجرت کر چکی ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا کہ ان رشتہ دار مہاجر خواتین میں سے بھی آپ جس سے چاہیں نکاح کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ اس اجازت کے مطابق آپ نے ۷ ھ میں حضرت اُمّ حبیبہ سے نکاح فرمایا ۔ ( ضمناً اس آیت میں یہ صراحت بھی ہے کہ چچا ، ماموں ، پھوپھی اور خالہ کی بیٹیاں ایک مسلمان کے لیے حلال ہیں ۔ اس معاملہ میں اسلامی شریعت عیسائی اور یہودی ، دونوں مذہبوں سے مختلف ہے ۔ عیسائیوں کے ہاں کسی ایسی عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا جس سے سات پشت تک مرد کا نسب ملتا ہو ۔ اور یہودیوں کے ہاں سگی بھانجی اور بھتیجی تک سے نکاح جائز ہے ) ۔ ۳ ۔ وہ مومن عورت جو اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کرے ، یعنی بلا مہر آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دینے کے لیے تیار ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے قبول کرنا پسند فرمائیں ۔ اس اجازت کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال ۷ ھ میں حضرت میمونہ کو اپنی زوجیت میں لیا ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسند نہ کیا کہ مہر کے بغیر ان کے ہبہ سے فائدہ اٹھائیں ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کسی خواہش اور مطالبہ کے بغیر ان کو مہر عطا فرمایا ۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں کوئی موہوبہ بیوی نہ تھیں ۔ مگر اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبہ کرنے والی بیوی کو بھی مہر دیے بغیر نہ رکھا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :89 اس فقرے کا تعلق اگر صرف قریب کے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ دوسرے کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی عورت اپنے آپ کو اس کے لیے ہبہ کرے اور وہ بلا مہر اس سے نکاح کر لے ۔ اور اگر اس کا تعلق اوپر کی پوری عبارت سے مانا جائے تو اس سے مراد یہ ہو گی کہ چار سے زیادہ نکاح کرنے کی رعایت بھی صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے ، عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے ۔ اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کچھ احکام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہیں جن میں امت کے دوسرے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہیں ہیں ۔ قرآن و سنت کے تتبُّع سے ایسے متعدد احکام کا پتہ چلتا ہے ۔ مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز تہجد فرض تھی اور باقی تمام امت کے لیے وہ نفل ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور آپ کے خاندان والوں کے لیے صدقہ لینا حرام ہے اور کسی دوسرے کے لیے وہ حرام نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم نہ ہو سکتی تھی ، باقی سب کی میراث کے لیے وہ احکام ہیں جو سورۂ نساء میں بیان ہوئے ہیں ۔ آپ کے لیے چار سے زائد بیویاں حلال کی گئیں ، بیویوں کے درمیان عدل آپ پر واجب نہیں کیا گیا ، اپنے نفس کو ہبہ کر نے والی عورت سے بلا مہر نکاح کرنے کی آپ کو اجازت دی گئی ، اور آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویاں تمام امت پر حرام کر دی گئیں ۔ ان میں سے کوئی خصوصیت بھی ایسی نہیں ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی مسلمان کو حاصل ہو ۔ مفسرین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خصوصیت یہ بھی بیان کی ہے کہ آپ کے لیے کتابیہ عورت سے نکاح ممنوع تھا ، حالانکہ باقی امت کے لیے وہ حلال ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :90 یہ وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عام قاعدے سے مستثنیٰ فرمایا ۔ تنگی نہ رہے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہشات نفسانی بہت بڑھی ہوئی تھیں اس لیے آپ کو بہت بیویاں کرنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ آپ صرف چار بیویوں تک محدود رہنے میں تنگی محسوس نہ فرمائیں ۔ اس فقرے کا یہ مطلب صرف وہی شخص لے سکتا ہے جو تعصب میں اندھا ہو کر اس بات کو بھول جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۵ سال کی عمر میں ایک ایسی خاتون سے شادی کی تھی جن کی عمر اس وقت ٤۰ سال تھی ، اور پوری ۲۵برس تک آپ ان کے ساتھ نہایت خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کرتے رہے ۔ پھر جب ان کا انتقال ہو گیا تو آپ نے ایک اور سن رسیدہ خاتون حضرت سَودہ سے نکاح کیا اور پورے چار سال تک تنہا وہی آپ کی بیوی رہیں ۔ اب آخر کون صاحب عقل اور ایمان دار آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ ۵۳ سال کی عمر سے گزر جانے کے بعد یکایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہشات نفسانی بڑھتی چلی گئیں اور آپ کو زیادہ سے زیادہ بیویوں کی ضرورت پیش آنے لگی ۔ دراصل تنگی نہ رہنے کا مطلب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایک طرف تو اس کار عظیم کو نگاہ میں رکھے جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ڈالی تھی اور دوسری طرف ان حالات کو سمجھے جن میں یہ کار عظیم انجام دینے کے لیے آپ کو مامور کیا گیا تھا ۔ تعصب سے ذہن کو پاک کر کے جو شخص بھی ان دونوں حقیقتوں کو سمجھ لے گا وہ بخوبی جان لے گا کہ بیویوں کے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلی اجازت دینا کیوں ضروری تھا ، اور چار کی قید میں آپ کے لیے کیا تنگی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد جو کام کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ آپ ایک ان گھڑ قوم کو جو اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نہیں بلکہ عام تہذیب و تمدن کے نقطۂ نظر سے بھی ناتراشیدہ تھی ، ہر شعبۂ زندگی میں تعلیم و تربیت دے کر ایک اعلیٰ درجہ کی مہذب و شائستہ اور پاکیزہ قوم بنائیں ۔ اس غرض کے لیے صرف مردوں کو تربیت دینا کافی نہ تھا ، بلکہ عورتوں کی تربیت بھی اتنی ہی ضروری تھی ۔ مگر جو اصول تمدن و تہذیب سکھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مامور کیے گئے تھے ان کی رو سے مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ممنوع تھا اور اس قاعدے کو توڑے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عورتوں کو براہ راست خود تربیت دینا ممکن نہ تھا ۔ اس بنا پر عورتوں میں کام کرنے کی صرف یہی ایک صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ممکن تھی کہ مختلف عمروں اور ذہنی صلاحیتوں کی متعدد خواتین سے آپ نکاح کریں ، ان کو براہ راست خود تعلیم و تربیت دیکر اپنی مدد کے لیے تیار کریں ، اور پھر ان سے شہری اور بدوی اور جوان اور بوڑھی ، ہر قسم کی عورتوں کو دین سکھانے اور اخلاق و تہذیب کے نئے اصول سمجھانے کا کام لیں ۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد یہ خدمت بھی کی گئی تھی کہ پرانے جاہلی نظام زندگی کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلامی نظام زندگی عملاً قائم کر دیں ۔ اس خدمت کی انجام دہی میں جاہلی نظام کے علمبرداروں سے جنگ ناگزیر تھی ۔ اور یہ کشمکش ایک ایسے ملک میں پیش آ رہی تھی یہاں قبائلی طرز زندگی اپنی مخصوص روایات کے ساتھ رائج تھا ۔ ان حالات میں دوسری تدابیر کے ساتھ آپ کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف خاندانوں میں نکاح کر کے بہت سی دوستیوں کو پختہ اور بہت سی عداوتوں کو ختم کر دیں ۔ چنانچہ جن خواتین سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادیاں کیں ان کے ذاتی اوصاف کے علاوہ ان کے انتخاب میں یہ مصلحت بھی کم و بیش شامل تھی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ کے ساتھ نکاح کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ اپنے تعلقات کو اور زیادہ گہرا اور مستحکم کر لیا ۔ حضرت ام سلمہ اس خاندان کی بیٹی تھیں جس سے ابوجہل اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تعلق تھا ۔ اور حضرت اُم حبیبہ ابو سفیان کی بیٹی تھیں ۔ ان شادیوں نے بہت بڑی حد تک ان خاندان کی دشمنی کا زور توڑ دیا ، بلکہ اُم حبیبہ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہونے کے بعد تو ابو سفیان پھر کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پر نہ آیا ۔ حضرت صفیہ ، جُویریہ ، اور رَیحانہ رضی اللہ عنہن یہودی خاندانوں سے تھیں ۔ انہیں آزاد کر کے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیے تو آپ کے خلاف یہودیوں کی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑ گئیں ۔ کیونکہ اس زمانے کی عربی روایات کے مطابق جس شخص سے کسی قبیلے کی بیٹی بیاہی جاتی وہ صرف لڑکی کے خاندان ہی کا نہیں بلکہ پورے قبیلے کا داماد سمجھا جاتا تھا اور داماد سے لڑنا بڑے عار کی بات تھی ۔ معاشرے کی عملی اصلاح اور اس کی جاہلانہ رسوم کو توڑنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں شامل تھا ۔ چنانچہ ایک نکاح آپ کو اس مقصد کے لیے بھی کرنا پڑا ، جیسا کہ اسی سورۂ احزاب میں مفصل بیان ہو چکا ہے ۔ یہ مصلحتیں اس بات کی مقتضی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نکاح کے معاملے میں کوئی تنگی باقی نہ رکھی جائے ۔ تاکہ جو کار عظیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا گیا تھا اس کی ضروریات کے لحاظ سے آپ جتنے نکاح کرنا چاہیں کرلیں ۔ اس بیان سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بھی واضح ہو جاتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ تعدد ازواج صرف چند شخصی ضرورتوں کی خاطر ہی جائز ہے اور ان کے ماسوا کوئی غرض ایسی نہیں ہو سکتی جس کے لیے یہ جائز ہو ۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک سے زائد نکاح کیے ان کی وجہ یہ نہ تھی کہ بیوی بیمار تھی ، یا بانجھ تھی ، یا اولاد نرینہ نہ تھی ، یا کچھ یتیموں کی پرورش کا مسئلہ درپیش تھا ۔ ان محدود شخصی ضروریات کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نکاح یا تو تبلیغی و تعلیمی ضروریات کے لیے کیے ، یا سیاسی و اجتماعی مقاصد کے لیے ۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ نے خود تعدد ازواج کو ان چند گنی چنی مخصوص اغراض تک ، جن کا آج نام لیا جا رہا ہے ، محدود نہیں رکھا اور اللہ کے رسول نے ان کے سوا بہت سے دوسرے مقاصد کے لیے متعدد نکاح کیے تو کوئی دوسرا شخص کیا حق رکھتا ہے کہ قانون میں اپنی طرف سے چند قیود تجویز کرے اور اوپر سے دعویٰ یہ کرے کہ یہ حد بندیاں وہ شریعت کے مطابق کر رہا ہے ۔ دراصل ان ساری حد بندیوں کی جڑ یہ مغربی تخیل ہے کہ تعدد ازواج بجائے خود ایک برائی ہے ۔ اسی تخیل کی بنا پر یہ نظریہ پیدا ہوا ہے کہ یہ فعل حرام اگر کبھی حلال ہو بھی سکتا ہے تو صرف شدید ناگزیر ضروریات کے لیے ہو سکتا ہے اب اس درآمد شدہ تخیل پر اسلام کا جعلی ٹھپہ لگانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کی جائے ، قرآن و سنت اور پوری امت مسلمہ کا لٹریچر اس سے قطعاً ناآشنا ہے ۔
حق مہر اور بصورت علیحدگی کے احکامات ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ آپ نے اپنی جن بیویوں کو مہر ادا کیا ہے وہ سب آپ پر حلال ہیں ۔ آپ کی تمام ازواج مطہرات کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ تھا جس کے پانچ سو درہم ہوتے ہیں ۔ ہاں ام المومنین حضرت حبیبہ بنت ابی سفیان عنہا کا مہر حضرت نجاشی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے پاس سے چار سو دینار دیا تھا ۔ اور اسی طرح ام المومنین حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مہر صرف ان کی آزادی تھی ۔ خیبر کے قیدیوں میں آپ بھی تھیں پھر آپ نے انہیں آزاد کر دیا اور اور اسی آزادی کو مہر قرار دیا اور نکاح کرلیا ۔ اور حضرت جویریہ بنت حارث مصطلقیہ نے جتنی رقم پر مکاتبہ کیا تھا وہ پوری رقم آپ نے حضرت ثابت بن قیس بن شماس کو ادا کر کے ان سے عقد باندھا تھا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام ازواج مطہرات پر اپنی رضامندی نازل فرمائے ۔ اسی طرح جو لونڈیاں غنیمت میں آپ کے قبضے میں آئیں وہ بھی آپ پر حلال ہیں ۔ صفیہ اور جویریہ کے مالک آپ ہوگئے تھے پھر آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا ۔ ریحانہ بنت شمعون نصریہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کی ملکیت میں آئی تھیں ۔ حضرت ماریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ کو فرزند بھی ہوا ۔ جن کا نام حضرت ابراہیم تھا ۔ چونکہ نکاح کے بارے میں نصرانیوں نے افراط اور یہودیوں نے تفریط سے کام لیا تھا اس لئے اس عدل و انصاف والی سہل اور صاف شریعت نے درمیانہ راہ حق کو ظاہر کر دیا ۔ نصرانی تو سات پشتوں تک جس عورت مرد کا نسب نہ ملتا ہو ۔ ان کا نکاح جائز جانتے تھے اور یہودی بہن اور بھائی کی لڑکی سے بھی نکاح کر لیتے تھے ۔ پس اسلام نے بھانجی بھتیجی سے نکاح کرنے کو روکا ۔ اور چچا کی لڑکی پھوپھی کی لڑکی ماموں کی لڑکی اور خالہ کی لڑکی سے نکاح کو مباح قرار دیا ۔ اس آیت کے الفاظ کی خوبی پر نظر ڈالئے کہ عم اور خال چچا اور ماموں کے لفظ کو تو واحد لائے اور عمات اور خلات یعنی پھوپھی اور خالہ کے لفظ کو جمع لائے ۔ جس میں مردوں کی ایک قسم کی فضیلت عورتوں پر ثابت ہو رہی ہے ۔ جیسے ( يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ٢٥٧؁ۧ ) 2- البقرة:257 ) اور جیسے ( وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ Ǻ۝ ) 6- الانعام:1 ) یہاں بھی چونکہ ظلمات اور نور یعنی اندھیرے اور اجالے کا ذکر تھا اور اجالے کو اندھیرے پر فضیلت ہے اس لئے وہ لفظ ظلمات جمع لائے ۔ اور لفظ نور مفرد لائے ۔ اس کی اور بھی بہت سی نظیریں دی جاسکتی ہیں ، پھر فرمایا جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے ۔ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مانگا آیا تو میں نے اپنی معذوری ظاہر کی جسے آپ نے تسلیم کر لیا ۔ اور یہ آیت اتری میں ہجرت کرنے والیوں میں نہ تھی بلکہ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والیوں میں تھی ۔ مفسرین نے بھی یہی کہا ہے کہ مراد ہے کہ جنہوں نے مدینے کی طرف آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو ۔ قتادہ سے ایک روایت میں اس سے مراد اسلام لانا بھی مروی ہے ۔ ابن مسعود کی قرائت میں ( وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِيُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِيْٓ اَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا 50؀ ) 33- الأحزاب:50 ) پھر فرمایا اور وہ مومنہ عورت جو اپنا نفس اپنے نبی کے لئے ہبہ کر دیے ۔ اور نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں ۔ تو بغیر مہر دیے اسے نکاح میں لا سکتے ہیں ۔ پس یہ حکم دو شرطوں کے ساتھ ہے جیسے آیت ( وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللّٰهُ يُرِيْدُ اَنْ يُّغْوِيَكُمْ ۭ هُوَ رَبُّكُمْ ۣ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 34؀ۭ ) 11-ھود:34 ) میں ۔ یعنی حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں اگر میں تمھیں نصیحت کرنا چاہوں اور اگر اللہ تمھیں اس نصیحت سے مفید کرنا نہ چاہے تو میری نصیحت تمھیں کوئی نفع نہیں دے سکتی ۔ اور جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان میں ( يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ 84؀ ) 10- یونس:84 ) یعنی اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو ۔ اور اگر تم مسلمان ہوگئے ہو تو تمھیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ پس جیسے ان آیتوں میں دو دو شرائط ہیں اسی طرح اس آیت میں بھی دو شرائط ہیں ۔ ایک تو اس کا اپنا نفس ہبہ کرنا دوسرے آپ کا بھی اسے اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ کرنا ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں اپنا نفس آپ کے لئے ہبہ کرتی ہوں ۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہیں ۔ تو ایک صحابی نے کھڑے ہو کر کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ ان سے نکاح کا ارادہ نہ رکھتے ہوں تو میرے نکاح میں دے دیجئے ۔ آپ نے فرمایا تمھارے پاس کچھ ہے ؟ جو انہیں مہر میں دیں ؟ جواب دیا کہ اس تہمد کی سوا اور کچھ نہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ اگر تم انہیں دے دو گے تو خود بغیر تہمد کے رہ جاؤ گے کچھ اور تلاش کرو ۔ اس نے کہا میں اور کچھ نہیں پاتا ۔ آپ نے فرمایا تلاش تو کرو گو لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے ۔ انہوں نے ہر چند دیکھ بھال کی لیکن کچھ نہ پایا ۔ آپ نے فرمایا قرآن کی کچھ سورتیں بھی تمھیں یاد ہیں ؟ اس نے کہا فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں ۔ آپ نے فرمایا بس انہی سورتوں پر میں نے انہیں تمھارے نکاح میں دیا ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ۔ حضرت انس جب یہ واقعہ بیان کرنے لگے تو ان کی صاحبزادی بھی سن رہی تھیں ۔ کہنے لگیں اس عورت میں بہت ہی کم حیا تھی ۔ تو آپ نے فرمایا تم سے وہ بہتر تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی رغبت کر رہی تھیں اور آپ پر اپنا نفس پیش کر رہی تھیں ( بخاری ) مسند احمد میں ہے کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنی بیٹی کی بہت سی تعریفیں کر کے کہنے لگیں کے حضور میری مراد یہ ہے کہ آپ اس سے نکاح کرلیں ۔ آپ نے قبول فرما لیا اور وہ پھر بھی تعریف کرتی رہیں ۔ یہاں تک کہ کہا حضور نہ وہ کبھی وہ بیمار پڑیں نہ سر میں درد ہوا یہ سن کر آپ نے فرمایا پھر مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی بیوی صاحبہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا تھیں ۔ اور روایت میں ہے یہ قبلہ بنو سلیم میں سے تھیں ۔ اور روایت میں ہے یہ بڑی نیک بخت عورت تھیں ۔ ممکن ہے ام سلیم ہی حضرت خولہ ہوں رضی اللہ عنہا ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دوسری کوئی عورت ہوں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ عورتوں سے نکاح کیا جن میں سے چھ تو قریشی تھیں ۔ خدیجہ ، عائشہ ، حفصہ ، ام حبیبہ ، سودہ و ام سلمہ رضی اللہ عنہن اجمعین اور تین بنو عامر بن صعصعہ کے قبیلے میں سے تھیں اور دو عورتیں قبیلہ بنوہلال بن عامر میں سے تھیں اور حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ یہی وہ ہیں جنہوں نے اپنا نفس رسول اللہ کوہبہ کیا تھا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا جن کی کنیت ام المساکین تھی ۔ اور ایک عورت بنو ابی بکرین کلاب سے ۔ یہ وہی ہے جس نے دنیا کو اختیار کیا تھا اور بنو جون میں سے ایک عورت جس نے پناہ طلب کی تھی ، اور ایک عورت اسدیہ جن کا نام زینب بنت جحش ہے رضی اللہ عنہا ۔ دو کنزیں تھیں ۔ صفیہ بنت حی بن اخطب اور جویریہ بنت حارث بن عمرو بن مصطلق خزاعیہ ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی عورت حضرت میمونہ بنت حارث تھیں لیکن اس میں انقطاع ہے ۔ اور یہ روایت مرسل ہے ۔ یہ مشہور بات ہے کہ حضرت زینب جن کی کنیت ام المساکین تھی ، یہ زینب بنت خزیمہ تھیں ، فبیلہ انصار میں سے تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہی انتقال کر گئیں ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ واللہ اعلم ، مقصد یہ ہے کہ وہ عورتیں جنہوں نے اپنے نفس کا اختیار آپ کو دیا تھا چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں ان عورتوں پر غیرت کیا کرتی تھی جو اپنا نفس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں اور مجھے بڑا تعجب معلوم ہوتا تھا کہ عورتیں اپنا نفس ہبہ کرتی ہیں ۔ جب یہ آیت اتری کہ ( تُرْجِيْ مَنْ تَشَاۗءُ مِنْهُنَّ وَ تُـــــْٔوِيْٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَاۗءُ ۭ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَلِــيْمًا 51؀ ) 33- الأحزاب:51 ) الخ ، تو ان میں سے جسے چاہے اس سے نہ کر اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے اور جن سے تو نے یکسوئی کر لی ہے انہیں بھی اگر تم لے آؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں ۔ تو میں نے کہا بس اب تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر خوب وسعت و کشادگی کر دی ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ کوئی عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ تھی جس نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کیا ہو ۔ حضرت یونس بن بکیر فرماتے ہیں گو آپ کے لئے یہ مباح تھا کہ جو عورت اپنے تئیں آپ کو سونپ دے آپ اسے اپنے گھر میں رکھ لیں لیکن آپ نے ایسا کیا نہیں ۔ کیونکہ یہ امر آپ کی مرضی پر رکھا گیا تھا ۔ یہ بات کسی اور کے لئے جائز نہیں ہاں مہر ادا کر دے تو بیشک جائز ہے ۔ چنانچہ حضرت بروع بنت واشق کے بارے میں جنہوں نے اپنا نفس سونپ دیا تھا جب ان کے شوہر انتقال کر گئے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کی اور عورتوں کے مثل انہیں مہر دیا جائے ۔ جس طرح موت مہر کو مقرر کردیتی ہے اسی طرح صرف دخول سے بھی مہر و اجب ہو جاتا ہے ۔ ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم سے مستثنیٰ تھے ۔ ایسی عورتوں کو کچھ دینا آپ پر واجب نہ تھا گو اسے شرف بھی حاصل ہو چکا ہو ۔ اس لئے کہ آپ کو بغیر مہر کے اور بغیر ولی کے اور بغیر گواہوں کے نکاح کر لینے کا اختیار تھا جیسا کہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے قصے میں ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کسی عورت کو یہ جائز نہیں کہ اپنے آپ کو بغیر ولی اور بغیر مہر کے کسی کے نکاح میں دے دے ۔ ہاں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ تھا ۔ اور مومنوں پر جو ہم نے مقرر کر دیا ہے اسے ہم خوب جانتے ہیں یعنی وہ چار سے زیادہ بیویاں ایک ساتھ رکھ نہیں سکتے ۔ ہاں ان کے علاوہ لونڈیاں رکھ سکتے ہیں ۔ اور ان کی کوئی تعداد مقرر نہیں ۔ اسی طرح ولی کی مہر کی گواہوں کی بھی شرط ہے ۔ پس امت کا تو یہ حکم ہے اور آپ پر اس کی پابندیاں نہیں ۔ تاکہ آپ کو کوئی حرج نہ ہو ۔ اللہ بڑا غفور ورحیم ہے ۔