Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
تُرۡجِىۡ مَنۡ تَشَآءُ مِنۡهُنَّ وَتُـــْٔوِىۡۤ اِلَيۡكَ مَنۡ تَشَآءُ ؕ وَمَنِ ابۡتَغَيۡتَ مِمَّنۡ عَزَلۡتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكَ ؕ ذٰ لِكَ اَدۡنٰٓى اَنۡ تَقَرَّ اَعۡيُنُهُنَّ وَلَا يَحۡزَنَّ وَيَرۡضَيۡنَ بِمَاۤ اٰتَيۡتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ مَا فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيۡمًا حَلِيۡمًا‏ ﴿51﴾
ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے اوراگر تو ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلا لے جنہیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں اس میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ ان عورتوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ بھی تو انہیں دیدے اس پر سب کی سب راضی ر ہیں تمھارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ ( خوب ) جانتا ہے اللہ تعالٰی بڑاہی علم اور حلم والا ہے ۔
ترجي من تشاء منهن و توي اليك من تشاء و من ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك ذلك ادنى ان تقر اعينهن و لا يحزن و يرضين بما اتيتهن كلهن و الله يعلم ما في قلوبكم و كان الله عليما حليما
You, [O Muhammad], may put aside whom you will of them or take to yourself whom you will. And any that you desire of those [wives] from whom you had [temporarily] separated - there is no blame upon you [in returning her]. That is more suitable that they should be content and not grieve and that they should be satisfied with what you have given them - all of them. And Allah knows what is in your hearts. And ever is Allah Knowing and Forbearing.
Inn mein say jissay tu chahaye door rakh day aur jissay chahaye apnay pass rakh ley aur agar tu unn mein say bhi kissi ko apnay pass bula ley jinhen tu ney alag ker rakha tha to tujh per koi gunah nahi iss mein iss baat ki ziyada tawakka hai kay inn aurton ki aankhen thandi rahen aur woh ranjeedah na hon aur jo kuch bhi tu enhen dey dey iss per sab ki sab razi rahen tumahray dilon mein jo kuch hai ussay Allah ( khoob ) janta hai. Allah Taalaa bara hi ilm aur hilm wala hai.
ان بیویوں میں سے تم جس کی باری چاہو ملتوی کردو ، اور جس کو چاہو ، اپنے پاس رکھو ، اور جن کو تم نے الگ کردیا ہو ان میں سے اگر کسی کو واپس بلانا چاہو تو اس میں بھی تمہارے لیے کوئی گناہ نہیں ہے ۔ ( ٤١ ) اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ ان سب کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی ، اور انہیں رنج نہیں ہوگا اور تم انہیں جو کچھ دے دو گے اس پر وہ سب کی سب راضی رہیں گی ۔ ( ٤٢ ) اور اللہ ان سب باتوں کو جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہیں اور اللہ علم اور حلم کا مالک ہے ۔
پیچھے ہٹاؤ ان میں سے جسے چاہو اور اپنے پاس جگہ دو جسے چاہو ( ف۱۲۵ ) اور جسے تم نے کنارے کردیا تھا اسے تمہارا جی چاہے تو اس میں بھی تم پر کچھ گناہ نہیں ( ف۱۲٦ ) یہ امر اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور غم نہ کریں اور تم انھیں جو کچھ عطا فرماؤ اس پر وہ سب کی سب راضی رہیں ( ف۱۲۷ ) اور اللہ جانتا ہے جو تم سب کے دلوں میں ہے ، اور اللہ علم و حلم والا ہے ،
تم کو اختیار دیا جاتا ہے کہ اپنی بیویوں میں سے جس کو چاہو اپنے سے الگ رکھو ، جسے چاہو اپنے ساتھ رکھو اور جسے چاہو الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلا لو ۔ اس معاملے میں تم پر کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ اس طرح زیادہ متوقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ رنجیدہ نہ ہوں گی ، اور جو کچھ بھی تم ان کو دو گے اس پر وہ سب راضی رہیں گی 91 اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں کے دلوں میں ہے ، اور اللہ علیم و حلیم ہے 92
۔ ( اے حبیب! آپ کو اختیار ہے ) ان میں سے جِس ( زوجہ ) کو چاہیں ( باری میں ) مؤخّر رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس ( پہلے ) جگہ دیں ، اور جن سے آپ نے ( عارضی ) کنارہ کشی اختیار فرما رکھی تھی آپ انہیں ( اپنی قربت کے لئے ) طلب فرما لیں تو آپ پر کچھ مضائقہ نہیں ، یہ اس کے قریب تر ہے کہ ان کی آنکھیں ( آپ کے دیدار سے ) ٹھنڈی ہوں گی اور وہ غمگین نہیں رہیں گی اور وہ سب اس سے راضی رہیں گی جو کچھ آپ نے انہیں عطا فرما دیا ہے ، اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے ، اور اللہ خوب جاننے والا بڑا حِلم والا ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :91 اس آیت سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خانگی زندگی کی الجھنوں سے نجات دلانا تھا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے سکون کے ساتھ اپنا کام کر سکیں ۔ جب اللہ تعلی نے صاف الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے اختیارات دے دیے کہ ازواج مطہرات میں سے جس کے ساتھ جو برتاؤ چاہیں کریں تو اس بات کا کو ئی امکان نہ رہا کہ یہ مومن خواتین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی طرح پریشان کرتیں یا آپس میں مسابقت اور رقابت کے جھگڑے پیدا کر کے آپ کے لیے الجھنیں پیدا کرتیں ۔ لیکن اللہ تعالی سے یہ اختیار پا لینے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ازواج کے درمیان پورا پورا عدل فرمایا ، کسی کو کسی پر ترجیح نہ دی ، اور باقاعدہ باری مقرر کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے ہاں تشریف لے جاتے رہے ۔ محدثین میں سے صرف ابو رزین یہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف چار بیویوں ( حضرت عائشہ ، حضرت حفصہ ، حضرت زنیب اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہن ) کو باریوں کی تقسیم میں شامل کیا تھا اور باقی ازواج کے لیے کوئی باری مقرر نہ تھی ۔ لیکن دوسرے تمام محدثین و مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں اور نہایت قوی روایت سے اس امر کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ اس اختیار کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں باری باری سے جاتے تھے اور سب سے یکساں برتاؤ کرتے تھے ۔ بخاری ، مسلم ، نسائی اور ابو داؤد وغیرہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کسی بیوی کی باری کے دن دوسری بیوی کے ہاں جاتے تو اس سے اجازت لے کر جاتے تھے ۔ ابو بکر جصاص عروہ بن زبیر کی روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم باریوں کی تقسیم میں ہم میں سے کسی کو ترجیح نہ دیتے تھے ۔ اگرچہ کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی روز اپنی سب بیویوں کے ہاں نہ جاتے ہوں ، مگر جس بیوی کی باری کا دن ہوتا تھا اس کے سوا کسی دوسری بیوی کو چھوتے تک نہ تھے اور یہ روایت بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں مبتلا ہوئے اور نقل و حرکت آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیے مشکل ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں سے اجازت طلب کی کہ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رہنے دو ، اور جب سب نے اجازت دے دی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گزارا ۔ ابن ابی حاتم امام زہری کا قول نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بیوی کو باری سے محروم کرنا ثابت نہیں ہے اس سے صرف حضرت سودہ رضی اللہ عنہا مستثنیٰ ہیں جنہوں نے خود اپنی باری بخوشی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخش دی تھی ، کیونکہ وہ بہت سن رسیدہ ہو چکی تھیں ۔ اس مقام پر کسی کے دل میں یہ شبہ نہ رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے معاذاللہ اس آیت میں اپنے نبی کے ساتھ کوئی بے جا رعایت کی تھی اور ازواج مطہرات کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ فرمایا تھا ۔ دراصل جن عظیم مصالح کی خاطر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیویوں کی تعداد کے معاملہ میں عام قاعدے سے مستثنیٰ کیا گیا تھا ، انہی مصالح کا تقاضہ یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانگی زندگی کا سکون بہم پہنچایا جائے اور ان اسباب کا سد باب کیا جائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پریشان خاطری کے موجب ہو سکتے ہوں ازواج مطہرات کے لیے یہ ایک بہت بڑا شرف تھا کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی بزرگ ترین ہستی کی زوجیت حاصل ہوئی اور اس کی بدولت ان کو یہ موقع نصیب ہوا کہ دعوت و اصلاح کے اس عظیم الشان کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیق کار بنیں جو رہتی دنیا تک انسانیت کی فلاح کا ذریعہ بننے والا تھا ۔ اس مقصد کے لیے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیر معمولی ایثار و قربانی سے کام لے رہے تھے اور تمام صحابۂ کرام اپنی حد استطاعت تک قربانیاں کر رہے تھے اسی طرح ازواج مطہرات کا بھی یہ فرض تھا کہ ایثار سے کام لیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کو تمام ازواج رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے بخوشی قبول کیا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :92 یہ تنبیہ ہے ازواج مطہرات کے لیے بھی اور دوسرے تمام لوگوں کے لیے بھی ۔ ازواج مطہرات کے لیے تنبیہ اس بات کی ہے کہ اللہ کا یہ حکم آ جانے کے بعد اگر وہ دل میں بھی کبیدہ خاطر ہوں گی تو گرفت سے نہ بچ سکیں گی ۔ اور دوسرے لوگوں کے لیے اس میں یہ تنبیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کے متعلق کسی طرح کی بدگمانی بھی اگر انہوں نے اپنے دل میں رکھی یا فکر و خیال کے کسی گوشے میں بھی کوئی وسوسہ پالتے رہے تو اللہ سے ان کی یہ چوری چھپی نہ رہ جائے گی ۔ اس کے ساتھ اللہ کی صفت حِلم کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے تاکہ آدمی کو یہ معلوم ہو جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا تخیل بھی اگرچہ سخت سزا کا مستوجب ہے ، لیکن جس کے دل میں کبھی ایسا کوئی وسوسہ آیا ہو وہ اگر اسے نکال دے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں معافی کی امید ہے ۔
روایات و احکامات بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں ان عورتوں پر عار رکھا کرتی تھی جو اپنا نفس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کریں اور کہتی تھیں کہ عورتیں بغیر مہر کے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کرنے میں شرماتی ہیں ؟ یہاں تک کہ یہ آیت اتری تو میں نے کہا کہ آپ کا رب آپ کے لئے کشادگی کرتا ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ آیت سے مراد یہی عورتیں ہیں ۔ ان کے بارے میں اللہ کے نبی کو اختیار ہے کہ جسے چاہیں قبول کریں اور جسے چاہیں قبول نہ فرمائیں ۔ پھر اس کے بعد یہ بھی آپ کے اختیار میں ہے کہ جنہیں قبول نہ فرمایا ہو انہیں جب چاہیں نواز دیں عامر شعبی سے مروی ہے کہ جنہیں موخر کر رکھا تھا ان میں حضرت ام شریک تھی ۔ ایک مطلب اس جملے کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی بیویوں کے بارے میں آپ کو اختیار تھا کہ اگر چاہیں تقسیم کریں چاہیں نہ کریں جسے چاہیں مقدم کریں جسے چاہیں موخر کریں ۔ اسی طرح خاص بات چیت میں بھی ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری عمر برابر اپنی ازواج مطہرات میں عدل کے ساتھ برابری کی تقسیم کرتے رہے ۔ بعض فقہاء شافعیہ کا قول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ اس آیت کے نازل ہو چکنے کے بعد بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اجازت لیا کرتے تھے ۔ مجھ سے تو جب دریافت فرماتے میں کہتی اگر میرے بس میں ہو تو میں کسی اور کے پاس آپ کو ہرگز نہ جانے دوں ۔ پس صحیح بات جو بہت اچھی ہے اور جس سے ان اقوال میں مطابقت بھی ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ آیت عام ہے ۔ اپنے نفس سونپنے والیوں اور آپ کی بیویوں سب کو شامل ہے ۔ ہبہ کرنے والیوں کے بارے میں نکاح کرنے نہ کرنے اور نکاح والیوں میں تقسیم کرنے نہ کرنے کا آپ کو اختیار تھا ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہی حکم بالکل مناسب ہے اور ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سہولت والا ہے ۔ جب وہ جان لیں گی کہ آپ باریوں کے مکلف نہیں ہیں ۔ پھر بھی مساوات قائم رکھتے ہیں تو انہیں بہت خوشی ہوگی ۔ اور ممنون و مشکور ہوں گی اور آپ کے انصاف و عدل کی داددیں گی ۔ اللہ دلوں کی حالتوں سے واقف ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ کسے کس کی طرف زیادہ رغبت ہے ۔ مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے طور پر صحیح تقسیم اور پورے عدل کے بعد اللہ سے عرض کیا کرتے تھے کہ الہ العالمین جہاں تک میرے بس میں تھا میں نے انصاف کر دیا ۔ اب جو میرے بس میں نہیں اس پر تو مجھے ملامت نہ کرنا یعنی دل کے رجوع کرنے کا اختیار مجھے نہیں ۔ اللہ سینوں کی باتوں کا عالم ہے ۔ لیکن حلم و کرم والا ہے ۔ چشم پوشی کرتا ہے معاف فرماتا ہے ۔