Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لَا يَحِلُّ لَـكَ النِّسَآءُ مِنۡۢ بَعۡدُ وَلَاۤ اَنۡ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجٍ وَّلَوۡ اَعۡجَبَكَ حُسۡنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَـكَتۡ يَمِيۡنُكَ‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ رَّقِيۡبًا‏ ﴿52﴾
اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لئے حلال نہیں اور نہ یہ ( درست ہے ) کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے ( نکاح کرے ) اگرچہ ان کی صورت اچھی بھی لگتی ہو مگر جو تیری مملوکہ ہوں اور اللہ تعالٰی ہرچیز کا ( پورا ) نگہبان ہے ۔
لا يحل لك النساء من بعد و لا ان تبدل بهن من ازواج و لو اعجبك حسنهن الا ما ملكت يمينك و كان الله على كل شيء رقيبا
Not lawful to you, [O Muhammad], are [any additional] women after [this], nor [is it] for you to exchange them for [other] wives, even if their beauty were to please you, except what your right hand possesses. And ever is Allah , over all things, an Observer.
Iss kay baad aurten aap kay liye halal nahi aur na yeh ( durust hai ) kay inn kay badlay aur aurton say ( nikkah keray ) agarcheh unn ki soorat achi bhi lagti ho magar jo teri mamlooka hon. Aur Allah Taalaa her cheez ka ( poora ) nigehban hai.
اس کے بعد دوسری عورتیں تمہارے لیے حلال نہیں ہیں ، اور نہیہ جائز ہے کہ تم ان کے بدلے کوئی دوسری بیویاں لے آؤ ، چاہے ان کی خوبی تمہیں پسند آئی ہو ۔ ( ٤٣ ) البتہ جو کنیزیں تمہاری ملکیت میں ہوں ( وہ تمہارے لیے حلال ہیں ) اور اللہ ہر چیز کی پوری نگرانی کرنے والا ہے ۔
ان کے بعد ( ۱۲۸ ) اور عورتیں تمہیں حلال نہیں ( ف۱۲۹ ) اور نہ یہ کہ ان کے عوض اور بیبیاں بدلو ( ف۱۳۰ ) اگرچہ تمہیں ان کا حسن بھائے مگر کنیز تمہارے ہاتھ کا مالک ( ف۱۳۱ ) اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے ،
اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں ، اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ خواہ ان کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو 93 ، البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے 94 اللہ ہر چیز پر نگران ہے ۔ ع6
اس کے بعد ( کہ انہوں نے دنیوی منفعتوں پر آپ کی رضا و خدمت کو ترجیح دے دی ہے ) آپ کے لئے بھی اور عورتیں ( نکاح میں لینا ) حلال نہیں ( تاکہ یہی اَزواج اپنے شرف میں ممتاز رہیں ) اور یہ بھی جائز نہیں کہ ( بعض کی طلاق کی صورت میں اس عدد کو ہمارا حکم سمجھ کر برقرار رکھنے کے لئے ) آپ ان کے بدلے دیگر اَزواج ( عقد میں ) لے لیں اگرچہ آپ کو ان کا حُسنِ ( سیرت و اخلاق اور اشاعتِ دین کا سلیقہ ) کتنا ہی عمدہ لگے مگر جو کنیز ( ہمارے حکم سے ) آپ کی مِلک میں ہو ( جائز ہے ) ، اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :93 اس ارشاد کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ جو عورتیں اوپر آیت نمبر ۵۰ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کی گئی ہیں ان کے سوا دوسری کوئی عورت اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ جب آپ کی ازواج مطہرات اس بات کے لیے راضی ہو گئی ہیں کہ تنگی و ترشی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیں اور آخرت کے لیے دنیا کو انہوں نے تج دیا ہے ، اور اس پر بھی خوش ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو برتاؤ بھی ان کے ساتھ چاہیں کریں ، تو اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ ان میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ کوئی اور بیوی لے آئیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :94 یہ آیت اس امر کی صراحت کر رہی ہے کہ منکوحہ بیویوں کے علاوہ مملوکہ عورتوں سے بھی تمتع کی اجازت ہے اور ان کے لیے تعداد کی کوئی قید نہیں ہے ۔ اسی مضمون کی تصریح سوُرۂ نساء آیت ۳ ، سُورۂ مومنون آیت ٦ ، اور سورۂ معارج آیت ۳۰ میں بھی کی گئی ہے ۔ ان تمام آیات میں مملوکہ عورتوں کو منکوحہ ازواج کے بالمقابل ایک الگ صنف کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے اور پھر ان کے ساتھ ازدواجی تعلق کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔ نیز سورۂ نساء کی آیت ۳ منکوحہ بیویوں کے لیے چار کی حد مقرر کرتی ہے ، مگر نہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے مملوکہ عورتوں کے لیے تعداد کی حد مقرر کی ہے اور نہ دوسری متعلقہ آیات میں ایسی کسی حد کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ بلکہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ کے بعد دوسری عورتوں سے نکاح کرنا ، یا موجودہ بیویوں میں سے کسی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لانا حلال نہیں ہے ، البتہ مملوکہ عورتیں حلال ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مملوکہ عورتوں کے معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا کی شریعت یہ گنجائش مالدار لوگوں کو بے حساب لونڈیاں خرید کر عیاشی کرنے کے لیے دیتی ہے ۔ بلکہ یہ تو ایک بے جا فائدہ ہے جو نفس پرست لوگوں نے قانون سے اٹھایا ہے ۔ قانون بجائے خود انسانوں کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا ، اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ لوگ اس سے یہ فائدہ اٹھائیں ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے شریعت ایک مرد کو چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دیتی ہے ، اور اسے یہ حق بھی دیتی ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لے آئے ۔ یہ قانون انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر بنایا گیا تھا ۔ اب اگر کوئی شخص محض عیاشی کی خاطر یہ طریقہ اختیار کرے کہ چار بیویوں کو کچھ مدت رکھ کر طلاق دیتا اور پھر ان کی جگہ بیویوں کی دوسری کھیپ لاتا چلا جائے ، تو یہ قانون کی گنجائشوں سے فائدہ اٹھانا ہے جس کی ذمہ داری خود اسی شخص پر عائد ہو گی نہ کہ خدا کی شریعت پر ۔ اسی طرح شریعت نے جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کو ، جبکہ ان کی قوم مسلمان قیدیوں سے تبادلہ کرنے یا فدیہ دے کر ان کو چھڑانے کے لیے تیار نہ ہو ، لونڈی بنانے کی اجازت دی ، اور جن اشخاص کی ملکیت میں وہ حکومت کی طرف سے دیدی جائیں ان کو یہ حق دیا کہ ان عورتوں سے تمتع کریں ان کا وجود معاشرے کے لیے اخلاقی فساد کا سبب نہ بن جائے ۔ پھر چونکہ لڑائیوں میں گرفتار ہونے والے لوگوں کی کوئی تعداد معین نہیں ہو سکتی تھی اس لیے قانوناً اس امر کی بھی کوئی حد معین نہیں کی جا سکتی تھی کہ ایک شخص بیک وقت کتنے غلام اور کتنی لونڈیاں رکھ سکتا ہے ۔ لونڈیوں اور غلاموں کی خرید و فروخت کو بھی اس بنا پر جائز رکھا گیا کہ اگر کسی لونڈی یا غلام کا نباہ ایک مالک سے نہ ہو سکے تو وہ کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں منتقل ہو سکے اور ایک ہی شخص کی دائمی ملکیت مالک و مملوک دونوں کے لیے عذاب نہ بن جائے ۔ شریعت نے یہ سارے قواعد انسانی حالات و ضروریات کو ملحوظ رکھ کر سہولت کی خاطر بنائے تھے ۔ اگر ان کو مالدار لوگوں نے عیاشی کا ذریعہ بنا لیا تو اس کا الزام انہی پر ہے نہ کہ شریعت پر ۔
ازواج مطہرات کا عہد و فا ۔ پہلی آیتوں میں گذر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں رہیں اور اگر چاہیں تو آپ سے علیحدہ ہو جائیں ۔ لیکن امہات المومنین نے دامن رسول کو چھوڑنا پسند نہ فرمایا ۔ اس پر انہیں اللہ کی طرف سے ایک دنیاوی بدلہ یہ بھی ملا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت میں حکم ہوا کہ اب اس کے سوا کسی اور عورت سے نکاح نہیں کر سکتے نہ آپ ان میں سے کسی کو چھوڑ کر اس کے بدلے دوسری لاسکتے ہیں گو وہ کتنی ہی خوش شکل کیوں نہ ہو؟ ہاں لونڈیوں اور کنیزوں کی اور بات ہے اس کے بعد پھر رب العالمین نے یہ تنگی آپ پر سے اٹھالی اور نکاح کی اجازت دے دی لیکن خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سے کوئی اور نکاح کیا ہی نہیں ۔ اس حرج کے اٹھانے میں اور پھر عمل کے نہ ہونے میں بہت بڑی مصلحت یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احسان اپنی بیویوں پر رہے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ کے انتقال سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اور عورتیں بھی حلال کر دی تھیں ( ترمذی نسائی وغیرہ ) حضرت ام سلمہ سے بھی مروی ہے ۔ حلال کرنے والی آیت ( تُرْجِيْ مَنْ تَشَاۗءُ مِنْهُنَّ وَ تُـــــْٔوِيْٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَاۗءُ ۭ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَلِــيْمًا 51؀ ) 33- الأحزاب:51 ) ، ہے جو اس آیت سے پہلے گذر چکی ہے بیان میں وہ پہلے ہے اور اترنے میں وہ پیچھے ہے ۔ سورہ بقرہ میں بھی اس طرح عدت وفات کی پچھلی آیت منسوخ ہے اور پہلی آیت اس کی ناسخ ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اس آیت کے ایک اور معنی بھی بہت سے حضرات سے مروی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں مطلب اس سے یہ ہے کہ جن عورتوں کا ذکر اس سے پہلے ہے ان کے سوا اور حلال نہیں جن میں یہ صفتیں ہوں وہ ان کے علاوہ بھی حلال ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعب سے سوال ہوا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بیویاں تھیں اگر وہ آپ کی موجودگی میں انتقال کرجائیں تو آپ اور عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے تھے؟ آپ نے فرمایا یہ کیوں؟ تو سائل نے لایحل والی آیت پڑھی ۔ یہ سن کر حضرت ابی نے فرمایا اس آیت کا مطلب تو یہ ہے کہ عورتوں کی جو قسمیں اس سے پہلے بیان ہوئی ہیں یعنی نکاحتا بیویاں ، لونڈیاں ، چچا کی ، پھوپیوں کی ، مامو اور خالاؤں کی بیٹیاں ہبہ کرنے والی عورتیں ۔ ان کے سوا جو اور قسم کی ہوں جن میں یہ اوصاف نہ ہوں وہ آپ پر حلال نہیں ہیں ۔ ( ابن جریر ) ابن عباس سے مروی ہے کہ سوائے ان مہاجرات مومنات کے اور عورتوں سے نکاح کرنے کی آپ کو ممانعت کر دی گئی ۔ غیر مسلم عورتوں سے نکاح حرام کر دیا گیا قرآن میں ہے ( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ۡ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ Ĉ۝ۧ ) 5- المآئدہ:5 ) یعنی ایمان کے بعد کفر کرنے والے کے اعمال غارت ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِيْٓ اٰتَيْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَبَنٰتِ خَالِكَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِيْ هَاجَرْنَ مَعَكَ ۡ وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِيُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِيْٓ اَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا 50؀ ) 33- الأحزاب:50 ) ، میں عورتوں کی جن قسموں کا ذکر کیا وہ تو حلال ہیں ان کے ماسوا اور حرام ہیں ۔ مجاہد فرماتے ہیں ان کے سوا ہر قسم کی عورتیں خواہ وہ مسلمان ہوں خواہ یہودیہ ہوں خواہ نصرانیہ سب حرام ہیں ۔ ابو صالح فرماتے ہیں ان کے سوا ہر قسم کی عورتیں خواہ وہ مسلمان ہوں خواہ یہودیہ ہوں خواہ نصرانیہ سب حرام ہیں ۔ ابو صالح فرماتے ہیں کہ اعرابیہ اور انجان عورتوں سے نکاح سے روک دیئے گئے ۔ لیکن جو عورتیں حلال تھیں ان میں سے اگر چاہیں سینکڑوں کرلیں حلال ہیں ۔ الغرض آیت عام ہے ان عورتوں کو جو آپ کے گھر میں تھیں اور ان عورتوں کو جن کی اقسام بیان ہوئیں سب کو شامل ہے اور جن لوگوں سے اس کے خلاف مروی ہے ان سے اس کے مطابق بھی مروی ہے ۔ لہذا کوئی منفی نہیں ۔ ہاں اس پر ایک بات باقی رہ جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ کو طلاق دے دی تھی پھر ان سے رجوع کر لیا تھا اور حضرت سودہ کے فراق کا بھی ارادہ کیا تھا جس پر انہوں نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ کو دے دیا تھا ۔ اس کا جواب امام ابن جریر نے یہ دیا ہے کہ یہ واقعہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے ۔ بات یہی ہے لیکن ہم کہتے ہیں اس جواب کی بھی ضرورت نہیں ۔ اس لئے کہ آیت میں ان کے سوا دوسریوں سے نکاح کرنے اور انہیں نکال کر اوروں کو لانے کی ممانعت ہے نہ کہ طلاق دینے کی ، واللہ اعلم ۔ سودہ والے واقعہ میں آیت ( وَاِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ اَنْ يُّصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۭ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۭوَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ۭوَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا ١٢٨؁ ) 4- النسآء:128 ) اتری ہے اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والا واقعہ ابو داؤد وغیرہ میں مروی ہے ۔ ابو یعلی میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادی حضرت حفصہ کے پاس ایک دن آئے دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں پوچھا کہ شاید تمہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی ۔ سنو اگر رجوع ہو گیا اور پھر یہی موقعہ پیش آیا تو قسم اللہ کی میں مرتے دم تک تم سے کلام نہ کروں گا ۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو زیادہ کرنے سے اور کسی کو نکال کر اس کے بدلے دوسری کو لانے سے منع کیا ہے ۔ مگر لونڈیاں حلال رکھی گئیں ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت میں ایک خبیث رواج یہ بھی تھا کہ لوگ آپس میں بیویوں کا تبادلہ کر لیا کرتے تھے یہ اپنی اسے دے دیتا تھا اور وہ اپنی اسے دے دیتا تھا ۔ اسلام نے اس گندے طریقے سے مسلمانوں کو روک دیا ۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ عینیہ بن حصن فزاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ اور اپنی جاہلیت کی عادت کے مطابق بغیر اجازت لئے چلے آئے ۔ اس وقت آپ کے پاس حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آپ نے فرمایا تم بغیر اجازت کیوں چلے آئے؟ اس نے کہا واہ! میں نے تو آج تک قبیلہ مفر کے خاندان کے کسی شخص سے اجازت مانگی ہی نہیں ۔ پھر کہنے لگا یہاں آپ کے پاس کون سی عورت بیٹھی ہوئی تھیں؟ آپ نے فرمایا یہ ام المومنین حضرت عائشہ تھیں ۔ تو کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دیں میں ان کے بدلے اپنی بیوی آپ کو دیتا ہوں جو خوبصورتی میں بےمثل ہے ۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنا حرام کر دیا ہے ۔ جب وہ چلے گئے تو مائی صاحبہ نے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کون تھا ؟ آپ نے فرمایا ایک احمق سردار تھا ۔ تم نے ان کی باتیں سنیں؟ اس پر بھی یہ اپنی قوم کا سردار ہے ۔ اس روایت کا ایک راوی اسحاق بن عبداللہ بالکل گرے ہوئے درجے کا ہے ۔