Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُيُوۡتَ النَّبِىِّ اِلَّاۤ اَنۡ يُّؤۡذَنَ لَـكُمۡ اِلٰى طَعَامٍ غَيۡرَ نٰظِرِيۡنَ اِنٰٮهُ وَلٰـكِنۡ اِذَا دُعِيۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡا فَاِذَا طَعِمۡتُمۡ فَانْتَشِرُوۡا وَلَا مُسۡتَاۡنِسِيۡنَ لِحَـدِيۡثٍ ؕ اِنَّ ذٰلِكُمۡ كَانَ يُؤۡذِى النَّبِىَّ فَيَسۡتَحۡىٖ مِنۡكُمۡ وَاللّٰهُ لَا يَسۡتَحۡىٖ مِنَ الۡحَـقِّ ؕ وَاِذَا سَاَ لۡتُمُوۡهُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔـــلُوۡهُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰ لِكُمۡ اَطۡهَرُ لِقُلُوۡبِكُمۡ وَقُلُوۡبِهِنَّ ؕ وَمَا كَانَ لَـكُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللّٰهِ وَلَاۤ اَنۡ تَـنۡكِحُوۡۤا اَزۡوَاجَهٗ مِنۡۢ بَعۡدِهٖۤ اَبَدًا ؕ اِنَّ ذٰ لِكُمۡ كَانَ عِنۡدَ اللّٰهِ عَظِيۡمًا‏ ﴿53﴾
اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لئے ایسے وقت میں اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو ، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو ، نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے ، تو وہ لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی ( بیان ) حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو تم پردے کے پیچھے سے طلب کرو تمہارے اور ان کے دلوں کیلئے کامل پاکیزگی یہی ہے نہ تمہیں یہ جائز ہے کہ تم رسول اللہ کو تکلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو ۔ ( یاد رکھو ) اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا ( گناہ ) ہے ۔
يايها الذين امنوا لا تدخلوا بيوت النبي الا ان يؤذن لكم الى طعام غير نظرين انىه و لكن اذا دعيتم فادخلوا فاذا طعمتم فانتشروا و لا مستانسين لحديث ان ذلكم كان يؤذي النبي فيستحي منكم و الله لا يستحي من الحق و اذا سالتموهن متاعا فسلوهن من وراء حجاب ذلكم اطهر لقلوبكم و قلوبهن و ما كان لكم ان تؤذوا رسول الله و لا ان تنكحوا ازواجه من بعده ابدا ان ذلكم كان عند الله عظيما
O you who have believed, do not enter the houses of the Prophet except when you are permitted for a meal, without awaiting its readiness. But when you are invited, then enter; and when you have eaten, disperse without seeking to remain for conversation. Indeed, that [behavior] was troubling the Prophet, and he is shy of [dismissing] you. But Allah is not shy of the truth. And when you ask [his wives] for something, ask them from behind a partition. That is purer for your hearts and their hearts. And it is not [conceivable or lawful] for you to harm the Messenger of Allah or to marry his wives after him, ever. Indeed, that would be in the sight of Allah an enormity.
Aey eman walo! Jab tak tumhen ijazat na di jaye tum nabi kay gharon mein na jaya kero khaney kay liye aisay waqt mein kay uss kay pakney ka intizar kertay raho bulkay jab bulaya jaye jao aur jab kha chuko nikal kharay ho wahin baaton mein mashghool na hojaya kero. Nabi ko tumhari iss baat say takleef hoti hai. To woh lehaaz ker jatay hain aur Allah Taalaa ( biyan-e- ) haq mein kissi ka lehaaz nahi kerta jab tum nabi ki biwiyon say koi cheez talab kero to parday kay peechay say talab kero tumahray aur unn kay dilon kay liye kamil pakeezgi yehi hai na tumhen yeh jaeez hai kay tum rasool Allah ko takleef do aur na tumhen yeh halal hai kay aap kay baad kisi waqt bhi aap ki biwiyon say nikkah kero. ( yaad rakho ) Allah ka nazdeek yeh boht bara ( gunah ) hai.
اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں ( بلا اجازت ) داخل نہ ہو ، الا یہ کہ تمہیں کھانے پر آنے کی اجازت دے دی جائے ، وہ بھی اس طرح کہ تم اس کھانے کی تیاری کے انتظار میں نہ بیٹھے رہو ، لیکن جب تمہیں دعوت دی جائے تو جاؤ ، پھر جب کھانا کھا چکو تو اپنی اپنی راہ لو ، اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھو ۔ ( ٤٤ ) حقیقت یہ ہے کہ اس بات سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ تم سے ( کہتے ہوئے ) شرماتے ہیں ، اور اللہ حق بات میں کسی سے نہیں شرماتا اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو ۔ ( ٤٥ ) یہ طریقہ تمہارے دلوں کو بھی اور ان کے دلوں کو بھی زیادہ پاکیزہ رکھنے کا ذریعہ ہوگا ۔ اور تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ ، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو ۔ یہ اللہ کے نزدیک بڑی سنگین بات ہے ۔
اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں ( ف۱۳۲ ) نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ ( ف۱۳۳ ) مثلاً کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ( ف۱۳٤ ) ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ ( ف۱۳۵ ) بیشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے ( ف۱۳٦ ) اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا ، اور جب تم ان سے ( ف۱۳۷ ) برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر مانگو ، اس میں زیادہ ستھرائی ہے تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کی ( ف۱۳۸ ) اور تمہیں نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ کو ایذا دو ( ف۱۳۹ ) اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو ( ف۱٤۰ ) بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت بات ہے ( ف۱٤۱ )
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو95 نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو ۔ ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ 96 مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ ۔ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو 97 تمہاری یہ حرکتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں ، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے ۔ اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا ۔ نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو ، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے 98 تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تکلیف دو 99 ، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو 100 ، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے ۔
اے ایمان والو! نبیِ ( مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لئے اجازت دی جائے ( پھر وقت سے پہلے پہنچ کر ) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو ، ہاں جب تم بلائے جاؤ تو ( اس وقت ) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھا چکو تو ( وہاں سے اُٹھ کر ) فوراً منتشر ہوجایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو ۔ یقیناً تمہارا ایسے ( دیر تک بیٹھے ) رہنا نبیِ ( اکرم ) کو تکلیف دیتا ہے اور وہ تم سے ( اُٹھ جانے کا کہتے ہوئے ) شرماتے ہیں اور اللہ حق ( بات کہنے ) سے نہیں شرماتا ، اور جب تم اُن ( اَزواجِ مطّہرات ) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پسِ پردہ پوچھا کرو ، یہ ( ادب ) تمہارے دلوں کے لئے اور ان کے دلوں کے لئے بڑی طہارت کا سبب ہے ، اور تمہارے لئے ( ہرگز جائز ) نہیں کہ تم رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ ( جائز ) ہے کہ تم اُن کے بعد ابَد تک اُن کی اَزواجِ ( مطّہرات ) سے نکاح کرو ، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا ( گناہ ) ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :95 یہ اس حکم عام کی تمہید ہے جو تقریباً ایک سال کے بعد سُورۂ نور کی آیت ۲۷ میں دیا گیا ۔ قدیم زمانے میں اہل عرب بے تکلف ایک دوسرے کے گھروں میں چلے جاتے تھے ۔ کسی شخص کو کسی دوسرے شخص سے ملنا ہوتا تو وہ دروازے پر کھڑے ہو کر پکارنے اور اجازت لے کر اندر جانے کا پابند نہ تھا ۔ بلکہ اندر جا کر عورتوں اور بچوں سے پوچھ لیتا تھا کہ صاحب خانہ گھر میں ہے یا نہیں ۔ یہ جاہلانہ طریقہ بہت سی خرابیوں کا موجب تھا ۔ اور بسا اوقات اس سے بہت گھناؤنے اخلاقی مفاسد کا بھی آغاز ہو جاتا تھا ۔ اس لیے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی شخص ، خواہ وہ قریبی دوست یا دور پرے کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہو ۔ پھر سُورۂ نور میں اس قاعدے کو تمام مسلمانوں کے گھروں میں رائج کرنے کا عام حکم دیدیا گیا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :96 یہ اس سلسلے کا دوسرا حکم ہے ۔ جو غیر مہذب عادات اہل عرب میں پھیلی ہوئی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ کسی دوست یا ملاقاتی کے گھر کھانے کا وقت تاک کر پہنچ جاتے ۔ یا اس کے گھر آ کر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ کھانے کا وقت ہو جائے ۔ اس حرکت کی وجہ سے صاحب خانہ اکثر عجیب مشکل میں پڑ جاتا تھا ۔ منہ پھوڑ کر کہے کہ میرے کھانے کا وقت ہے ، آپ تشریف لے جایئے ، تو بے مروتی ہے ۔ کھلائے تو آخر اچانک آئے ہوئے کتنے آدمیوں کو کھلائے ۔ ہر وقت ہر آدمی کے بس میں یہ نہیں ہوتا کہ جب جتنے آدمی بھی اس کے ہاں آ جائیں ، ان کے کھانے کا انتظام فوراً کر لے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ عادت سے منع فرمایا اور حکم دے دیا کہ کسی شخص کے گھر کھانے کے لیے اس وقت جانا چاہیے جبکہ گھر والا کھانے کی دعوت دے ۔ یہ حکم صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے لیے خاص نہ تھا بلکہ اس نمونے کے گھر میں یہ قواعد اسی لیے جاری کیے گئے تھے کہ وہ مسلمانوں کے ہاں عام تہذیب کے ضابطے بن جائیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :97 یہ ایک اور بیہودہ عادت کی اصلاح ہے ۔ بعض لوگ کھانے کی دعوت میں بلائے جاتے ہیں تو کھانے سے فارغ ہو جانے کے بعد دھرنا مار کر بیٹھ جاتے ہیں اور آپس میں گفتگو کا ایسا سلسلہ چھیڑ دیتے ہیں جو کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتا ۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ صاحب خانہ اور گھر کے لوگوں کو اس سے کیا زحمت ہوتی ہے ۔ ناشائستہ لوگ اپنی اس عادت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تنگ کرتے رہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اخلاق کریمانہ کی وجہ سے اس کو برداشت کرتے تھے ۔ آخر کار حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ولیمے کے روز یہ حرکت اذیت رسانی کی حد سے گزر گئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رات کے وقت ولیمے کی دعوت تھی ۔ عام لوگ تو کھانے سے فارغ ہو کر رخصت ہو گئے ، مگر دو تین حضرات بیٹھ کر باتیں کرنے میں لگ گئے ۔ تنگ آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور ازواج مطہرات کے ہاں ایک چکر لگایا ۔ واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر پلٹ گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں جا بیٹھے ۔ اچھی خاصی رات گزر جانے پر جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ چلے گئے ہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے مکان میں تشریف لائے ۔ اس کے بعد ناگزیر ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ خود ان بری عادات پر لوگوں کو متنبہ فرمائے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق یہ آیات اسی موقع پر نازل ہوئی تھیں ۔ ( مسلم ۔ نَسائی ۔ ابنِ جریر ) سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :98 یہی آیت ہے جس کو آیت حجاب کہا جاتا ہے ۔ بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس آیت کے نزول سے پہلے متعدد مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کر چکے تھے کہ یا رسول اللہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بھلے اور برے سب ہی قسم کے لوگ آتے ہیں ۔ کاش آپ اپنی ازواج مطہرات کو پردہ کرنے کا حکم دے دیتے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر آپ کے حق میں میری بات مانی جائے تو کبھی میری نگاہیں آپ کو نہ دیکھیں ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ قانون سازی میں خود مختار نہ تھے ، اس لیے آپ اشارۂ الٰہی کے منتظر رہے ۔ آخر یہ حکم آگیا کہ محرم مردوں کے سوا ( جیسا کہ آگے آیت ۵۵ میں آ رہا ہے ) کوئی مرد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں نہ آئے ، اور جس کو بھی خواتین سے کوئی کام ہو وہ پردے کے پیچھے سے بات کرے ۔ اس حکم کے بعد ازواج مطہرات کے گھروں میں دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے ، اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا ، اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے ۔ آیت کا آخری فقرہ خود اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو لوگ بھی مردوں اور عورتوں کے دل پاک رکھنا چاہیں انہیں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے ۔ اب جس شخص کو بھی خدا نے بینائی عطا کی ہے وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جو کتاب مردوں کو عورتوں سے رو در رو بات کرنے سے روکتی ہے ، اور پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی مصلحت یہ بتاتی ہے کہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے اس میں سے آخر یہ نرالی روح کیسے کشید کی جا سکتی ہے کہ مخلوط مجالس اور مخلوط تعلیم اور جمہوری ادارات اور دفاتر میں مردوں اور عورتوں کا بے تکلف میل جول بالکل جائز ہے اور اس سے دلوں کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کسی کو قرآن کی پیروی نہ کرنی ہو تو اس کے لیے زیادہ معقول طریقہ یہ ہے کہ وہ خلاف ورزی کرے اور صاف صاف کہے کہ میں اس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا ۔ لیکن یہ تو بڑی ہی ذلیل حرکت ہے کہ وہ قرآن کے صریح احکام کی خلاف ورزی بھی کرے اور پھر ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہے کہ یہ اسلام کی روح ہے جو میں نے نکال لی ہے ۔ آخر وہ اسلام کی کونسی روح ہے جو قرآن و سنت کے باہر کسی جگہ ان لوگوں کو مل جاتی ہے ؟ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :99 یہ اشارہ ہے ان الزام تراشیوں کی طرف جو اس زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کی جا رہی تھیں اور کفار و منافقین کے ساتھ بعض ضعیف الایمان مسلمان بھی ان میں حصہ لینے لگے تھے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :100 یہ تشریح ہے اس ارشاد کی جو آغاز سُورہ میں گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اہل ایمان کی مائیں ہیں ۔
احکامات پردہ ۔ اس آیت میں پردے کا حکم ہے اور شرعی آداب و احکام کا بیان ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق جو آیتیں اتری ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے ۔ بخاری مسلم میں آپ سے مروی ہے کہ تین باتیں میں نے کہیں جن کے مطابق ہی رب العالمین کے احکام نازل ہوئے ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! اگر آپ مقام ابراہیم کو قبلہ بنائیں تو بہتر ہو ۔ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم اترا کہ ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ١٢٥؁ ) 2- البقرة:125 ) میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ گھر میں ہر کوئی یعنی چھوٹا بڑا آ جائے آپ اپنی بیویوں کو پردے کا حکم دیں تو اچھا ہو پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے پردے کا حکم نازل ہوا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات غیرت کی وجہ سے کچھ کہنے سننے لگیں تو میں نے کہا کسی غرور میں نہ رہنا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں چھوڑ دیں تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ کو دلوائے گا چنانچہ یہی آیت قرآن میں نازل ہوئی ۔ صحیح مسلم میں ایک چوتھی موافقت بھی مذکور ہے وہ بدر کے قیدیوں کا فیصلہ ہے اور روایت میں ہے سنہ 5 ھ ماہ ذی قعدہ میں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ہے ۔ جو نکاح خود اللہ تعالیٰ نے کرایا تھا اسی صبح کو پردے کی آیت نازل ہوئی ہے ۔ بعض حضرات کہتے ہیں یہ واقعہ سن تین ہجری کا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ صحیح بخاری شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا تو لوگوں کی دعوت کی وہ کھا پی کر باتوں میں بیٹھے رہے آپ نے اٹھنے کی تیاری بھی کی ۔ پھر بھی وہ نہ اٹھے یہ دیکھ کر آپ کھڑے ہوگئے آپ کے ساتھ ہی کچھ لوگ تو اٹھ کر چل دیئے لیکن پھر بھی تین شخص وہیں بیٹھے رہ گئے اور باتیں کرتے رہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پلٹ کر آئے تو دیکھا کہ وہ ابھی تک باتوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ آپ پھر لوٹ گئے ۔ جب یہ لوگ چلے گئے تو حضرت انس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی ۔ اب آپ آئے گھر میں تشریف لے گئے حضرت انس فرماتے ہیں میں نے بھی جانا چاہا تو آپ نے اپنے اور میرے درمیان پردہ کر لیا اور یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ حضور نے اس موقعہ پر گوشت روٹی کھلائی تھی اور حضرت انس کو بھیجا تھا کہ لوگوں کو بلا لائیں لوگ آتے تھے کھاتے تھے اور واپس جاتے تھے ۔ جب ایک بھی ایسا نہ بچا کہ جیسے حضرت انس بلاتے تو آپ کو خبر دی آپ نے فرمایا اب دستر خوان بڑھا دو لوگ سب چلے گئے مگر تین شخص باتوں میں لگے رہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے نکل کر حضرت عائشہ کے پاس گئے اور فرمایا اسلام علیکم اہل البیست و رحمتہ اللہ و برکاتہ ۔ انہوں نے جواب دیا وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ فرمایئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیوی صاحبہ سے خوش تو ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ تمہیں برکت دے ۔ اسی طرح آپ اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور سب جگہ یہی باتیں ہوئیں ۔ اب لوٹ کر جو آئے تو دیکھا کہ وہ تینوں صاحب اب تک گئے نہیں ۔ چونکہ آپ میں شرم و حیا لحاظ و مروت بیحد تھا اس لئے آپ کچھ فرما نہ سکے اور پھر سے حضرت عائشہ کے حجرے کی طرف چلے اب نہ جانے میں نے خبر دی یا آپ کو خود خبردار کر دیا گیا کہ وہ تینوں بھی چلے گئے ہیں تو آپ پھر آئے اور چوکھٹ میں ایک قدم رکھتے ہی آپ نے پردہ ڈال دیا اور پردے کی آیت نازل ہوئی ۔ ایک روایت میں بجائے تین شخصوں کے دو کا ذکر ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ کے کسی نئے نکاح پر حضرت ام سلیم نے مالیدہ بنا کر ایک برتن میں رکھ کر حضرت انس سے کہا اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچاؤ اور کہہ دینا کہ یہ تھوڑا سا تحفہ ہماری طرف سے قبول فرمایئے اور میرا سلام بھی کہہ دینا ۔ اس وقت لوگ تھے بھی تنگی میں ۔ میں نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ام المومنین کا سلام پہنچایا اور پیغام بھی ۔ آپ نے اسے دیکھا اور فرمایا اچھا اسے رکھ دو ۔ میں نے گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا پھر فرمایا جاؤ فلاں اور فلاں کو بلا لاؤ بہت سے لوگوں کے نام لئے اور پھر فرمایا ان کے علاوہ جو مسلمان مل جائے میں نے یہی کیا ۔ جو ملا اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کھانے کے لئے بھیجتا رہا واپس لوٹا تو دیکھا کہ گھر اور انگنائی اور بیٹھک سب لوگوں سے بھرے ہوئے ہے تقریباً تین سو آدمی جمع ہوگئے تھے اب مجھ سے آپ نے فرمایا آؤ وہ پیالہ اٹھا لاؤ میں لایا تو آپ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر دعا کی اور جو اللہ نے چاہا ۔ آپ نے زبان سے کہا پھر فرمایا چلو دس دس آدمی حلقہ کر کے بیٹھ جاؤ اور ہر ایک بسم اللہ کہہ کر اپنے اپنے آگے سے کھانا شروع کرو ۔ اسی طرح کھانا شروع ہوا اور سب کے سب کھا چکے تو آپ نے فرمایا پیالہ اٹھالو حضرت انس فرماتے ہیں میں نے پیالہ اٹھا کر دیکھا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ جس وقت رکھا اس وقت اس میں زیادہ کھانا تھا یا اب؟ چند لوگ آپ کے گھر میں ٹھہر گئے ان میں باتیں ہو رہی تھیں اور ام المومنین دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہوئی تھیں ان کا اتنی دیر تک نہ ہٹنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر شاق گذر رہا تھا لیکن شرم و لحاظ کی وجہ سے کچھ فرماتے نہ تھے اگر انہیں اس بات کا علم ہو جاتا تو وہ نکل جاتے لیکن وہ بےفکری سے بیٹھتے ہی رہے ۔ آپ گھر سے نکل کر اور ازواج مطہرات کے حجروں کے پاس چلے گئے پھر واپس آئے تو دیکھا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اب تو یہ بھی سمجھ گئے بڑے نادم ہوئے اور جلدی سے نکل لئے آپ اندر بڑھے اور پردہ لٹکا دیا ۔ میں بھی حجرے میں ہی تھا جب یہ آیت اتری اور آپ اس کی تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے سب سے پہلے اس آیت کو عورتوں نے سنا اور میں تو سب سے اول ان کا سننے والا ہوں ۔ پہلے حضرت زینب کے پاس آپ کا مانگا لے جانے کی روایت آیت ( فلما قضی زید ) الخ ، کی تفسیر میں گذر چکی ہے اس کے آخر میں بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ پھر لوگوں کو نصیحت کی گئی اور ہاشم کی اس حدیث میں اس آیت کا بیان بھی ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ رات کے وقت ازواج مطہرات قضائے حاجت کے لئے جنگل کو جایا کرتی تھیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ پسند نہ تھا آپ فرمایا کرتے تھے کہ انہیں اس طرح نہ جانے دیجئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر توجہ نہیں فرماتے تھے ایک مرتبہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نکلیں تو چونکہ فاروق اعظم کی منشا یہ تھی کہ کسی طرح ازواج مطہرات کا یہ نکلنا بند ہو اس لئے انہیں ان کے قدو قامت کی وجہ سے پہچان کر با آواز بلند کہا کہ ہم نے تمہیں اے سودہ پہچان لیا ۔ اس کے بعد پردے کی آیتیں اتریں ۔ اس روایت میں یونہی ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ واقعہ نزول حجاب کے بعد کا ہے ۔ چنانچہ مسند احمد میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حجاب کے حکم کے بعد حضرت سودہ نکلیں اس میں یہ بھی ہے کہ یہ اسی وقت واپس آ گئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے ۔ ایک ہڈی ہاتھ میں تھی آ کر واقعہ بیان کیا اسی وقت وحی نازل ہوئی جب ختم ہوئی اس وقت بھی ہڈی ہاتھ میں ہی تھی اسے چھوڑی ہی نہ تھی ۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورتوں کی بناء پر باہر نکلنے کی اجازت دیتا ہے ۔ آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس عادت سے روکتا ہے جو جاہلیت میں اور ابتداء اسلام میں ان میں تھی کہ بغیر اجازت دوسرے کے گھر میں چلے جانا ۔ پس اللہ تعالیٰ اس امت کا اکرام کرتے ہوئے اسے یہ ادب سکھاتا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں بھی یہ مضمون ہے کہ خبردار عورتوں کے پاس نہ جاؤ ۔ پھر اللہ نے انہیں مستثنیٰ کر لیا جنہیں اجازت دے دی جائے ۔ تو فرمایا مگر یہ کہ تمہیں اجازت دیجائے ۔ کھانے کے لئے ایسے وقت پر نہ جاؤ کہ تم اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو ۔ مجاہد اور قتادہ فرماتے ہیں کہ کھانے کے پکنے اور اس کے تیار ہونے کے وقت ہی نہ پہنچو ۔ جب سمجھا کہ کھانا تیار ہو گا ۔ جا گھسے یہ خصلت اللہ کو پسند نہیں ۔ یہ دلیل ہے طفیلی بننے کی حرمت پر ۔ امام خطیب بغدادی نے اس کی مذمت میں پوری ایک کتاب لکھی ہے ۔ پھر فرمایا جب بلائے جاؤ تم پھر جاؤ اور جب کھا چکو تو نکل جاؤ ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ تم میں سے کسی کو جب اس کا بھائی بلائے تو اسے دعوت قبول کرنی چاہئے خواہ نکاح کی ہو یا کوئی اور اور حدیث میں ہے اگر مجھے فقط ایک کھر کی دعوت دی جائے تو بھی میں اسے قبول کروں گا ۔ دستور دعوت بھی بیان فرمایا کہ جب کھا چکو تو اب میزبان کے ہاں چوکڑی مار کر نہ بیٹھ جاؤ ۔ بلکہ وہاں سے چلے جاؤ ۔ باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو ۔ جیسے ان تین شخصوں نے کیا تھا ۔ جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی لیکن شرمندگی اور لحاظ سے آپ کچھ نہ بولے ، اسی طرح مطلب یہ بھی ہے کہ تمہارا بے اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں چلے جانا آپ پر شاق گذرتا ہے لیکن آپ بوجہ شرم و حیا کے تم سے کہہ نہیں سکتے ۔ اللہ تعالیٰ تم سے صاف صاف فرما رہا ہے کہ اب سے ایسا نہ کرنا ۔ وہ حق حکم سے حیا نہیں کرتا ۔ تمہیں جس طرح بے اجازت آپ کی بیویوں کے پاس جانا منع ہے اسی طرح ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی حرام ہے ۔ اگر تمہیں ان سے کوئی ضروری چیز لینی دینی بھی ہو تو پس پردہ لین دین ہو ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مالیدہ کھا رہے تھے حضرت عمر کو بھی بلا لیا آپ بھی کھانے بیٹھ گئے ۔ حضرت صدیقہ پہلے ہی سے کھانے میں شریک تھیں حضرت عمر ازواج مطہرات کے پردے کی تمنا میں تھے کھاتے ہوئے انگلیوں سے انگلیاں لگ گئیں تو بےساختہ فرمانے لگے کاش کہ میری مان لی جاتی اور پردہ کرایا جاتا تو کسی کی نگاہ بھی نہ پڑتی اس وقت پردے کا حکم اترا ۔ پھر پردے کی تعریف فرما رہا ہے کہ مردوں عورتوں کے دلوں کی پاکیزگی کا یہ ذریعہ ہے ۔ کسی شخص نے آپ کی کسی بیوی سے آپ کے بعد نکاح کرنے کا ارادہ کیا ہو گا اس آیت میں یہ حرام قرار دیا گیا ۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں زندگی میں اور جنت میں بھی آپ کی بیویاں ہیں اور جملہ مسلمانوں کی وہ مائیں ہیں اس لئے مسلمانوں پر ان سے نکاح کرنا محض حرام ہے ۔ یہ حکم ان بیویوں کے لئے جو آپ کے گھر میں آپ کے انتقال کے وقت تھیں سب کے نزدیک اجماعاً ہے لیکن جس بیوی کو آپ نے اپنی زندگی میں طلاق دے دی اور اس سے میل ہو چکا ہو تو اس سے کوئی اور نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں دو مذہب میں اور جس سے دخول نہ کیا اور طلاق دے دی ہو اس سے دوسرے لوگ نکاح کر سکتے ہیں ۔ قیلہ بنت اشعث بن قیس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آ گئی تھی آپ کے انتقال کے بعد اس نے عکرمہ بن ابو جہل سے نکاح کر لیا ۔ حضرت ابو بکر پر یہ گراں گذرا لیکن حضرت عمر نے سمجھایا کہ اے خلیفہ رسول یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی نہ تھی نہ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا نہ اسے پردہ کا حکم دیا اور اس کی قوم کے ارتداد کے ساتھ ہیں اس کے ارتداد کی وجہ سے اللہ نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بری کر دیا یہ سن کر حضرت صدیق کا اطمینان ہو گیا ۔ پس ان دونوں باتوں کی برائی بیان فرماتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دینا ان کی بیویوں سے ان کے بعد نکاح کر لینا یہ دونوں گناہ اللہ کے نزدیک بہت بڑے ہیں ، تمہاری پوشیدگیاں اور علانیہ باتیں سب اللہ پر ظاہر ہیں ، اس پر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پوشیدہ نہیں ۔ آنکھوں کی خیانت کو ، سینے میں چھپی ہوئی باتوں اور دل کے ارادوں کو وہ جانتا ہے ۔