Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ يُدۡنِيۡنَ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ جَلَابِيۡبِهِنَّ ؕ ذٰ لِكَ اَدۡنٰٓى اَنۡ يُّعۡرَفۡنَ فَلَا يُؤۡذَيۡنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿59﴾
اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے ۔
يايها النبي قل لازواجك و بنتك و نساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن ذلك ادنى ان يعرفن فلا يؤذين و كان الله غفورا رحيما
O Prophet, tell your wives and your daughters and the women of the believers to bring down over themselves [part] of their outer garments. That is more suitable that they will be known and not be abused. And ever is Allah Forgiving and Merciful.
Aey nabi! Apni biwiyon say aur apni shabzadiyon say aur musalmano ki aurton say keh do kay woh apnay upper apni chadaren latka liya keren iss say boht jald unn ki shanakht hojaya keray gi phir na sataee jayen gi aur Allah Taalaa bakhshney wala meharban hai.
اے نبی ! تم اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے ( منہ کے ) اوپر جھکا لیا کریں ۔ ( ٤٧ ) اس طریقے میں اس ابات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی ، تو ان کو ستایا نہیں جائے گا ۔ ( ٤٨ ) اور اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔
اے نبی! اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں ( ف۱۵۰ ) یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو ( ف۱۵۱ ) تو ستائی نہ جائیں ( ف۱۵۲ ) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں 110 یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں 111 اللہ تعالی غفور و رحیم ہے 112
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ ( باہر نکلتے وقت ) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں ، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں ( کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں ) پھر انہیں ( آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے ) ایذاء نہ دی جائے ، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :110 اصل الفاظ ہیں یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ۔ جلباب عربی زبان میں بڑی چادر کو کہتے ہیں ۔ اور اِدْنَاء کے اصل معنی قریب کرنے اور لپیٹ لینے کے ہیں ، مگر جب اس کے ساتھ عَلیٰ کا صلہ آئے تو اس میں اِرْخَاء ، یعنی اوپر سے لٹکا لینے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے ۔ موجودہ زمانے کے بعض مترجمین و مفسرین مغربی مذاق سے مغلوب ہو کر اس لفظ کا ترجمہ صرف لپیٹ لینا کرتے ہیں تاکہ کسی طرح چہرہ چھپانے کے حکم سے بچ نکلا جائے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا مقصود اگر وہی ہوتا جو یہ حضرات بیان کرنا چاہتے ہیں تو وہ یُدْنِیْنَ اِلَیْھِنَّ فرماتا ۔ جو شخص بھی عربی زبان جانتا ہو کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ کے معنی محض لپیٹ لینے کے ہو سکتے ہیں ۔ مزید براں مِنْ جَلَا بِیْبِھِنّ کے الفاظ یہ معنی لینے میں اور زیادہ مانع ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہاں مِن تبعیض کے لیے ہے ، یعنی چادر کا ایک حصہ ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ لپیٹی جائے گی تو پوری چادر لپیٹی جائے گی نہ کہ اس کا محض ایک حصہّ ۔ اس لیے آیت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر ان کا ایک حصہ ، یا ان کا پلو اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں ، جسے عرف عام میں گھونگھٹ ڈالنا کہتے ہیں ۔ یہی معنی عہد رسالت سے قریب ترین زمانے کے اکابر مفسرین بیان کرتے ہیں ۔ ابن جریر اور ابن المنذر کی روایت ہے کہ محمد بن سَیرین رحمہ اللہ نے حضرت عُبَیدۃ السّلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا ۔ ( یہ حضرت عُبیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان ہو چکے تھے مگر حاضر خدمت نہ ہو سکے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مدینہ آئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ انہیں فقہ اور قضا میں قاضی شُریح کا ہم پلہ مانا جاتا تھا ) ۔ انہوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھا کہ پورا سر اور پیشانی اور پورا منہ ڈھانک کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی ۔ ابن عباس بھی قریب قریب یہی تفسیر کرتے ہیں ۔ ان کے جو اقوال ابن جریر ۔ ابن ابی حاتم اور ابن مَرْدُوْیہَ نے نقل کیے ہیں ان میں وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے نکلیں تو اپنی چادروں کے پلو اوپر سے ڈال کر اپنا منہ چھپا لیں اور صرف آنکھیں کھلی رکھیں ۔ یہی تفسیر قَتادہ اور سُدِّی نے بھی اس آیت کی بیان کی ہے ۔ عہد صحابہ و تابعین کے بعد جتنے بڑے بڑے مفسرین تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انہوں نے بالا تفاق اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے ۔ امام ابنِ جریر طَبَرِی کہتے ہیں : یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ، یعنی شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوئے ہوں ، بلکہ انہیں چاہیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے ۔ ( جامع البیان جلد ۲۲ ۔ ص ۳۳ ) علامہ ابو بکر جصاص کہتے ہیں : یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جوان عورت کو اجنبیوں سے اپنا چہرہ چھپانے کا حکم ہے اور اسے گھر سے نکلتے وقت ستر اور عفت مآبی کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ مشتبہ سیرت و کردار کے لوگ اسے دیکھ کر کسی طمع میں مبتلا نہ ہوں ۔ ( احکام القرآن ، جلد ۳ ، صفحہ ٤۵۸ ) علامہ زَمَخْشَری کہتے ہیں : یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ، یعنی وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں اور اس سے اپنے چہرے اور اپنے اطراف کو اچھی طرح ڈھانک لیں ۔ ( الکشاف ۔ جلد ۲ ، ص ۲۲۱ ) علامہ نظام الدین نیشاپوری کہتے ہیں : یدنین علیھن من جلا بیبھنّ ، یعنی اپنے اوپر چادر کا ایک حصہ لٹکا لیں ۔ اس طرح عورتوں کو سر اور چہرہ ڈھانکنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ ( غرائب القرآن جلد ۲۲ ، ص۳۲ ) امام رازی کہتے ہیں : اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ بدکار عورتیں نہیں ہیں ۔ کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی ، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے ، اس سے کوئی شخص یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولنے پر راضی ہو گی ۔ اس طرح ہر شخص جان لے گا کہ یہ باپردہ عورتیں ہیں ، اس سے زنا کی امید نہیں کی جا سکتی ۔ ( تفسیر کبیر ، جلد ٦ ، ص ۵۹۱ ) ضمناً ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی بیٹیاں ثابت ہوتی ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے اے نبی ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے کہو ۔ یہ الفاظ ان لوگوں کے قول کی قطعی تردید کر دیتے ہیں جو خدا سے بے خوف ہو کر بے تکلف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں اور باقی صاحبزادیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی صُلبی بیٹیاں نہ تھیں بلکہ گیَلڑ تھیں ۔ یہ لوگ تعصب میں اندھے ہو کر یہ بھی نہیں سوچتے کہ اولاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے انکار کر کے وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اس کی کیسی سخت جواب دہی انہیں آخرت میں کرنی ہو گی ۔ تمام معتبر روایات اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت خَدیِجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک بیٹی حضرت فاطمہ ہی نہ تھیں بلکہ تین اور بیٹیاں بھی تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق حضرت خدیجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں : ابراہیم علیہ السلام کے سوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد انہی کے بطن سے پیدا ہوئی اور ان کے نام یہ ہیں ۔ قاسم ، اور طاہر و طیب ، اور زینب ، اور رُقیَّہ ، اور امّ کلثوم اور فاطمہ ( سیرت ابن ہشام ، جلد اول ۔ ص ۳۰۲ ) مشہور ماہر علم انساب ہشام بن محمد بن السائب کلبی کا بیان ہے کہ : مکہ میں نبوت سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے ، پھر زینب ، پھر رقیہ ، پھر اُمِ کلثوم ( طبقات ابن سعد ، جلد اول ، ص ۱۳۳ ) ۔ ابنِ حزْم نے جوامع السیرۃ میں لکھا ہے کہ حضرت خدیجہ کے بطن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار لڑکیاں تھیں ، سب سے بڑی حضرت زینب ان سے چھوٹی رقیّہ ، ان سے چھوٹی فاطمہ ، اور ان سے چھوٹی ام کلثوم ( ص۳۸ ۔ ۳۹ ) ۔ طَبَری ، ابن سعد ، ابو جعفر محمد بن حبیب صاحب کتاب المجرَّ اور ابن عبد البَر صاحب کتاب الاستیعاب ، مستند حوالوں سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حضرت خدیجہ کے دو شوہر گزر چکے تھے ۔ ایک ابو ھالہ تمیمی جس سے ان کے ہاں ہند بن ابو ہالہ پیدا ہوئے ۔ دوسرے عتیق بن عائذ مخزومی جس سے ان کے ہاں ایک لڑکی ہند نامی پیدا ہوئی ۔ اس کے بعد ان کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا اور تمام علمائے انساب متفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صلب سے ان کے ہاں وہ چاروں صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام اوپر مذکور ہوئے ہیں ( ملاحظہ ہو طبری ، جلد ۲ ، ص٤۱۱ ۔ طبقات ابنِ سعد ، جلد ۸ ، ص ٤۱ تا ۱٦ ۔ کتاب المجرَّ ص ۷۸ ، ۷۹ ، ٤۵۲ ۔ الاستیعاب جلد ۲ ، ص۷۱۸ ) ان تمام بیانات کو قرآن مجید کی یہ تصریح قطعی الثبوت بند کر دیتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی صاحبزادی نہ تھیں بلکہ کئی صاحبزادیاں تھیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :111 پہچان لی جائیں سے مراد یہ ہے کہ ان کو اس سادہ اور حیا دار لباس میں دیکھ کر ہر دیکھنے والا جان لے کہ وہ شریف اور با عصمت عورتیں ہیں ، آوارہ اور کھلاڑی نہیں ہیں کہ کوئی بد کردار انسان ان سے اپنے دل کی تمنا پوری کرنے کی امید کر سکے ۔ نہ ستائی جائیں سے مراد یہ ہے کہ ان کو نہ چھیڑا جائے ، ان سے تعرض نہ کیا جائے ۔ اس مقام پر ذرا ٹھہر کر یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ قرآن کا یہ حکم ، اور وہ مقصد حکم جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کر دیا ہے ، اسلامی قانون معاشرت کی کیا روح ظاہر کر رہا ہے ۔ اس سے پہلے سورۂ نور ، آیت ۳۱ میں یہ ہدایت گزر چکی ہے کہ عورتیں اپنی آرائش و زیبائش کو فلاں فلاں قسم کے مردوں اور عورتوں کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں ۔ اور زمین پر پاؤں مارتے ہوئے بھی نہ چلیں کہ لوگوں کو اس زینت کا علم ہو جو انہوں نے چھپا رکھی ہے ۔ اس حکم کے ساتھ اگر سورۂ احزاب کی اس آیت کو ملا کر پڑھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں چادر اوڑھنے کا جو حکم ارشاد ہوا ہے اس کا منشا اجنبیوں سے زینت چھپانا ہی ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ منشا اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جبکہ چادر بجائے خود سادہ ہو ، ورنہ ایک مزین اور جاذب نظر کپڑا لپیٹ لینے سے تو یہ منشا الٹا اور فوت ہو جائیگا ۔ اس پر مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ صرف چادر لپیٹ کر زینت چھپانے ہی کا حکم نہیں دے رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ عورتیں چادر کا ایک حصہ اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں ۔ کوئی معقول آدمی اس ارشاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتا کہ اس سے مقصود گھونگھٹ ڈالنا ہے تاکہ جسم و لباس کی زینت چھپنے کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی چھپ جائے ۔ پھر اس حکم کی علت اللہ تعالیٰ خود یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ وہ مناسب ترین طریقہ ہے جس سے یہ مسلمان خواتین پہچان لی جائیں اور اذیت سے محفوظ رہیں گی ۔ اس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ یہ ہدایت ان عورتوں کو دی جا رہی ہے جو مردوں کی نظر بازی اور ان کے شہوانی التفات سے لذت اندوز ہونے کے بجائے اس کو اپنے لیے تکلیف دہ اور اذیت ناک محسوس کرتی ہیں ، جو معاشرے میں اپنے آپ کو آبرو باختہ شمع انجمن قسم کی عورتوں میں شمار نہیں کرانا چاہتیں ، بلکہ عفت مآب چراغ خانہ ہونے کی حیثیت سے معروف ہونا چاہتے ہیں ۔ ایسی شریف اور نیک خواتین سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم فی الواقع اس حیثیت سے معروف ہونا چاہ رہی ہو اور مردوں کی ہوسناک توجہات حقیقت میں تمہارے لیے موجب لذت نہیں بلکہ موجب اذیت ہیں تو پھر اس کے لیے مناسب طریقہ یہ نہیں ہے کہ تم خوب بناؤ سنگھار کر کے پہلی رات کی دلہن بن کر گھروں سے نکلو اور دیکھنے والوں کی حریص نگاہوں کے سامنے اپنا حسن اچھی طرح نکھار نکھار کر پیش کرو ، بلکہ اس غرض کے لیے تو مناسب ترین طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ تم ایک سادہ چادر میں اپنے ساری آرائش و زیبائش کو چھپا کر نکلو ، اپنے چہرے پر گھونگھٹ ڈالو اور اس طرح چلو کہ زیور کی جھنکار بھی لوگوں کو تمہاری طرف متوجہ نہ کرے ۔ جو عورت باہر نکلنے سے پہلے بن ٹھن کر تیار ہوتی ہے اور اس وقت تک گھر سے قدم نہیں نکالتی جب تک سات سنگھار نہ کر لے ، اس کی غرض اس کے سوا آخر اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ دنیا بھر کے مردوں کے لیے اپنے آپ کو جنت نگاہ بنانا چاہتی ہے اور انہیں خود دعوت التفات دیتی ہے ۔ اس کے بعد اگر وہ یہ کہتی ہے کہ دیکھنے والوں کی بھوکی نگاہیں اسے تکلیف دیتی ہیں ، اس کے بعد اگر اس کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ معاشرے کی بیگم اور مقبول عام خاتون ہونے کی حیثیت سے معروف نہیں ہونا چاہتی بلکہ عفت مآب گھر گرہستن بن کر رہنا چاہتی ہے تو یہ ایک فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ انسان کا قول اس کی نیت متعین نہیں کرتا بلکہ اس کی اصل نیت وہ ہوتی ہے جو اس کے عمل کی شکل اختیار کرتی ہے ۔ لہٰذا جو عورت جاذب نظر بن کر غیر مردوں کے سامنے جاتی ہے اس کا یہ عمل خود ظاہر کر دیتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا محرکات کام کر رہے ہیں ۔ اسی لیے فتنے کے طالب لوگ اس سے وہی توقعات وابستہ کرتے ہیں جو ایسی عورت سے وابستہ کی جا سکتی ہیں ۔ قرآن عورتوں سے کہتا ہے کہ تم بیک وقت چراغ خانہ اور شمع انجمن نہیں بن سکتی ہو ۔ چراغ خانہ بننا ہے تو ان طور طریقوں کو چھوڑ دو جو شمع انجمن بننے کے لیے موزوں ہیں ۔ اور وہ طرز زندگی اختیار کرو جو چراغ خانہ بننے میں مددگار ہو سکتا ہے ۔ کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا اس کے خلاف ، اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطۂ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے ، بہرحال اگر وہ تعبیر کی بددیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا ۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف یہ مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے ، جو اوپر بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کر کے کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :112 یعنی پہلے جاہلیت کی حالت میں جو غلطیاں کی جاتی رہی ہیں اللہ اپنی مہربانی سے ان کو معاف کر دے گا ، بشرطیکہ اب صاف صاف ہدایت مل جانے کے بعد تم اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لو اور جان بوجھ کر اس کی خلاف ورزی نہ کرو ۔
تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل کون؟ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تسلیما کو فرماتا ہے کہ آپ مومن عورتوں سے فرما دیں بالخصوص اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے کیونکہ وہ تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل ہیں کہ وہ اپنی چادریں قدریں لٹکالیا کریں تاکہ جاہلیت کی عورتوں سے ممتاز ہو جائیں اسی طرح لونڈیوں سے بھی آزاد عورتوں کی پہچان ہو جائے ۔ جلباب اس چادر کو کہتے ہیں جو عورتیں اپنی دوپٹیاکے اوپر ڈالتی ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج کیلئے باہر نکلیں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہیں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لیا کریں ، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں ۔ امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کے سوال پر حضرت عبیدہ سلمانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتا دیا کہ یہ مطلب اس آیت کا ہے ۔ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اپنی چادر سے اپنا گلا تک ڈھانپ لے ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس آیت کے اترنے کے بعد انصار کی عورتیں جب نکلتی تھیں تو اس طرح لکی چھپی چلتی تھیں گویا ان کے سروں پر پرند ہیں سیاہ چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کرتی تھیں ۔ حضرت زہری سے سوال ہوا کہ کیا لونڈیاں بھی چادر اوڑھیں؟ خواہ خاوندوں والیاں ہوں یا بےخاوند کی ہوں؟ فرمایا دوپٹیا تو ضرور اوڑھیں اگر وہ خاوندوں والیاں ہوں اور چادر نہ اوڑھیں تاکہ ان میں اور آزاد عورتوں میں فرق رہے حضرت سفیان ثوری سے منقول ہے کہ ذمی کافروں کی عورتوں کی زینت کا دیکھنا صرف خوف زنا کی وجہ سے ممنوع ہے نہ کہ ان کی حرمت و عزت کی وجہ سے کیونکہ آیت میں مومنوں کی عورتوں کا ذکر ہے ۔ چادر کا لٹکانا چونکہ علامت ہے آزاد پاک دامن عورتوں کی اس لئے یہ چادر کے لٹکانے سے پہچان لی جائیں گی کہ یہ نہ واہی عورتیں ہیں نہ لونڈیاں ہیں ۔ سدی کا قول ہے کہ فاسق لوگ اندھیری راتوں میں راستے سے گزرنے والی عورتوں پر آوازے کستے تھے اس لئے یہ نشان ہوگیا کہ گھر گر ہست عورتوں اور لونڈیوں بانڈیوں وغیرہ میں تمیز ہو جائے اور ان پاک دامن عورتوں پر کوئی لب نہ ہلاسکے ۔ پھر فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں جو بےپردگی کی رسم تھی جب تم اللہ کے اس حکم کے عامل بن جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمام اگلی خطاؤں سے درگزر فرمالے گا اور تم پر مہر و کرم کرے گا ، پھر فرماتا ہے کہ اگر منافق لوگ اور بدکار اور جھوٹی افواہیں دشمنوں کی چڑھائی وغیرہ کی اڑانے والے اب بھی باز نہ آئے اور حق کے طرفدار نہ ہوئے تو ہم اے نبی تجھے ان پر غالب اور مسلط کردیں گے ۔ پھر تو وہ مدینے میں ٹھہر ہی نہیں سکیں گے ۔ بہت جلد تباہ کردیے جائیں گے اور جو کچھ دن ان کے مدینے کی اقامت سے گزریں گے وہ بھی لعنت و پھٹکار میں ذلت اور مار میں گزریں گے ۔ ہر طرف سے دھتکارے جائیں گے ، راندہ درگاہ ہو جائیں گے ، جہاں جائیں گے گرفتار کئے جائیں گے اور بری طرح قتل کئے جائیں گے ۔ ایسے کفار و منافقین پر جبکہ وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آئیں مسلمانوں کو غلبہ دینا ہماری قدیمی سنت ہے جس میں نہ کبھی تغیر و تبدل ہوا نہ اب ہو ۔