Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰى فَبَـرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَكَانَ عِنۡدَ اللّٰهِ وَجِيۡهًا ؕ‏ ﴿69﴾
اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی پس جو بات انہوں نے کہی تھی اللہ نے انہیں اس سے بری فرما دیا ، اور وہ اللہ کے نزدیک با عزت تھے ۔
يايها الذين امنوا لا تكونوا كالذين اذوا موسى فبراه الله مما قالوا و كان عند الله وجيها
O you who have believed, be not like those who abused Moses; then Allah cleared him of what they said. And he, in the sight of Allah , was distinguished.
Aey eman walo! Unn logon jaisay na bann jao jinhon ney musa ko takleef di pus jo baat unhon ney kahi thi Allah ney unhen uss say buri farma diya aur woh Allah ka nazdeek ba-izzat thay.
اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ بن جانا جنہیں موسیٰ کو ستایا تھا ، پھر اللہ نے ان کو ان باتوں سے بری کردیا جو ان لوگوں نے بنائی تھیں ( ٥١ ) اور وہ اللہ کے نزدیک بڑے رتبے والے تھے ۔
اے ایمان والو! ان جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا ( ف۱٦٦ ) تو اللہ نے اسے بَری فرمادیا اس بات سے جو انہوں نے کہی ( ف۱٦۷ ) اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے ( ف۱٦۸ )
اے لوگو جو ایمان لائے ہو 118 ، ان لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنہوں نے موسی ( علیہ السلام ) کو اذیتیں دی تھیں ، پھر اللہ نے ان کی بنائی ہوئی باتوں سے اس کی برأت فرمائی اور وہ اللہ کے نزدیک با عزت تھا 119
اے ایمان والو! تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسٰی ( علیہ السلام ) کو ( گستاخانہ کلمات کے ذریعے ) اذیت پہنچائی ، پس اللہ نے انہیں اُن باتوں سے بے عیب ثابت کردیا جو وہ کہتے تھے ، اور وہ ( موسٰی علیہ السلام ) اللہ کے ہاں بڑی قدر و منزلت والے تھے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :118 یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ قرآن مجید میں اے لوگو جو ایمان لائے ہو کے الفاظ سے کہیں تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا گیا ہے ، اور کہیں مسلمانوں کی جماعت بحیثیت مجموعی مخاطب ہے جس میں مومن اور منافق اور ضعیف الایمان سب شامل ہیں ، اور کہیں روئے سخن خالص منافقین ہی کی طرف ہے ۔ منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو الذین اٰمنوا کہہ کر جب مخاطب کیا جاتا ہے تو اس سے مقصود ان کو شرم دلانا ہوتا ہے کہ تم لوگ دعویٰ تو ایمان لانے کا کرتے ہو اور حرکتیں تمہاری یہ کچھ ہیں ۔ سیاق و سباق پر غور کرنے سے ہر جگہ بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کس جگہ الذین اٰمنوا سے مراد کون ہیں ۔ یہاں سلسلۂ کلام صاف بتا رہا ہے کہ مخاطب عام مسلمان ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :119 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو ! تم یہودیوں کی سی حرکتیں نہ کرو ۔ تمہاری روش اپنے نبی کے ساتھ وہ نہ ہونی چاہیے جو بنی اسرائیل کی روش موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی ۔ بنی اسرائیل خود مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ان کے سب سے بڑے محسن تھے ۔ جو کچھ بھی یہ قوم بنی ، انہی کی بدولت بنی ، ورنہ مصر میں اس کا انجام ہندوستان کے شودروں سے بھی بدتر ہوتا ۔ لیکن اپنے اس محسن اعظم کے ساتھ اس قوم کاجو سلوک تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے با ئیبل کے حسب ذیل مقامات پر صرف ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہے : کتاب خروج ۔ ۵:۲۰ ۔ ۲۱ ۔ ۱٤ : ۱۱ ۔ ۱۲ ۔ ۳ ۔ ۱۷:۳ ۔ ٤ کتاب گنتی ۔ ۱۱:۱ ۔ ۱۵ ۔ ۱٤: ۱ ۔ ۱۰ ۔ ۱٦ مکمّل ۔ ۲۰:۱ ۔ ۵ قرآن مجید بنی اسرائیل کی اسی محسن کشی کی طرف اشارہ کر کے مسلمانوں کو متنبہ کر رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ طرز عمل اختیار کرنے سے بچو ، ورنہ پھر اسی انجام کے لیے تیار ہو جاؤ جو یہودی دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں ۔ یہی بات متعدد مواقع پر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمائی ہے ۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں میں کچھ مال تقسیم کر رہے تھے ۔ اس مجلس سے جب لوگ باہر نکلے تو ایک شخص نے کہا احمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس تقویم میں خدا اور آخرت کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھا ۔ یہ بات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سن لی اور جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آج آپ پر یہ باتیں بنائی گئی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا رحمۃ اللہ علیٰ موسیٰ فانہ اُوذی باکثر من ھٰذا فَصَبَر ۔ اللہ کی رحمت ہو موسیٰ پر ۔ انہیں اس سے زیادہ اذیتیں دی گئیں اور انہوں نے صبر کیا ( مُسند ، احمد ۔ ترمذی ۔ ابو داؤد )
موسیٰ علیہ السلام کا مزاج ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت ہی شرمیلے اور بڑے لحاظ دار تھے ۔ یہی مطلب ہے قرآن کی اس آیت کا ۔ کتاب التفسیر میں تو امام صاحب اس حدیث کو اتنا ہی مختصر لائے ہیں ، لیکن احادیث انبیاء کے بیان میں اسے مطول لائے ہیں ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ وہ بوجہ سخت حیا و شرم کے اپنا بدن کسی کے سامنے ننگا نہیں کرتے تھے ۔ بنو اسرائیل آپ کو ایذاء دینے کے درپے ہوگئے اور یہ افواہ اڑا دی کہ چونکہ ان کے جسم پر برص کے داغ ہیں یا ان کے بیضے بڑھ گئے ہیں یا کوئی اور آفت ہے اس وجہ سے یہ اس قدر پردے داری کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ یہ بدگمانی آپ سے دور کردے ۔ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام تنہائی میں ننگے نہا رہے تھے ، ایک پتھر پر آپ نے کپڑے رکھ دیئے تھے ، جب غسل سے فارغ ہو کر آئے ، کپڑے لینے چاہے تو پتھر آگے کو سرک گیا ۔ آپ اپنی لکڑی لئے اس کے پیچھے گئے وہ دوڑنے لگا ۔ آپ بھی اے پتھر میرے کپڑے میرے کپڑے کرتے ہوئے اس کے پیچھے دوڑے ۔ بنی اسرائیل کی جماعت ایک جگہ بیٹھی ہوئی تھی ۔ جب آپ وہاں تک پہنچ گئے تو اللہ کے حکم سے پتھر ٹھہر گیا ۔ آپ نے اپنے کپڑے پہن لئے ۔ بنو اسرائیل نے آپ کے تمام جسم کو دیکھ لیا اور جو فضول باتیں ان کے کانوں میں پڑی تھیں ان سے اللہ نے اپنے نبی کو بری کردیا ۔ غصے میں حضرت موسیٰ نے تین یا چار پانچ لکڑیاں پتھر پر ماری تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں واللہ لکڑیوں کے نشان اس پتھر پر پڑ گئے ۔ اسی برأت وغیرہ کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ یہ حدیث مسلم میں نہیں یہ روایت بہت سی سندوں سے بہت سی کتابوں میں ہے ۔ بعض روایتیں موقوف بھی ہیں ۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام پہاڑ پر گئے جہاں حضرت ہارون کا انتقال ہوگیا لوگوں نے حضرت موسیٰ کی طرف بدگمانی کی اور آپ کو ستانا شروع کیا ۔ پروردگار عالم نے فرشتوں کو حکم دیا اور وہ اسے اٹھا لائے اور بنو اسرائیل کی مجلس کے پاس سے گزرے اللہ نے اسے زبان دی اور قدرتی موت کا اظہار کیا ۔ انکی قبر کا صحیح نشان نامعلوم ہے صرف اس ٹیلے کا لوگوں کو علم ہے اور وہی ان کی قبر کی جگہ جانتا ہے لیکن بےزبان ہے ۔ تو ہوسکتا ہے کہ ایذاء یہی ہو اور ہوسکتا ہے کہ وہ ایذاء ہو جس کا بیان پہلے گزرا ۔ لیکن میں کہتا ہوں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اور یہ دونوں ہوں بلکہ ان کے سوا اور بھی ایذائیں ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ لوگوں میں کچھ تقسیم کیا اس پر ایک شخص نے کہا اس تقسیم سے اللہ کی رضامندی کا ارادہ نہیں کیا گیا ۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں میں نے جب یہ سنا تو میں نے کہا اے اللہ کے دشمن میں تیری اس بات کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور پہنچاؤں گا ۔ چنانچہ میں نے جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر کردی آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا پھر فرمایا اللہ کی رحمت ہو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وہ اس سے بہت زیادہ ایذاء دے گئے لیکن صبر کیا ۔ ( بخاری ، مسلم ) اور روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عام ارشاد تھا کہ کوئی بھی میرے پاس کسی کی طرف سے کوئی بات نہ پہنچائے ۔ میں چاہتا ہوں کہ میں تم میں آکر بیٹھوں تو میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی بات چبھتی ہوئی نہ ہو ۔ ایک مرتبہ کچھ مال آپ کے پاس آیا آپ نے اسے لوگوں میں تقسیم کیا ۔ دو شخض اس کے بعد آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ واللہ اس تقسیم سے نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی خوشی کا ارادہ کیا نہ آخرت کے گھر کا ۔ میں ٹھہر گیا اور دونوں کی باتیں سنیں ۔ پھر خدمت نبوی میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپ نے تو یہ فرمایا ہے کہ کسی کی کوئی بات میرے سامنے نہ لایا کرو ۔ ابھی کا واقعہ ہے کہ میں جا رہا تھا جو فلاں اور فلاں سے میں نے یہ باتیں سنیں اسے سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ غصے کے مارے سرخ ہوگیا اور آپ پر یہ بات بہت ہی گراں گزری ۔ پھر میری طرف دیکھ کر فرمایا عبد اللہ جانے دو دیکھو موسیٰ اس سے بھی زیادہ ستائے گئے لیکن انہوں نے صبر کیا ، قرآن فرماتا ہے موسیٰ علیہ السلام اللہ کے نزدیک بڑے مرتبے والے تھے ۔ مستجاب الدعوت تھے ۔ جو دعا کرتے تھے قبول ہوتی تھی ۔ ہاں اللہ کا دیدار نہ ہوا اس لئے کہ یہ طاقت انسانی سے خارج تھا ۔ سب سے بڑھ کر ان کی وجاہت کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کیلئے نبوت مانگی اللہ نے وہ بھی عطا فرمائی ۔ فرماتا ہے ( وَوَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَآ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِيًّا 53؁ ) 19-مريم:53 ) ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنادیا ۔