Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالۡجِبَالِ فَاَبَيۡنَ اَنۡ يَّحۡمِلۡنَهَا وَاَشۡفَقۡنَ مِنۡهَا وَ حَمَلَهَا الۡاِنۡسَانُؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوۡمًا جَهُوۡلًا ۙ‏ ﴿72﴾
ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پراور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے ( مگر ) انسان نے اسےاٹھا لیا ، وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے ۔
انا عرضنا الامانة على السموت و الارض و الجبال فابين ان يحملنها و اشفقن منها و حملها الانسان انه كان ظلوما جهولا
Indeed, we offered the Trust to the heavens and the earth and the mountains, and they declined to bear it and feared it; but man [undertook to] bear it. Indeed, he was unjust and ignorant.
Hum ney apni amanat ko aasmano per zamin per aur paharon per paish kiya pus sab ney iss ko uthaney say inkar ker diya aur iss say darr gaye ( magar ) insan ney issay utha liya woh bara hi zalim jahil hai.
ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی ، تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا ، اور اس سے ڈر گئے ، اور انسان نے اس کا بوجھ اٹھا لیا ۔ ( ٥٢ ) حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ظالم ، بڑا نادان ہے ۔ ( ٥٣ )
بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی ( ف۱۷۱ ) آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے ( ف۱۷۲ ) اور آدمی نے اٹھالی ، بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے ، (
ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے ، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا ، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے 120
بیشک ہم نے ( اِطاعت کی ) امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اس ( بوجھ ) کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا ، بیشک وہ ( اپنی جان پر ) بڑی زیادتی کرنے والا ( ادائیگئ امانت میں کوتاہی کے انجام سے ) بڑا بے خبر و نادان ہے
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :120 کلام کو ختم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کی حقیقی حیثیت کیا ہے اور اس حیثیت میں ہوتے ہوئے اگر وہ دنیا کی زندگی کو محض ایک کھیل سمجھ کر بے فکری کے ساتھ غلط رویہ اختیار کرتا ہے تو کس طرح اپنے ہاتھوں خود اپنا مستقبل خراب کرتا ہے ۔ اس جگہ امانت سے مر اد وہی خلافت ہے جو قرآن مجید کی رو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاقت و معصیت کی جو آزادی بخشی ہے ، اور اس آزادی کو استعمال کرنے کے لیے اسے اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرف کے جو اختیارات عطا کیے ہیں ان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے اختیاری اعمال کا ذمہ دار قرار پائے اور اپنے صحیح طرز عمل پر اجر کا اور غلط طرز عمل پر سزا کا مستحق بنے ۔ یہ اختیارات چونکہ انسان نے خود حاصل نہیں کیے ہیں بلکہ اللہ نے اسے دیے ہیں ، اور ان کے صحیح و غلط استعمال پر وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے ، اس لیے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کو خلافت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور یہاں انہی کے لیے امانت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ امانت کتنی اہم اور گراں بار ہے ، اس کا تصور دلانے کے لیے اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ آسمان و زمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑ اپنی زبردست جسامت و متانت کے باوجود اس کے اٹھانے کی طاقت اور ہمت نہ رکھتے تھے ، مگر انسان ضعیف البنیان نے اپنی ذرا سی جان پر یہ بھاری بوجھ اٹھا لیا ہے ۔ زمین و آسمان کے سامنے اس بار امانت کا پیش کیا جانا ، اور ان کا اسے اٹھانے سے انکار کرنا اور ڈر جانا ہو سکتا ہے کہ لغوی معنی میں ہو ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بات استعارے کی زبان میں ارشاد ہو ئی ہو ۔ اللہ تعالی کا اپنی مخلوقات کے ساتھ جو تعلق ہے اسے ہم نہ جان سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں زمین اور سورج اور چاند اور پہاڑ جس طرح ہمارے لیے گونگے ، بہرے اور بے جان ہیں ، ضروری نہیں ہے کہ اللہ کے لیے بھی وہ ایسے ہی ہوں ۔ اللہ اپنی ہر مخلوق سے بات کر سکتا ہے اور وہ اس کو جواب دے سکتی ہے ۔ اس کی کیفیت کا سمجھنا ہمارے فہم و ادراک سے بالا تر ہے ۔ اس لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ فی الواقع اللہ نے ان کے سامنے یہ بار گراں پیش کیا ہو اور وہ اسے دیکھ کر کانپ اٹھے ہوں اور انہوں نے اپنے مالک و خالق سے یہ عرض کیا ہو کہ ہم تو سرکار کے بے اختیار خادم ہی بن کر رہنے میں اپنی خیر پاتے ہیں ، ہماری ہمت نہیں ہے کہ نافرمانی کی آزادی لے کر اس کا حق ادا کر سکیں اور حق ادا نہ کرنے کی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا بر داشت کر سکیں ۔ اسی طرح یہ بھی بالکل ممکن ہے ہماری موجودہ زندگی سے پہلے پوری نوع انسانی کو اللہ تعالی نے کسی اور نوعیت کا وجود بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا ہو اور اس نے یہ اختیارات سنبھالنے پر خود آمادگی ظاہر کی ہو ۔ اس بات کو ناممکن قرار دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔ اس کو دائرۂ امکان سے خارج قرار دینے کا فیصلہ تو وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنے ذہن و فکر کی استعداد کا غلط اندازہ لگا بیٹھا ہو ۔ البتہ یہ امر بھی اتنا ہی ممکن ہے کہ اللہ تعالی نے یہ بات محض تمثیلی انداز میں فرمائی ہو اور صورت معاملہ کی غیر معمولی اہمیت کا تصور دلانے کے لیے اسی طرح کا نقشہ پیش کیا گیا ہو کہ گویا ایک طرف زمین و آسمان اور ہمالہ جیسے پہاڑ کھڑے ہیں اور دوسری طرف ۵ ۔ ٦ فیٹ کا آدمی کھڑا ہوا ہے ۔ اللہ تعالی پوچھتا ہے کہ : میں اپنی ساری مخلوقات میں سے کسی ایک کو یہ طاقت بخشنا چاہتا ہوں کہ وہ میری خدائی میں رہتے ہوئے خود اپنی رضا و رغبت سے میری با لا تری کا اقرار اور میرے احکام اطاعت کرنا چاہے تو کرے ، ورنہ وہ میرا انکار بھی کر سکے گا اور میرے خلاف بغاوت کا جھنڈا بھی لے کر اٹھ سکے گا ۔ یہ آزادی دے کر میں اس سے اس طرح چھپ جاؤں گا کہ گویا میں کہیں موجود نہیں ہوں ۔ اور اس آزادی کو عمل میں لانے کے لیے میں اس کو وسیع اختیارات دوں گا ، بڑی قابلیتیں عطا کروں گا ، اور اپنی بے شمار مخلوقات پر اس کو بلا دستی بخش دوں گا ، تاکہ وہ کائنات میں جو ہنگامہ بھی برپا کرنا چاہے کرسکے ۔ اس کے بعد میں ایک وقت خاص پر اس کا حساب لوں گا جس نے میری بخشی ہوئی آزادی کو غلط استعمال کیا ہو گا اسے وہ سزا دوں گا جو میں نے کبھی اپنی کسی مخلوق کو نہیں دی ہے ، اور جس نے نافرمانی کے سارے مواقع پاکر بھی میری فرمانبرداری ہی اختیار کی ہو گی اسے وہ بلند مرتبے عطا کروں گا جو میری کسی مخلو ق کو نصیب نہیں ہوئے ہیں ۔ اب بتاؤ تم میں سے کون اس امتحان گاہ میں اترنے کو تیار ہے ؟ یہ تقریر سن کر پہلے ساری کائنات میں سناٹا چھا جاتا ہے ۔ پھر ایک سے ایک بڑھ کر گراں ڈیل مخلوق گھٹنے ٹیک کر التجا کرتی چلی جاتی ہے کہ اسے اس کڑے امتحان سے معاف رکھا جائے ۔ آخر کار یہ مشت استخواں اٹھا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے رب میں یہ امتحان دینے کے لیے تیار ہوں ۔ اس امتحان کو پاس کر کے تیری سلطنت کا سب سے اونچا عہدہ مل جانے کی جو امید ہے اس کی بنا پر میں ان سب خطرات کو انگیز کر جاؤں گا جو اس آزادی و خود مختاری میں پوشیدہ ہیں ۔ یہ نقشہ اپنی چشم تصور کے سامنے لا کر ہی آدمی اچھی طرح اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کائنات میں کس نازک مقام پر کھڑا ہوا ہے ۔ اب جو شخص اس امتحان گاہ میں بے فکر بن کر رہتا ہے اور کوئی احساس نہیں رکھتا کہ وہ کتنی بڑی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے ، اور دنیا کی زندگی میں اپنے لیے کوئی رویہ انتخاب کرتے وقت جو فیصلے وہ کرتا ہے ان کے صحیح یا غلط ہونے سے کیا نتائج نکلنے والے ہیں ، اسی کو اللہ تعالی اس آیت میں ظلوم و جہول قرار دے رہا ہے ۔ وہ جہول ہے ، کیونکہ اس احمق نے اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ لیا ہے ۔ اور وہ ظلوم ہے ، کیونکہ وہ خود اپنی تباہی کا سامان کر رہا ہے اور اپنے ساتھ نہ معلوم کتنے اور لوگوں کو لے ڈوبنا چاہتا ہے ۔
فرائض ، حدود امانت ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ امانت سے مراد یہاں اطاعت ہے ۔ اسے حضرت آدم علیہ السلام پر پیش کرنے سے پہلے زمین و آسمان اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا لیکن وہ بار امانت نہ اٹھا سکے اور اپنی مجبوری اور معذوری کا اظہار کیا ۔ جناب باری عزاسمہ نے اسے اب حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پیش کیا کہ یہ سب تو انکار کر رہے ہیں ۔ تم کہو آپ نے پوچھا اللہ اس میں بات کیا ہے؟ فرمایا اگر بجا لاؤ گے ثواب پاؤ گے اور برائی کی سزا پاؤ گے ۔ آپ نے فرمایا میں تیار ہوں ۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ امانت سے مراد فرائض ہیں دوسروں پر جو پیش کیا تھا یہ بطور حکم کے نہ تھا بلکہ جواب طلب کیا تھا تو ان کا انکار اور اظہار مجبوری گناہ نہ تھا بلکہ اس میں ایک قسم کی تعظیم تھی کہ باوجود پوری طاقت کے اللہ کے خوف سے تھرا اٹھے کہ کہیں پوری ادائیگی نہ ہوسکے اور مارے نہ جائیں ۔ لیکن انسان جو کہ بھولا تھا اس نے اس بار امانت کو خوشی خوشی اٹھالیا ۔ آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ عصر کے قریب یہ امانت اٹھائی تھی اور مغرب سے پہلے ہی خطا سرزد ہو گئی ۔ حضرت ابی کا بیان ہے کہ عورت کی پاکدامنی بھی اللہ کی امانت ہے ۔ قتادہ کا قول ہے دین فرائض حدود سب اللہ کی امانت ہیں ۔ جنابت کا غسل بھی بقول بعض امانت ہے ۔ زید بن اسلام فرماتے ہیں تین چیزیں اللہ کی امانت ہیں غسل جنابت ، روزہ اور نماز ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں سب کی سب امانت میں داخل ہیں ۔ تمام احکام بجا لانے تمام ممنوعات سے پرہیز کرنے کا انسان مکلف ہے ۔ جو بجالائے گا ثواب پائے گا جہاں گناہ کرے گا سزا پائے گا ۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں خیال کرو آسمان باوجود اس پختگی ، زینت اور نیک فرشتوں کا مسکن ہونے کے اللہ کی امانت برداشت نہ کرسکا جب اس نے یہ معلوم کرلیا کہ بجا آوری اگر نہ ہوئی تو عذاب ہوگا ۔ زمین صلاحیت کے باوجود اور سختی کے لمبائی اور چوڑائی کے ڈر گئی اور اپنی عاجزی ظاہر کرنے لگی ۔ پہاڑ باوجود اپنی بلندی اور طاقت اور سختی کے اس سے کانپ گئے ۔ اور اپنی لاچاری ظاہر کرنے لگے ۔ مقاتل فرماتے ہیں پہلے آسمانوں نے جواب دیا اور کہا یوں تو ہم مطیع ہیں لیکن ہاں ہمارے بس کی یہ بات نہیں کیونکہ عدم بجا آوری کی صورت میں بہت بڑا خطرہ ہے ۔ پھر زمین سے کہا گیا کہ اگر پوری اتری تو فضل و کرم سے نواز دوں گا ۔ لیکن اس نے کہا یوں تو ہر طرح طابع فرمان ہو جو فرمایا جائے عمل کروں لیکن میری وسعت سے تو یہ باہر ہے ۔ پھر پہاڑوں سے کہا گیا انہوں نے بھی جواب دیا کہ نافرمانی تو ہم کرنے کے نہیں امانت ڈال دی جائے تو اٹھالیں گے لیکن یہ بس کی بات نہیں ہمیں معاف فرمایا جائے ۔ پھر حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا گیا انہوں نے کہا اے اللہ اگر پورا اتروں تو کیا ملے گا ؟ فرمایا بڑی بزرگی ہوگی جنت ملے گی رحم و کرم ہوگا اور اگر اطاعت نہ کی نافرمانی کی تو پھر سخت سزا ہوگی اور آگ میں ڈال دیئے جاؤ گے انہوں نے کہا یا اللہ منظور ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں آسمان نے کہا میں نے ستاروں کو جگہ دی فرشتوں کو اٹھا لیا لیکن یہ نہیں اٹھا سکوں گا یہ تو فرائض کا بوجھ ہے جس کی مجھ میں طاقت نہیں ۔ زمین نے کہا مجھ میں تونے درخت بوئے دریا جاری کئے ۔ لوگوں کو بسائے گا لیکن یہ امانت تو میرے بس کی نہیں ۔ میں فرض کی پابند ہو کر ثواب کی امید پر عذاب کے احتمال کو نہیں اٹھاسکتی ۔ پہاڑوں نے بھی یہی کہا لیکن انسان نے لپک کر اسے اٹھالیا ۔ بعض روایات میں ہے کہ تین دن تک وہ گریہ زاری کرتے رہے اور اپنی بےبسی کا اظہار کرتے رہے لیکن انسان نے اسے اپنے ذمے لے لیا ۔ اللہ نے اسے فرمایا اب سن اگر تو نیک نیت رہا تو میری اعانت ہمیشہ تیرے شامل حال رہے گی تیری آنکھوں پر میں دو پلکیں کردیتا ہوں کہ میری ناراضگی کی چیزوں سے تو انہیں بند کرلے ۔ میں تیری زبان پر دو ہونٹ بنا دیتا ہوں کہ جب وہ مرضی کے خلاف بولنا چاہے تو تو اسے بند کرلے ۔ تیری شرمگاہ کی حفاظت کیلئے میں لباس اتارتا ہوں کہ میری مرضی کے خلاف تو اسے نہ کھولے ۔ زمین و آسمان نے ثواب و عذاب سے انکار کردیا اور فرمانبرداری میں مسخر رہے لیکن انسانوں نے اسے اٹھالیا ۔ ایک بالکل غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ امانت اور وفا انسانوں پر نبیوں کی معرفت نازل ہوئیں ۔ اللہ کا کلام ان کی زبانوں میں اترا نبیوں کی سنتوں سے انہوں نے ہر بھلائی برائی معلوم کرلی ۔ ہر شخص نیکی بدی کو جان گیا ۔ یاد رکھو! سب سے پہلے لوگوں میں امانت داری تھی پھر وفا اور عہد کی نگہبانی اور ذمہ داری کو پورا کرنا تھا ۔ امانت داری کے دھندلے سے نشان لوگوں کے دلوں پر رہ گئے ۔ کتابیں ان کے ہاتھوں میں ہیں ۔ عالم عمل کرتے ہیں جاہل جانتے ہیں لیکن انجان بن رہے ہیں اب یہ امانت وفا مجھ تک اور میری امت تک پہنچی ۔ یاد رکھو اللہ اسی کو ہلاک کرتا ہے جو اپنے آپ کو ہلاک کرلے ۔ اسے چھوڑ کر غفلت میں پڑ جائے ۔ لوگو! ہوشیار رہو اپنے آپ پر نظر رکھو ۔ شیطانی وسوسوں سے بچو ۔ اللہ تمہیں آزما رہا ہے کہ تم میں سے اچھے عمل کرنے والا کون ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص ایمان کے ساتھ ان چیزوں کو لائے گا جنت میں جائے گا ۔ پانچوں وقتوں کی نماز کی حفاظت کرتا ہو ، وضو ، رکوع ، سجدہ اور وقت سجدہ اور وقت سمیت زکوٰۃ ادا کرتا ہو ۔ دل کی خوشی کے ساتھ زکوٰۃ کی رقم نکالتا ہو ۔ سنو واللہ یہ بغیر ایمان کے ہو ہی نہیں سکتا اور امانت کو ادا کرے ۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ امانت کی ادائیگی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا جنابت کا فرضی غسل ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اپنے دین میں سے کسی چیز کی اس کے سوا امانت نہیں دی ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کی راہ کا قتل تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے مگر امانت کی خیانت کو نہیں مٹاتا ان خائنوں سے قیامت کے دن کہا جائے گا جاؤ ان کی امانتیں ادا کرو یہ جواب دیں گے اللہ کہاں سے ادا کریں؟ دنیا تو جاتی رہی تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوگا پھر حکم ہوگا کہ انہیں ان کی ماں ہاویہ میں لے جاؤ ۔ فرشتے دھکے دیتے ہوئے گرا دیں گے ۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے تو انہیں اسی امانت کی ہم شکل جہنم کی آگ کی چیز نظر پڑے گی ۔ یہ اسے لے کر اوپر کو چڑھیں گے جب کنارے تک پہنچیں گے تو وہاں پاؤں پھسل جائے گا ۔ پھر گر پڑیں گے اور جہنم کے نیچے تک گرتے چلے جائیں گے ۔ پھر لائیں گے پھر گریں گے ہمیشہ اسی عذاب میں رہیں گے ۔ امانت وضو میں بھی ہے ۔ نماز میں بھی امانت بات چیت میں بھی ہے اور ان سب سے زیادہ امانت ان چیزوں میں ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائیں ۔ حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ آپ کے بھائی عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کیا حدیث بیان فرما رہے ہیں؟ تو آپ اس کی تصدیق کرتے ہیں کہا ہاں ٹھیک ہے ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے دو حدیثیں سنی ہیں ۔ ایک کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور دوسری کے ظہور کا مجھے انتظار ہے ایک تو یہ کہ آپ نے فرمایا امانت لوگوں کی جبلت میں اتاری گئی پھر قرآن اترا حدیثیں بیان ہوئیں ۔ پھر آپ نے امانت کے اٹھ جانے کی بابت فرمایا انسان سوئے گا جو اس کے دل سے امانت اٹھ جائے گی اور ایسا نشان رہ جائے گا جیسے کسی کے پیر پر کوئی انگارہ لڑھک کر آگیا ہو اور پھپھولا پڑگیا ہو کہ ابھرا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن اندر کچھ بھی نہیں ۔ پھر آپ نے ایک کنکر لے کر اسے اپنے پیر پر لڑھکا کر دکھا دیا کہ اس طرح لوگ لین دین خرید و فروخت کیا کریں گے ۔ لیکن تقریباً ایک بھی ایماندار نہ ہوگا ۔ یہاں تک کہ مشہور ہو جائے گا کہ فلاں قبیلے میں کوئی امانت دار ہے ۔ اور یہاں تک کہ کہا جائے گا یہ شخص کیسا عقلمند ، کس قدر زیرک ، دانا اور فراست والا ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہ ہوگا ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں دیکھو اس سے پہلے تو میں ہر ایک سے ادھار سدھار کرلیا کرتا تھا کیونکہ اگر وہ مسلمان ہے تو وہ خود میرا حق مجھے دے جائے گا اور اگر یہودی یا نصرانی ہے تو حکومت اسلام مجھے اس سے دلوا دے گی ۔ لیکن اب تو صرف فلاں فلاں کو ہی ادھار دیتا ہوں باقی بند کردیا ہے ۔ ( مسلم وغیرہ ) مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ چار باتیں تجھ میں ہوں پھر اگر ساری دنیا بھی فوت ہو جائے تو تجھے نقصان نہیں ۔ امانت کی حفاظت ، بات چیت کی صداقت ، حسن اخلاق اور وجہ حلال کی روزی ۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک کی کتاب الزھد میں ہے کہ جبلہ بن سحیم حضرت زیاد کے ساتھ تھے اتفاق سے ان کے منہ سے باتوں ہی باتوں میں نکل گیا قسم ہے امانت کی ۔ اس پر حضرت زیاد رونے لگے اور بہت روئے ۔ میں ڈرگیا کہ مجھ سے کوئی سخت گناہ سرزد ہوا ۔ میں نے کہا کیا وہ اسے مکروہ جانتے تھے فرمایا ہاں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے بہت مکروہ جانتے تھے اور اس سے منع فرماتے تھے ۔ ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ ہم میں سے نہیں جو امانت کی قسم کھائے ، امانتداری جو حضرت آدم علیہ السلام نے کی اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ منافق مرد و عورت اور مشرک مرد و عورت یعنی وہ جو ظاہر میں مسلمان اور باطن میں کافر تھے اور وہ جو اندر باہر یکساں کافر تھے انہیں تو سخت سزا ملے اور مومن مرد و عورت پر اللہ کی رحمت نازل ہو ۔ جو اللہ کو اس کے فرشتوں کو اس کے رسولوں کو مانتے تھے اور اللہ کے سچے فرمانبردار رہے ۔ اللہ غفور و رحیم ہے ۔