Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَا تَاۡتِيۡنَا السَّاعَةُ ؕ قُلۡ بَلٰى وَرَبِّىۡ لَـتَاۡتِيَنَّكُمۡۙ عٰلِمِ الۡغَيۡبِ ۚ لَا يَعۡزُبُ عَنۡهُ مِثۡقَالُ ذَرَّةٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَلَا فِى الۡاَرۡضِ وَلَاۤ اَصۡغَرُ مِنۡ ذٰ لِكَ وَلَاۤ اَكۡبَرُ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍۙ‏ ﴿3﴾
کفار کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی ۔ آپ کہہ دیجئے! مجھے میرے رب کی قسم! جو عالم الغیب ہے وہ یقیناً تم پر آئے گی اللہ تعالٰی سے ایک ذرے کے برابر کی چیز بھی پوشیدہ نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں بلکہ اس سے بھی چھوٹی اور بڑی ہرچیز کھلی کتاب میں موجود ہے ۔
و قال الذين كفروا لا تاتينا الساعة قل بلى و ربي لتاتينكم علم الغيب لا يعزب عنه مثقال ذرة في السموت و لا في الارض و لا اصغر من ذلك و لا اكبر الا في كتب مبين
But those who disbelieve say, "The Hour will not come to us." Say, "Yes, by my Lord, it will surely come to you. [ Allah is] the Knower of the unseen." Not absent from Him is an atom's weight within the heavens or within the earth or [what is] smaller than that or greater, except that it is in a clear register -
Kuffaar kehtay hain hum per qayamat nahi aaye gi. Aap keh dijiyey! Kay mujhay meray rab ki qasam! Jo aalim-ul-ghaib hai kay woh yaqeenan tum per aaye gi Allah Taalaa say aik zarray kay barabar ki cheez bhi posheedah nahi na aasmano mein aur na zamin mein bulkay iss say bhi choti aur bari her cheez khuli kitab mein mojood hai.
اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ کہتے ہیں کہ : ہم پر قیامت نہیں آئے گی ، کہہ دو : کیوں نہیں آئے گی ؟ میرے عالم الغیب پروردگار کی قسم ! وہ تم پر ضرور آکر رہے گی ۔ کوئی ذرہ برابر چیز اس کی نظر سے دور نہیں ہوتی ۔ ( ١ ) نہ آسمانوں میں ، نہ زمین میں اور نہ اس سے چھوٹی کوئی چیز ایسی ہے نہ بڑی جو ایک کھلی کتاب ( یعنی لوح محفوظ ) میں درج نہ ہو ۔
اور کافر بولے ہم پر قیامت نہ آئے گی ( ف۸ ) تم فرماؤ کیوں نہیں میرے رب کی قسم بیشک ضرور آئے گی غیب جاننے والا ( ف۹ ) اس سے غیب نہیں ذرہ بھر کوئی چیز آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ بڑی مگر ایک صاف بتانے والی کتاب میں ہے ( ف۱۰ )
منکرین کہتے ہیں کہ کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے 5 ! کہو قسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی ، وہ تم پر آ کر رہے گی 6 ۔ اس سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں ۔ رائی سے بڑی اور نہ اس سے چھوٹی ، سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے ۔ 7 ۔
اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی ، آپ فرما دیں: کیوں نہیں؟ میرے عالم الغیب رب کی قسم! وہ تم پر ضرور آئے گی ، اس سے نہ آسمانوں میں ذرّہ بھر کوئی چیز غائب ہو سکتی ہے اور نہ زمین میں اور نہ اس سے کوئی چھوٹی ( چیز ہے ) اور نہ بڑی مگر روشن کتاب ( یعنی لوحِ محفوظ ) میں ( لکھی ہوئی ) ہے
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :5 یہ بات وہ طنز اور تمسخر کے طور پر چندرا چَندرا کر کہتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بہت دنوں سے یہ پیغمبر صاحب قیامت کے آنے کی خبر سنا رہے ہیں ، مگر کچھ خبر نہیں کہ وہ آتے آتے کہاں رہ گئی ۔ ہم نے اتنا کچھ انہیں جھٹلایا ، اتنی گستاخیاں کیں ، ان کا مذاق تک اڑایا ، مگر وہ قیامت ہے کہ کسی طرح نہیں آ چکتی ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :6 پروردگار کی قسم کھاتے ہوئے اس کے لیے عالم الغیب کی صفت استعمال کرنے سے خود بخود اس امر کی طرف اشارہ ہو گیا کہ قیامت کا آنا تو یقینی ہے مگر اس کے آنے کا وقت خدائے عالم الغیب کے سوا کسی کو معلوم نہیں ۔ یہی مضمون قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان ہوا ہے ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، 187 ۔ طٰہٰ ، 15 ۔ لقمان 34 ۔ الاحزاب ، 63 ۔ الملک ، 25 ۔ 26 ۔ النازعات ، 42 یا 44 ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :7 یہ امکان آخرت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے ۔ جیسا کہ آگے آیت نمبر7 میں آ رہا ہے ، منکرین آخرت جن وجوہ سے زندگی بعد موت کو بعید از عقل سمجھتے تھے ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ جب سارے انسان مر کر مٹی میں رل مل جائیں گے اور ان کا ذرہ ذرہ منتشر ہو جائے تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ یہ بے شمار اجزا پھر سے اکٹھے ہوں اور ان کو جوڑ کر ہم دوبارہ اپنے انہی اجسام کے ساتھ پیدا کر دیے جائیں ۔ اس شبہ کو یہ کہہ کر رفع کیا گیا ہے کہ ہر ذرہ جو کہیں گیا ہے ، خدا کے دفتر میں اس کا اندراج موجود ہے اور خدا کو معلوم ہے کہ کیا چیز کہاں گئی ہے ۔ جب وہ دوبارہ پیدا کرنے کا ارادہ کرے گا تو اسے ایک ایک انسان کے اجزائے جسم کو سمیٹ لانے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی ۔
قیامت آکر رہے گی ۔ پورے قرآن میں تین آیتیں ہیں جہاں قیامت کے آنے پر قسم کھاکر بیان فرمایا گیا ہے ۔ ایک تو سورۃ یونس میں ( وَيَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَكَ اَحَقٌّ ھُوَ ڼ قُلْ اِيْ وَرَبِّيْٓ اِنَّهٗ لَحَقٌّ ې وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ 53؀ۧ ) 10- یونس:53 ) لوگ تجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا قیامت کا آنا حق ہی ہے؟ تو کہہ دے کہ ہاں ہاں میرے رب کی قسم وہ یقینا حق ہی ہے اور تم اللہ کو مغلوب نہیں کرسکتے ۔ دوسری آیت یہی ۔ تیسری آیت سورۃ تغابن میں ( زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۭ وَذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ Ċ۝ ) 64- التغابن:7 ) یعنی کفار کا خیال ہے کہ وہ قیامت کے دن اٹھائے نہ جائیں گے ۔ تو کہہ دے کہ ہاں میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر اپنے اعمال کی خبر دیئے جاؤ گے اور یہ تو اللہ پر بالکل ہی آسان ہے ۔ پس یہاں بھی کافروں کے انکار قیامت کا ذکر کرکے اپنے نبی کو ان کے بارے قسمیہ بتا کر پھر اس کی مزیدتاکید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اللہ جو عالم الغیب ہے جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ۔ سب اس کے علم میں ہے ۔ گو ہڈیاں سڑ گل جائیں ان کے ریزے متفرق ہو جائیں لیکن وہ کہاں ہیں؟ کتنے ہیں؟ سب وہ جانتا ہے ۔ وہ ان سب کے جمع کرنے پر بھی قادر ہے ۔ جیسے کہ پہلے انہیں پیدا کیا ۔ وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ اور تمام چیزیں اس کے پاس اس کی کتاب میں بھی لکھی ہوئی ہیں ، پھر قیامت کے آنے کی حکمت بیان فرمائی کہ ایمان والوں کو ان کی نیکیوں کا بدلہ ملے ۔ وہ مغفرت اور رزق کریم سے نوازے جائیں ، اور جنہوں نے اللہ کی باتوں سے ضد کی رسولوں کی نہ مانی انہیں بدترین اور سخت سزائیں ہوں ۔ نیک کار مومن جزا اور بدکار کفار سزا پائیں گے ۔ جیسے فرمایا جہنمی اور جنتی برابر نہیں ۔ جنتی کامیاب اور مقصد ور ہیں ۔ اور آیت میں ہے ( اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ 28؀ ) 38-ص:28 ) ، یعنی مومن اور مفسد متقی اور فاجر برابر نہیں ، پھر قیامت کی ایک اور حکمت بیان فرمائی کہ ایماندار بھی قیامت کے دن جب نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا ہوتے ہوئے دیکھیں گے تو وہ علم الیقین سے عین الیقین حاصل کرلیں گے اور اس وقت کہہ اٹھیں گے کہ ہمارے رب کے رسول ہمارے پاس حق لائے تھے ۔ اور اس وقت کہا جائے گا کہ یہ ہے جس کا وعدہ رحمان نے دیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہہ دیا تھا ۔ اللہ نے تو لکھ دیا تھا کہ تم قیامت تک رہو گے تو اب قیامت کا دن آچکا ۔ وہ اللہ عزیز ہے یعنی بلند جناب والا بڑی سرکار والا ہے ۔ بہت عزت والا ہے پورے غلبے والا ہے ۔ نہ اس پر کسی کا بس نہ کسی کا زور ۔ ہر چیز اس کے سامنے پست اور عاجز ۔ وہ قابل تعریف ہے اپنے اقوال و افعال شرع و فعل میں ۔ ان تمام میں اس کی ساری مخلوق اس کی ثناء خواں ہے ۔ جل و علا ۔