Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَالَّذِيۡنَ سَعَوۡ فِىۡۤ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيۡنَ اُولٰٓٮِٕكَ لَهُمۡ عَذَابٌ مِّنۡ رِّجۡزٍ اَلِيۡمٌ‏ ﴿5﴾
اور ہماری آیتوں کو نیچا دکھانے کی جنہوں نے کوشش کی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے ۔
و الذين سعو في ايتنا معجزين اولىك لهم عذاب من رجز اليم
But those who strive against Our verses [seeking] to cause failure - for them will be a painful punishment of foul nature.
Aur humari aayaton ko neecha dikhaney ki jinhon ney kosish ki hai yeh woh log hain jin kay liye bad-tareen qisam ka dardnaak azab hai.
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کے بارے میں یہ کوشش کی ہے کہ انہیں ناکام بنائیں ، ان کے لیے بلا کا دردناک عذاب ہے ۔
اور جنہوں نے ہماری آیتوں میں ہرانے کی کوشش کی ( ف۱۲ ) ان کے لیے سخت عذاب دردناک میں سے عذاب ہے ،
اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے زور لگایا ہے ، ان کے لیے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے ۔ 8
اور جنہوں نے ہماری آیتوں میں ( مخالفانہ ) کوشش کی ( ہمیں ) عاجز کرنے کے زعم میں انہی لوگوں کے لئے سخت دردناک عذاب کی سزا ہے
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :8 اوپر آخرت کے امکان کی دلیل تھی ، اور یہ اس کے وجوب کی دلیل ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ایسا وقت ضرور آنا ہی چاہیے جب ظالموں کو ان کے ظلم کا اور صالحوں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیا جائے ۔ عقل یہ چاہتی ہے اور انصاف یہ تقاضا کرتا ہے کہ جو نیکی کرے اسے انعام ملے اور جو بدی کرے وہ سزا پائے ۔ اب اگر تم دیکھتے ہو کہ دنیا کی موجودگی میں نہ ہر بد کو اس کی بدی کا اور نہ ہر نیک کو اس کی نیکی کا پورا بدلہ ملتا ہے ، بلکہ بسا اوقات بدی اور نیکی کے الٹے نتائج بھی نکل آتے ہیں ، تو تمہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ عقل اور انصاف کا یہ لازمی تقاضا کسی وقت ضرور پورا ہونا چاہیے ۔ قیامت اور آخرت اسی وقت کا نام ہے ۔ اس کا آنا نہیں بلکہ نہ آنا عقل کے خلاف اور انصاف سے بعید ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک اور نکتہ بھی اوپر کی آیات سے واضح ہوتا ہے ۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ ایمان اور عمل صالح کا نتیجہ مغفرت اور رزق کریم ہے ۔ اور جو لوگ خدا کے دین کو نیچا دکھانے کے لیے معاندانہ جدوجہد کریں ان کے لیے بدترین قسم کا عذاب ہے ۔ اس سے خود بخود یہ ظاہر ہو گیا کہ جو شخص سچے دل سے ایمان لائے گا اس کے عمل میں اگر کچھ خرابی بھی ہو تو وہ رزق کریم چاہے نہ پائے مگر مغفرت سے محروم نہ رہے گا اور جو شخص کافر تو ہو مگر دین حق کے مقابلے میں عناد و مخالفت کی روش بھی اختیار نہ کرے وہ عذاب سے تو نہ بچے گا مگر بد ترین عذاب اس کے لیے نہیں ہے ۔