Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَ فۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَمۡ بِهٖ جِنَّةٌ  ؕ بَلِ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ فِى الۡعَذَابِ وَالضَّلٰلِ الۡبَعِيۡدِ‏ ﴿8﴾
۔ ( ہم نہیں کہہ سکتے ) کہ خود اس نے ( ہی ) اللہ پر جھوٹ باندھ لیا ہے یا اسے دیوانگی ہے بلکہ ( حقیقت یہ ہے ) کہ آخرت پر یقین نہ رکھنے والے ہی عذاب میں اور دور کی گمراہی میں ہیں ۔
افترى على الله كذبا ام به جنة بل الذين لا يؤمنون بالاخرة في العذاب و الضلل البعيد
Has he invented about Allah a lie or is there in him madness?" Rather, they who do not believe in the Hereafter will be in the punishment and [are in] extreme error.
( hum nahi keh saktay ) kay khud uss ney ( hi ) Allah per jhoot bandh liya hai ya ussay deewangi hai bulkay ( haqeeqat yeh hai ) kay aakhirat per yaqeen na rakhney walay hi azab mein aur door ki gumrahi mein hain.
پتہ نہیں اس شخص نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے یا اسے کسی طرح کا جنون لاحق ہے ؟ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ خود عذاب میں اور پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔ ( ٢ )
کیا اللہ پر اس نے جھوٹ باندھا یا اسے سودا ہے ( ف۱۷ ) بلکہ وہ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ( ف۱۸ ) عذاب اور دور کی گمراہی میں ہیں ،
نہ معلوم یہ شخص اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑتا ہے ہے یا اسے جنون لاحق ہے ” 10 ۔ نہیں ، بلکہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور و ہی بری طرح بہکے ہوئے ہیں 11 ۔
۔ ( یا تو ) وہ اﷲ پر جھوٹا بہتان باندھتا ہے یا اسے جنون ہے ، ( ایسا کچھ بھی نہیں ) بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ عذاب اور پرلے درجہ کی گمراہی میں ( مبتلا ) ہیں
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :10 قریش کے سردار اس بات کو خوب جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا تسلیم کرنا عوام الناس کے لیے سخت مشکل ہے ، کیونکہ ساری قوم آپ کو صادق القول جانتی تھی اور کبھی ساری عمر کسی نے آپ کی زبان سے کوئی جھوٹی بات نہ سنی تھی ۔ اس لیے وہ لوگوں کے سامنے اپنا الزام اس شکل میں پیش کرتے تھے کہ یہ شخص جب زندگی بعد موت جیسی انہونی بات زبان سے نکالتا ہے تو لامحالہ اس کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا ۔ یا تو ( معاذ اللہ ) یہ شخص جان بوجھ کر ایک جھوٹی بات کہہ رہا ہے ، یا پھر یہ مجنون ہے ۔ لیکن یہ مجنون والی بات بھی اتنی ہی بے سر و پا تھی جتنی جھوٹ والی بات تھی ۔ اس لیے کہ کوئی عقل کا اندھا ہی ایک کمال درجہ کے عاقل و فہیم آدمی کو مجنون مان سکتا تھا ، ورنہ آنکھوں دیکھتے کوئی شخص جیتی مکھی کیسے نگل لیتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ بات کے جواب میں کسی استدلال کی ضرورت محسوس نہ فرمائی اور کلام صرف ان کے اس اچنبھے پر کیا جو موت کے امکان پر وہ ظاہر کرتے تھے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :11 یہ ان کی بات کا پہلا جواب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نادانو ، عقل تو تمہاری ماری گئی ہے کہ جو شخص حقیقت حال سے تمہیں آگاہ کر رہا ہے اس کی بات نہیں مانتے اور سرپٹ اس راستے پر چلے جا رہے ہو جو سیدھا جہنم کی طرف جاتا ہے ، مگر تمہاری حماقت کی طغیانی کا یہ عالم ہے کہ الٹا اس شخص کو مجنون کہتے ہو جو تمہیں بچانے کی فکر کر رہا ہے ۔