Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَفَلَمۡ يَرَوۡا اِلٰى مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَمَا خَلۡفَهُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ ؕ اِنۡ نَّشَاۡ نَخۡسِفۡ بِهِمُ الۡاَرۡضَ اَوۡ نُسۡقِطۡ عَلَيۡهِمۡ كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لِّكُلِّ عَبۡدٍ مُّنِيۡبٍ‏ ﴿9﴾
کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں یقیناً اس میں پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لئے جو ( دل سے ) متوجہ ہو ۔
افلم يروا الى ما بين ايديهم و ما خلفهم من السماء و الارض ان نشا نخسف بهم الارض او نسقط عليهم كسفا من السماء ان في ذلك لاية لكل عبد منيب
Then, do they not look at what is before them and what is behind them of the heaven and earth? If We should will, We could cause the earth to swallow them or [could] let fall upon them fragments from the sky. Indeed in that is a sign for every servant turning back [to Allah ].
Kiya pus woh apnay aagay peechay aasman-o-zamin ko nahi dekh rahey? Agar hum chahayen to enhen zamin mein dhansa den ya inn per aasman kay tukray gira den yaqeenan iss mein poori daleel hai her uss banday kay liye jo ( dil say ) mutawajja ho.
بھلا کیا ان لوگوں نے اس آسمان و زمین کو نہیں دیکھا جو ان کے آگے بھی موجود ہیں اور ان کے پیچھے بھی ۔ اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں ، یا آسمان کے کچھ ٹکڑے ان پر گرا دیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ہر اس بندے کے لیے ایک نشانی ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہو ۔
تو کیا انہوں نے نہ دیکھا جو ان کے آگے اور پیچھے ہے آسمان اور زمین ( ف۱۹ ) ہم چاہیں تو انھیں ( ف۲۰ ) زمین میں دھنسادیں یا ان پر آسمان کا ٹکڑا گرادیں ، بیشک اس ( ف۲۱ ) میں نشانی ہے ہر رجوع لانے والے بندے کے لیے ( ف۲۲ )
کیا انہوں نے کبھی اس آسمان و زمین کو نہیں دیکھا جو انہیں آگے اور پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے؟ ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں ، یا آسمان کے کچھ ٹکڑے ان پر گرا دیں 12 ۔ درحقیقت اس میں ایک نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے جو خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہو 13 ۔ ع1
سو کیا انہوں نے اُن ( نشانیوں ) کو نہیں دیکھا جو آسمان اور زمین سے اُن کے آگے اور اُن کے پیچھے ( انہیں گھیرے ہوئے ) ہیں ۔ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا اُن پر آسمان سے کچھ ٹکڑے گرا دیں ، بیشک اس میں ہر اس بندے کے لئے نشانی ہے جو اﷲ کی طرف رجوع کرنے والا ہے
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :12 یہ ان کی بات کا دوسرا جواب ہے ۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ کفار قریش جن وجوہ سے زندگی بعد موت کا انکار کرتے تھے ان میں تین چیزیں سب سے زیادہ نمایاں تھیں ۔ ایک یہ کہ وہ خدا کے محاسبے اور باز پرس کو نہیں ماننا چاہتے تھے کیونکہ اسے مان لینے کے بعد دنیا میں من مانی کرنے کی آزادی ان سے چھن جاتی تھی ۔ دوسرے یہ کہ وہ قیامت کے وقوع اور نظام عالم کے درہم برہم ہو جانے اور پھر سے ایک نئی کائنات بننے کو ناقابل تصور سمجھتے تھے ۔ تیسرے یہ کہ جن لوگوں کو مرے ہوئے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہوں اور جن کی ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو کر زمین ، ہوا اور پانی میں پراگندہ ہو چکی ہوں ان کا دوبارہ جسم و جان کے ساتھ جی اٹھنا ان کے نزدیک بالکل بعید از امکان تھا ۔ اوپر کا جواب ان تینوں پہلوؤں پر حاوی ہے ، اور مزید براں اس میں ایک سخت تنبیہ بھی مضمر ہے ۔ ان مختصر سے فقروں میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس کی تفضیل یہ ہے ۔ 1 ۔ اس زمین و آسمان کو اگر کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا ہوتا تو تمہیں نظر آتا کہ یہ کوئی کھلونا نہیں ہے ، اور نہ یہ نظام اتفاقاً بن گیا ہے ، اس کائنات کی ہر چیز اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اسے ایک قادر مطلق نے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا ہے ۔ ایسے ایک حکیمانہ نظام میں یہ تصور کرنا کہ یہاں کسی کو عقل و تمیز و اختیارات عطا کرنے کے بعد اسے غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ چھوڑا جا سکتا ہے ، سراسر ایک لغو بات ہے ۔ 2 ۔ اس نظام کو جو شخص بھی دیدہ بینا کے ساتھ دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ قیامت کا آجانا کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔ زمین اور آسمان جن بندشوں پر قائم ہیں ان میں ایک ذرا سا الٹ پھیر بھی ہو جائے تو آناً فاناً قیامت برپا ہو سکتی ہے ۔ اور یہی نظام اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے آج یہ دنیا بنا رکھی ہے وہ ایک دوسری دنیا پھر بنا سکتا ہے ۔ اس کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا تو یہی دنیا کیسے بن کھڑی ہوتی ۔ 3 ۔ تم نے آخر خالق ارض و سما کو کیا سمجھ رکھا ہے کہ مرے ہوئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کیے جانے کو اسکی قدرت سے باہر خیال کر رہے ہو ، جو لوگ مرتے ہیں ان کے جسم پارہ پارہ ہو کر خواہ کتنے ہی منتشر ہو جائیں ، رہتے تو اسی زمین و آسمان کے حدود میں ہیں ۔ اس سے کہیں باہر تو نہیں چلے جاتے ۔ پھر جس خدا کے یہ زمین و آسمان ہیں اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ مٹی اور پانی اور ہوا میں جو چیز جہاں بھی ہے اسے وہاں سے نکال لائے ۔ تمہارے جسم میں اب جو کچھ موجود ہے وہ بھی اسی کا جمع کیا ہوا ہے اور اسی مٹی ، ہوا اور پانی میں سے نکال لایا گیا ہے ۔ ان اجزا کی فراہمی اگر آج ممکن ہے تو کل کیوں غیر ممکن ہو جائے گی ۔ ان تینوں دلیلوں کے ساتھ اس کلام میں یہ تنبیہ بھی پوشیدہ ہے کہ تم ہر طرف سے خدا کی خدائی میں گھرے ہوئے ہو ۔ جہاں بھی جاؤ گے یہی کائنات تم پر محیط ہو گی ۔ خدا کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ تم نہیں پا سکتے اور خدا کی قدرت کا حال یہ ہے کہ جب وہ چاہے تمہارے قدموں کے نیچے سے یا سر کے اوپر سے جو بلا چاہے تم پر نازل کر سکتا ہے ۔ جس زمین کو آغوش مادر کی طرح تم اپنے لیے جائے سکون پاتے ہو اور اطمینان سے اس پر گھر بنائے بیٹھے ہو تمھیں کچھ پتہ نہیں کہ اس کی سطح کے نیچے کیا قوتیں کام کر رہی ہیں اور کب وہ کوئی زلزلے لا کر اسی زمین کو تمہارے لیے مرقد بنا دیتی ہیں ۔ جس آسمان کے نیچے تم اس اطمینان کے ساتھ چل پھر رہے ہو گویا کہ یہ تمہارے گھر کی چھت ہے ، تمہیں کیا معلوم کہ اسی آسمان سے کب کوئی بجلی گر پڑتی ہے ، یا ہلاکت خیز بارش ہوتی ہے ، یا اور کوئی ناگہانی آفت آجاتی ہے ۔ اس حالت میں تمہاری خدا سے یہ بے خوفی اور فکر عاقبت سے یہ غفلت اور ایک خیر خواہ کی نصیحت کے مقابلے میں یہ یَاوَہ گوئی بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ تم اپنی شامت ہی کو دعوت دے رہے ہو ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :13 یعنی جو شخص کسی قسم کا تعصب نہ رکھتا ہو ، جس میں کوئی ہٹ دھرمی اور ضد نہ پائی جاتی ہو ، بلکہ جو اخلاص کے ساتھ اپنے خدا سے طالب ہدایت ہو ، وہ تو آسمان و زمین کے اس نظام کو دیکھ کر بڑے سبق لے سکتا ہے ۔ لیکن جس کا دل خدا سے پھرا ہوا ہو وہ کائنات میں سب کچھ دیکھے گا مگر حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی اسے سجھائی نہ دے گی ۔