Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضۡلًا ؕ يٰجِبَالُ اَوِّبِىۡ مَعَهٗ وَالطَّيۡرَ ۚ وَاَلَــنَّا لَـهُ الۡحَدِيۡدَ ۙ‏ ﴿10﴾
اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا اے پہاڑو! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی ( یہی حکم ہے ) اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم کر دیا ۔
و لقد اتينا داود منا فضلا يجبال اوبي معه و الطير و النا له الحديد
And We certainly gave David from Us bounty. [We said], "O mountains, repeat [Our] praises with him, and the birds [as well]." And We made pliable for him iron,
Aur hum ney dawood per apna fazal kiya aey paharo! Iss kay sath raghbat say tasbeeh parha kero aur parindon ko bhi ( yehi hukum hai ) aur hum ney iss kay liye loha naram ker diya.
اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے داود کو خاص اپنے پاس سے فضل عطا کیا تھا ۔ اے پہاڑو ! تم بھی تسبیح میں ان کے ساتھ ہم آواز بن جاؤ ، اور اے پرندو ! تم بھی ۔ ( ٣ ) اور ہم نے ان کے لیے لوہے کو نرم کردیا تھا ۔
اور بیشک ہم نے داؤد کو اپنا بڑا فضل دیا ( ف۲۳ ) اے پہاڑو! اس کے ساتھ اللہ کی رجوع کرو اور اے پرندو! ( ف۲٤ ) اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کیا ( ف۲۵ )
ہم نے داؤد کو اپنے ہاں سے بڑا فضل عطا کیا تھا 14 ۔ ( ہم نے حکم دیا کہ ) اے پہاڑو ، اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو ( اور یہی حکم نے ) پرندوں کو دیا 15 ۔ ہم نے لوہے کو اس لیے نرم کر دیا
اور بیشک ہم نے داؤد ( علیہ السلام ) کو اپنی بارگاہ سے بڑا فضل عطا فرمایا ، ( اور حکم فرمایا: ) اے پہاڑو! تم اِن کے ساتھ مل کر خوش اِلحانی سے ( تسبیح ) پڑھا کرو ، اور پرندوں کو بھی ( مسخّر کر کے یہی حکم دیا ) ، اور ہم نے اُن کے لئے لوہا نرم کر دیا
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :14 اشارہ ہے ان بے شمار عنایات کی طرف جن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نوازا تھا ۔ وہ بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہوواہ کے ایک معمولی نوجوان تھے ۔ فلستیوں کے خلاف ایک معرکے میں جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر کے یکایک وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن گئے ۔ اس واقعہ سے ان کا عروج شروع ہوا یہاں تک کہ طالوت کی وفات کے بعد پہلے وہ خبرون ( موجودہ الخلیل ) میں یہودیہ کے فرمانروا بنائے گئے ، پھر چند سال بعد تمام قبائل بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا ، اور انہوں نے یروشلم کو فتح کر کے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا ۔ یہ انہی کی قیادت تھی جس کی بدولت تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسی خدا پرست سلطنت وجود میں آئی جس کے حدود خلیج عقبہ سے دریائے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلے ہوئے تھے ۔ اس عنایات پر مزید وہ فضل خداوندی ہے جو علم و حکمت ، عدل و انصاف ، اور خدا ترسی و بندگی حق کی صورت میں ان کو نصیب ہوا ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ۔ ص 595 تا 598 ) سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :15 یہ مضمون اس سے پہلے سورہ انبیا آیت 79 میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں ۔ ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم 174 ۔ 175 )
حضرت داؤد پر انعامات الٰہی ۔ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول حضرت داؤد علیہ السلام پر دنیوی اور اخروی رحمت نازل فرمائی ۔ نبوت بھی دی بادشاہت بھی دی لاؤ لشکر بھی دیئے طاقت و قوت بھی دی ۔ پھر ایک پاکیزہ معجزہ یہ عطا فرمایا کہ ادھر نغمہ داؤدی ہوا میں گونجا ، ادھر پہاڑوں اور پرندوں کو بھی وجد آگیا ۔ پہاڑوں نے آواز میں آوا زملا کر اللہ کی حمد و ثناء شروع کی پرندوں نے پر ہلانے چھوڑ دیئے اور اپنی قسم قسم کی پیاری پیاری بولیوں میں رب کی وحدانیت کے گیت گانے لگے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رات کو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے جسے سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے دیر تک سنتے رہے پھر فرمانے لگے انہیں نغمہ داؤدی کا کچھ حصہ مل گیا ہے ۔ ابو عثمان نہدی کا بیان ہے کہ واللہ ہم نے حضرت ابو موسیٰ سے زیادہ پیاری آواز کسی باجے کی بھی نہیں سنی ۔ اوبی کے معنی حبشی زبان میں یہ ہیں کہ تسبیح بیان کرو ۔ لیکن ہمارے نزدیک اس میں مزید غور کی ضرورت ہے لغت عرب میں یہ لفظ ترجیع کے معنی میں موجود ہے ۔ پس پہاڑوں کو اور پرندوں کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ حضرت داؤد کی آواز کے ساتھ اپنی آواز بھی ملا لیا کریں ۔ تاویب کے ایک معنی دن کو چلنے کے بھی آتے ہیں ۔ جیسے سری کے معنی رات کو چلنے کے ہیں لیکن یہ معنی بھی یہاں کچھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتا یہاں تو یہی مطلب ہے کہ داؤد کی تسبیح کی آواز میں تم بھی آواز ملا کر خوش آوازی سے رب کی حمد بیان کرو ۔ اور فضل ان پر یہ ہوا کہ ان کیلئے لوہا نرم کردیا گیا نہ انہیں لوہے کی بھٹی میں ڈالنے کی ضرورت نہ ہتھوڑے مارنے کی حاجت ہاتھ میں آتے ہی ایسا ہو جاتا تھا جیسے دھاگے ، اب اس لوہے سے بفرمان اللہ آپ زرہیں بناتے تھے ۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے زرہ آپ ہی نے ایجاد کی ہے ۔ ہر روز صرف ایک زرہ بناتے اس کی قیمت چھ ہزار لوگوں کے کھلانے پلانے میں صرف کردیتے ۔ زرہ بنانے کی ترکیب خود اللہ کی سکھائی ہوئی تھی کہ کڑیاں ٹھیک ٹھیک رکھیں حلقے چھوٹے نہ ہوں کہ ٹھیک نہ بیٹھیں بہت بڑے نہ ہوں کہ ڈھیلا پن رہ جائے بلکہ ناپ تول اور صحیح انداز سے حلقے اور کڑیاں ہوں ۔ ابن عساکر میں ہے حضرت داؤد علیہ السلام بھیس بدل کر نکلا کرتے اور رعایا کے لوگوں سے مل کر ان سے اور باہر کے آنے جانے والوں سے دریافت فرماتے کہ داؤد کیسا آدمی ہے؟ لیکن ہر شخص کو تعریفیں کرتا ہوا ہی پاتے ۔ کسی سے کوئی بات اپنی نسبت قابل اصلاح نہ سنتے ۔ ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو انسانی صورت میں نازل فرمایا ۔ حضرت داؤد کی ان سے بھی ملاقات ہوئی تو جیسے اوروں سے پوچھتے تھے ان سے بھی سوال کیا انہوں نے کہا کہ داؤد ہے تو اچھا آدمی اگر ایک کمی اسمیں نہ ہوتی تو کامل بن جاتا ۔ آپ نے بڑی رغبت سے پوچھا کہ وہ کیا ؟ فرمایا وہ اپنا بوجھ مسلمانوں کے بیت المال پر ڈالے ہوئے ہیں خود بھی اسی میں سے لیتا ہے اور اپنی اہل و عیال کو بھی اسی میں سے کھلاتا ہے ۔ حضرت داؤد علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ شخص ٹھیک کہتا ہے اسی وقت جناب باری کی طرف جھک پڑے اور گریہ و زاری کے ساتھ دعائیں کرنے لگے کہ اللہ مجھے کوئی کام کاج ایسا سکھا دے جس سے میرا پیٹ بھر جایا کرے ۔ کوئی صنعت اور کاریگری مجھے بتا دے جس سے میں اتنا حاصل کرلیا کروں کہ وہ مجھے اور میرے بال بچوں کو کافی ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زرہیں بنانا سکھائیں اور پھر اپنی رحمت سے لوہے کو ان کیلئے بالکل نرم کردیا ۔ سب سے پہلے زرہیں آپ نے ہی بنائی ہیں ۔ ایک زرہ بناکر فروخت فرماتے اور اس کی قیمت کے تین حصے کرلیتے ایک اپنے کھانے پینے وغیرہ کیلئے ایک صدقے کیلئے ایک رکھ چھوڑنے کیلئے تاکہ دوسری زرہ بنانے تک اللہ کے بندوں کو دیتے رہیں ۔ حضرت داؤد کو جو نغمہ دیا گیا تھا وہ تو محض بےنظیر تھا اللہ کی کتاب زبور پڑھنے کو بیٹھتے ۔ آواز نکلتے ہی چرند پرند صبر و سکون کے ساتھ محویت کے عالم میں آپ کی آواز سے متاثر ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول ہو جاتے ۔ سارے باجے شیاطین نے نغمہ داؤدی سے نکالے ہیں ۔ آپ کی بےمثل خوش آوازی کی یہ چڑاؤنی جیسی نقلیں ہیں ۔ اپنی نعمتوں کو بیان فرما کر حکم دیتا ہے کہ اب تمہیں بھی چاہئے کہ نیک اعمال کرتے رہو ۔ میرے فرمان کے خلاف نہ کرو ۔ یہ بہت بری بات ہے کہ جس کے اتنے بڑے اور بےپایاں احسان ہوں ۔ اس کی فرمانبرداری ترک کردی جائے ۔ میں تمہارے اعمال کا نگران ہوں ۔ تمہارا کوئی عمل چھوٹا بڑا نیک بد مجھ سے پوشیدہ نہیں ۔