Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قُلۡ مَنۡ يَّرۡزُقُكُمۡ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ قُلِ اللّٰهُ ۙ وَ اِنَّاۤ اَوۡ اِيَّاكُمۡ لَعَلٰى هُدًى اَوۡ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿24﴾
پوچھئے کہ تمہیں آسمانوں اور زمین سے روزی کون پہنچاتا ہے؟ ( خود ) جواب دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ ۔ ( سنو ) ہم یا تم ۔ یا تو یقیناً ہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی میں ہیں؟
قل من يرزقكم من السموت و الارض قل الله و انا او اياكم لعلى هدى او في ضلل مبين
Say, "Who provides for you from the heavens and the earth?" Say, " Allah . And indeed, we or you are either upon guidance or in clear error."
Poochiye kay tumhen aasmano aur zamin say rozi kaun phonchata hai? ( khud ) jawab dijiye! Kay Allah Taalaa. ( suno ) hum ya tum. Ya to yaqeenan hodayat per hain ya khulli gumrahi mein hain?
کہو کہ کون ہے جو تمہیں آسمانوں سے اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کہو : وہ اللہ ہے ! اور ہم ہوں یا تم ، یا تو ہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔
تم فرماؤ کون جو تمہیں روزی دیتا ہے آسمانوں اور زمین سے ( ف۷۰ ) تم خود ہی فرماؤ اللہ ( ف۷۱ ) اور بیشک ہم یا تم ( ف۷۲ ) یا تو ضرور ہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی میں ( ف۷۳ )
۔ ( اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ) ان سے پوچھو ، کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے ’‘؟ کہو اللہ 42 ۔ اب لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے 43 ۔
آپ فرمائیے: تمہیں آسمانوں اور زمین سے روزی کون دیتا ہے ، آپ ( خود ہی ) فرما دیجئے کہ اللہ ( دیتا ہے ) ، اور بیشک ہم یا تم ضرور ہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی میں
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :42 سوال اور جواب کے درمیان ایک لطیف خلا ہے ۔ مخاطب مشرکین تھے جو صرف یہی نہیں کہ اللہ کی ہستی کے منکر نہ تھے بلکہ یہ بھی جانتے تھے کہ رزق کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں ۔ مگر اس کے باوجود وہ دوسروں کو خدائی میں شریک ٹھہراتے تھے ۔ اب جو ان کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ بتاؤ کون تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے ، تو وہ مشکل میں پڑ گئے ۔ اللہ کے سوا کسی کا نام لیتے ہیں تو خود اپنے اور اپنی قوم کے عقیدے کے خلاف بات کہتے ہیں ۔ ہٹ دھرمی کی بنا پر ایسی بات کہہ بھی دیں تو ڈرتے ہیں کہ خود اپنی قوم کے لوگ ہی اس کی تردید کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ اور اگر تسلیم کر لیتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے تو فوراً دوسرا سوال یہ سامنے آ جاتا ہے کہ پھر یہ دوسرے کس مرض کی دوا ہیں جنہیں تم نے خدا بنا رکھا ہے؟ رزق تو دے اللہ ، اور پوجے جائیں یہ ، آخر تمہاری عقل کہاں ماری گئی ہے کہ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ۔ اس دو گونہ مشکل میں پڑ کر وہ دم بخود رہ جاتے ہیں ۔ نہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے ۔ نہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی دوسرا معبود رازق ہے ۔ پوچھنے والا جب دیکھتا ہے کہ یہ لوگ کچھ نہیں بولتے ، تو وہ خود اپنے سوال کا جواب دیتا ہے کہ اللہ ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :43 اس فقرے میں حکمت تبلیغ کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے ۔ اوپر کے سوال و جواب کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ جو اللہ ہی کی بندگی و پرستش کرتا ہے وہ ہدایت پر ہو اور جو اس کے سوا دوسروں کی بندگی بجا لاتا ہے وہ گمراہی میں مبتلا ہو ۔ اس بنا پر بظاہر تو اس کے بعد کہنا یہ چاہیے تھا کہ ہم ہدایت پر ہیں اور تم گمراہ ہو ۔ لیکن اس طرح دو ٹوک بات کہہ دینا حق گوئی کے اعتبار سے خواہ کتنا ہی درست ہوتا حکمت تبلیغ کے لحاظ سے درست نہ ہوتا ۔ کیونکہ جب کسی شخص کو مخاطب کر کے آپ صاف صاف گمراہ کہہ دیں اور خود اپنے برسر ہدایت ہونے کا دعویٰ کریں تو وہ ضد میں مبتلا ہو جائے گا اور سچائی کے لیے اس کے دل کے دروازے بند ہو جائیں گے ۔ اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چونکہ مجرد حق گوئی کے لیے نہیں بھیجے جاتے بلکہ ان کے سپرد یہ کام بھی ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ حکیمانہ طریقے سے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کریں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے نبی ، اس سوال و جواب کے بعد اب تم ان لوگوں سے صاف کہہ دو کہ تم سب گمراہ ہو اور ہدایت پر صرف ہم ہیں ۔ اس کے بجائے تلقین یہ فرمائی گئی کہ انہیں اب یوں سمجھاؤ ۔ ان سے کہو ہمارے اور تمہارے درمیان یہ فرق تو کھل گیا کہ ہم اسی کو معبود مانتے جو رزق دینے والا ہے ، اور تم ان کو معبود بنا رہے ہو جو رزق دینے والے نہیں ہیں ۔ اب یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ہم اور تم دونوں بیک وقت راہ راست پر ہوں ۔ اس صریح فرق کے ساتھ تو ہم میں سے ایک ہی راہ راست پر ہو سکتا ہے ، اور دوسرا لامحالہ گمراہ ٹھہرتا ہے ۔ اس کے بعد یہ سوچنا تمہارا اپنا کام ہے کہ دلیل کے برسر ہدایت ہونے کا فیصلہ کر رہی ہے اور کون اس کی رو سے گمراہ ہے ۔
اللہ عزوجل کی صفات ۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ صرف وہی خالق و رازق ہے اور صرف وہی الوہیت والا ہے ۔ جیسے ان لوگوں کو اس کا اقرار ہے کہ آسمان سے بارشیں برسانے والا اور زمینوں سے اناج اگانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ایسے ہی انہیں یہ بھی مان لینا چاہئے کہ عبادت کے لائق بھی فقط وہی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جب ہم تم میں اتنا بڑا اختلاف ہے تو لامحالہ ایک ہدایت پر اور دوسرا ضلالت پر ہے نہیں ہو سکتا کہ دونوں فریق ہدایت پر ہوں یا دونوں ضلالت پر ہوں ۔ ہم موحد ہیں اور توحید کے دلائل کھلم کھلا ہیں اور واضح ہم بیان کر چکے ہیں اور تم شرک پر ہو جس کی کوئی دلیل تمہارے پاس نہیں ۔ پس یقینا ہم ہدایت پر اور یقینا تم ضلالت پر ہو ۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں سے ہی کہا تھا کہ ہم فریقین میں سے ایک ضرور سچا ہے ۔ کیونکہ اس قدر تضاد و تباین کے بعد دونوں کا سچا ہونا تو عقلاً محال ہے ۔ اس آیت کے ایک معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ ہم ہی ہدات پر اور تم ضلالت پر ہو ، ہمارا تمہارا بالکل کوئی تعلق نہیں ۔ ہم تم سے اور تمہارے اعمال سے بری الذمہ ہیں ۔ ہاں جس راہ ہم چل رہے ہیں اسی راہ پر تم بھی آ جاؤ تو بیشک تم ہمارے ہو اور ہم تمہارے ہیں ورنہ ہم تم میں کوئی تعلق نہیں اور ایک آیت میں بھی ہے کہ اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے ساتھ ہے اور تمہارا عمل تمہارے ساتھ ہے ، تم میرے اعمال سے چڑتے ہو اور میں تمہارے کرتوت سے بیزار ہوں ۔ سورہ ( قل یاایھا الکفرون ) الخ ، میں بھی اسی بےتعلقی اور برات کا ذکر ہے ، رب العالمین تمام عالم کو میدان قیامت میں اکٹھا کر کے سچے فیصلے کر دے گا ۔ نیکوں کو ان کی جزا اور بدوں کو ان کی سزا دے گا ۔ اس دن تمہیں ہماری حقانیت و صداقت معلوم ہو جائے گی ۔ جیسے ارشاد ہے ( وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَفَرَّقُوْنَ 14؀ ) 30- الروم:14 ) قیامت کے دن سب جدا جدا ہو جائیں گے ۔ ایماندار جنت کے پاک باغوں میں خوش وقت و فرحان ہوں گے اور ہماری آیتوں اور آخرت کے دن کو جھٹلانے والے ، کفر کرنے والے ، دوزخ کے گڑھوں میں حیران و پریشان ہوں گے ۔ وہ حاکم و عادل ہے ، حقیقت حال کا پورا عالم ہے ، تم اپنے ان معبودوں کو ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ ۔ لیکن کہاں سے ثبوت دے سکو گے ۔ جبکہ میرا رب لانظیر ، بےشریک اور عدیم المثیل ہے ، وہ اکیلا ہے ، وہ ذی عزت ہے جس نے سب کو اپنے قبضے میں کر رکھا ہے اور ہر ایک پر غالب آ گیا ہے ۔ حکیم ہے اپنے اقوال و افعال میں ۔ اس طرح شریعت اور تقدیر میں بھی برکتوں والا بلندیوں والا پاک منزہ اور مشرکوں کی تمام تہمتوں سے الگ ہے ۔