Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيۡرًا وَّنَذِيۡرًا وَّلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿28﴾
ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ہاں مگر ( یہ صحیح ہے ) کہ لوگوں کی اکثریت بے علم ہے ۔
و ما ارسلنك الا كافة للناس بشيرا و نذيرا و لكن اكثر الناس لا يعلمون
And We have not sent you except comprehensively to mankind as a bringer of good tidings and a warner. But most of the people do not know.
Hum ney aap ko tamam logon kay liye khushkhabriyan sunaney wala aur aur daraney wala bana ker bheja hai haan magar ( yeh sahih hai ) kay logon ki aksariyat bey ilm hai.
اور ( اے پیغمبر ) ہم نے تمہیں سارے ہی انسانوں کے لیے ایسا رسول بنا کر بھیجا ہے جو خوشخبری بھی سنائے اور خبردار بھی کرے ، لیکن اکثر لوگ سمجھ نہیں رہے ہیں ۔
اور اے محبوب! ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے ( ف۷۸ ) خوشخبری دیتا ( ف۷۹ ) اور ڈر سناتا ( ف۸۰ ) لیکن بہت لوگ نہیں جانتے ( ف۸۱ )
اور ( اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں47 ۔
اور ( اے حبیبِ مکرّم! ) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ ( آپ ) پوری انسانیت کے لئے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :47 یعنی تم صرف اسی شہر ، یا اسی ملک ، یا اسی زمانے کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کے لیے اور ہمیشہ کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہو ۔ مگر یہ تمہارے ہم عصر اہل وطن تمہاری قدر و منزلت کو نہیں سمجھتے اور ان کو احساس نہیں ہے کہ کیسی عظیم ہستی کی بعثت سے ان کو نوازا گیا ہے ۔ یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنے ملک یا اپنے زمانے کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک پوری نوع بشری کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیں ، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے ۔ مثلاً: وَاُحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا القرآنُ لِاُنْذِرَکُم بِہ وَمَنْ بَلَغَ ( لانعام 197 ) اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو متنبہ کروں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے ۔ قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً ( الاعراف ۔ 158 ) اے نبی کہہ دو کہ اے انسانو ، میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃ لِّلعٰلَمِیْنَ ( الانبیاء ۔ 107 ) اور اے نبی ، ہم نے نہیں بھیجا تم کو مگر تمام ایمان والوں کے لیے رحمت کے طور پر ۔ تَبٰرَ کَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً ۔ ( الفرقان ۔ 1 ) بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہان والوں کے لیے متنبہ کرنے والا ہو ۔ یہی مضمون نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی بہت سی احادیث میں مختلف طریقوں سے بیان فرمایا ہے ۔ مثلاً: بُعِثْتُ اِلَی الْاَحْمَرِ وَالْاَسْوَدِ ( مسند احمد ، مرویات ابو موسیٰ اشعری ) میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ امّا انا فارسلتُ الی الناس کلھم عامۃ وکان من قبلی انما یُرْسَلُ الیٰ قومہ ( مسند احمد ، مرویات عبداللہ بن عمرو بن عاص ) میں عمومیت کے ساتھ تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ حالانکہ مجھ سے پہلے جو نبی بھی گزرا ہے وہ اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا ۔ وکان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ ( بخاری و مسلم ، من حدیث جابر بن عبداللہ ) پہلے ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام انسانوں کے لیے مبعوث ہوا ہوں ۔ بعثت انا والساعۃ کھاتین یعنی اصبعین ۔ ( بخاری و مسلم ) میری بعثت اور قیامت اس طرح ہیں ، یہ فرماتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیاں اٹھائیں ۔ مطلب یہ تھا کہ جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی تیسری انگلی حائل نہیں ہے اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان بھی کوئی نبوت نہیں ہے ۔ میرے بعد بس قیامت ہی ہے اور قیامت تک میں ہی نبی رہنے والا ہوں ۔
تمام اقوام کے لئے نبوت ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ ہم نے تجھے تمام کائنات کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا ١٥٨؁ ) 7- الاعراف:158 ) یعنی اعلان کر دو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور آیت میں ہے ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا Ǻ۝ۙ ) 25- الفرقان:1 ) بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان کو ہوشیار کر دے ۔ یہ بھی فرمایا کہ اطاعت گذاروں کو بشارت جنت کی دے اور نافرمانوں کو خبر جہنم کی ۔ لیکن اکثر لوگ اپنی جہالت سے نبی کی نبوت کو نہیں مانتے جیسے فرمایا ( وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ١٠٣؁ ) 12- یوسف:103 ) گو تو ہر چند چاہے تاہم اکثر لوگ بے ایمان رہیں گے ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا اگر بڑی جماعت کی بات مانے گا تو وہ خود تجھے راہ راست سے ہٹا دیں گے ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام لوگوں کی طرف تھی ۔ عرب عجم سب کی طرف سے اللہ کو زیادہ پیارا وہ ہے جو سب سے زیادہ اس کا تابع فرمان ہو ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان والوں اور نبیوں پر غرض سب پر فضیلت دی ہے ۔ لوگوں نے اس کی دلیل دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو قرآن فرماتا ہے کہ ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا ۔ تاکہ وہ اس میں کھلم کھلا تبلیغ کر دے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے عام لوگوں کی طرف اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا ۔ بخاری مسلم میں فرمان رسالت مآب ہے کہ مجھے پانچ صفتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دی گیں ۔ مہینہ بھر کی راہ تک میری مدد صرف رعب سے کی گئی ہے ۔ میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاک بنائی گئی ہے ۔ میری امت میں سے جس کسی کو جس جگہ نماز کا وقت آ جائے وہ اسی جگہ نماز پڑھ لے ۔ مجھ سے پہلے کسی نبی کے لئے غنیمت کا مال حلال نہیں کیا گیا تھا ۔ میرے لئے غنیمت حلال کر دی گئی ۔ مجھے شفاعت دی گئی ۔ ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا اور حدیث میں ہے سیاہ و سرخ سب کی طرف میں نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ یعنی جن وانس عرب و عجم کی طرف ، پھر کافروں کا قیامت کو محال ماننا بیان ہو رہا ہے کہ پوچھتے ہیں قیامت کب آئے گی؟ جیسے اور جگہ ہے بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور با ایمان اس سے کپکپا رہے ہیں اور اسے حق جانتے ہیں ۔ جواب دیتا ہے کہ تمہارے لئے وعدے کا دن مقرر ہو چکا ہے جس میں تقدیر و تاخیر ، کمی و زیادتی ناممکن ہے ۔ جیسے فرمایا ( اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاۗءَ لَا يُؤَخَّرُ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ Ć۝ ) 71-نوح:4 ) اور فرمایا ( وَمَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ ١٠٤؀ۭ ) 11-ھود:104 ) یعنی وہ مقررہ وقت پیچھے ہٹنے کا نہیں ۔ تمہیں اس وقت مقررہ وقت تک ڈھیل ہے جب وہ دن آ گیا پھر تو کوئی لب بھی نہ ہلا سکے گا اس دن بعض نیک بخت ہوں گے اور بعض بدبخت ۔