Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قُلۡ اِنَّ رَبِّىۡ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ لَهٗ ؕ وَمَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَهُوَ يُخۡلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ‏ ﴿39﴾
کہہ دیجئے! کہ میرا رب اپنے بندوں میں جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کرتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ کر دیتا ہے تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس کا ( پورا پورا ) بدلہ دے گا اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے ۔
قل ان ربي يبسط الرزق لمن يشاء من عباده و يقدر له و ما انفقتم من شيء فهو يخلفه و هو خير الرزقين
Say, "Indeed, my Lord extends provision for whom He wills of His servants and restricts [it] for him. But whatever thing you spend [in His cause] - He will compensate it; and He is the best of providers."
Keh dijiye! kay mera rab apnay bandon mein jiss kay liye chahaye rozi kushada kerta hai aur jiss kay liye chahata hai tang ker deta hai tum jo kuch bhi Allah ki raah mein kharach kero gay Allah uss ka ( poora poora ) badla dey ga aur woh sab say behtar rozi denay wala hai.
کہہ دو کہ : میرا پروردگار اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کی فراوانی کردیتا ہے ، اور ( جس کے لیے چاہتا ہے ) تنگی کردیتا ہے ۔ اور تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو وہ اس کی جگہ اور چیز دے دیتا ہے ، اور وہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے ۔
تم فرماؤ بیشک میرا رب رزق وسیع فرماتا ہے اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہے اور تنگی فرماتا ہے جس کے لیے چاہے ( ف۱۰۱ ) اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا ( ف۱۰۲ ) اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ( ف۱۰۳ )
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ان سے کہو ، میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے 59 ۔ جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے ، وہ سب رازقوں سے بہتر رازق ہے 60 ۔
فرما دیجئے: بیشک میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رِزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لئے ( چاہتا ہے ) تنگ کر دیتا ہے ، اور تم ( اﷲ کی راہ میں ) جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو وہ اس کے بدلہ میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رِزق دینے والا ہے
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :59 اس مضمون کو بتکرار بیان کرنے سے مقصود اس بات پر زور دینا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتی ہے جبکہ اس کی رضا سے ۔ مشیت الہٰی کے تحت اچھے اور برے ہر طرح کے انسانوں کو رزق مل رہا ہے ۔ خدا کا اقرار کرنے والے بھی رزق پا رہے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی ۔ نہ رزق کی فراوانی اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی خدا کا پسندیدہ بندہ ہے ، اور نہ اس کی تنگی اس امر کی علامت ہے کہ آدمی اس کا مغضوب ہے ۔ مشیت کے تحت ایک ظالم اور بے ایمان آدمی پھلتا پھولتا ہے ، حالانکہ ظلم اور بے ایمانی خدا کو پسند نہیں ہے ۔ اور اس کے برعکس مشیت ہی کے تحت ایک سچا اور ایمان دار آدمی نقصان اٹھاتا اور تکلیفیں سہتا ہے ، حالانکہ یہ صفات خدا کو پسند ہیں ۔ لہٰذا وہ شخص گمراہ ہے جو مادی فوائد و منافع کو خیر و شر کا پیمانہ قرار دیتا ہے ۔ اصل چیز خدا کی رضا ہے اور وہ ان اخلاقی اوصاف سے حاصل ہوتی ہے جو خدا کو محبوب ہیں ۔ ان اوصاف کے ساتھ اگر کسی کو دنیا کی نعمتیں حاصل ہوں تو یہ بلاشبہ خدا کا فضل ہے جس پر شکر ادا کرنا چاہیے ۔ لیکن اگر ایک شخص اخلاقی اوصاف کے لحاظ سے خدا کا باغی و نافرمان بندہ ہو اور اس کے ساتھ دنیا کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سخت باز پرس اور بدترین عذاب کے لیے تیار ہو رہا ہے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :60 رازق ، صانع ، موجِد ، مُعطی اور ایسی ہی دوسری بہت سی صفات ایسی ہیں جو اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں مگر مجازاً بندوں کی طرف بھی منسوب ہو جاتی ہیں ۔ مثلاً ہم ایک شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے فلاں شخص کے روزگار کا بندوبست کر دیا ، یا اس نے یہ عطیہ دیا ، یا اس نے فلاں چیز بنائی یا ایجاد کی ۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خیر الرازقین کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ یعنی جن جن کے متعلق تم گمان رکھتے ہو کہ وہ روزی دینے والے ہیں ان سب سے بہتر روزی دینے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔