Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قَالُوۡا سُبۡحٰنَكَ اَنۡتَ وَلِيُّنَا مِنۡ دُوۡنِهِمۡۚ بَلۡ كَانُوۡا يَعۡبُدُوۡنَ الۡجِنَّ ۚ اَكۡثَرُهُمۡ بِهِمۡ مُّؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿41﴾
وہ کہیں گے تیری ذات پاک ہے اور ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ یہ بلکہ یہ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے ان میں کے اکثر کا انہی پر ایمان تھا ۔
قالوا سبحنك انت ولينا من دونهم بل كانوا يعبدون الجن اكثرهم بهم مؤمنون
They will say, "Exalted are You! You, [O Allah ], are our benefactor not them. Rather, they used to worship the jinn; most of them were believers in them."
Woh kahen gay teri zaat pak hai aur humara wali to tu hai na kay yeh bulkay yeh log jinno ki ibadat kiya kertay thay inn mein kay aksar ka unhi per eman tha.
وہ کہیں گے کہ : ہم تو آپ کی ذات کی پاکی بیان کرتے ہیں ، ہمارا تعلق آپ سے ہے ، ان لوگوں سے نہیں ۔ دراصل یہ تو جنات کی عبادت کیا کرتے تھے ۔ ( ١٩ ) ان میں سے اکثر لوگ انہی کے معتقد تھے ۔
وہ عرض کریں گے پاکی ہے تجھ کو تو ہمارا دوست ہے نہ وہ ( ف۱۰٦ ) بلکہ وہ جِنوں کو پوجتے تھے ( ف۱۰۷ ) ان میں اکثر انہیں پر یقین لائے تھے ( ف۱۰۸ )
تو وہ جواب دیں گے کہ پاک ہے آپ کی ذات ، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ ان لوگوں سے 62 ۔ دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ جنوں کی عبادت کرتے تھے ، ان میں سے اکثر انہی پر ایمان لائے ہوئے تھے 63 ۔
وہ عرض کریں گے: تو پاک ہے تو ہی ہمارا دوست ہے نہ کہ یہ لوگ ، بلکہ یہ لوگ جنات کی پوجا کیا کرتے تھے ، ان میں سے اکثر اُنہی پر ایمان رکھنے والے ہیں
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :62 یعنی وہ جواب دیں گے کہ حضور کی ذات اس سے منزہ اور بالا تر ہے کہ کوئی دوسرا خدائی و معبودیت میں آپ کا شریک ہو ۔ ہمارا ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں ۔ ہم ان سے اور ان کے افعال سے بری الذمہ ہیں ۔ ہم تو حضور کے بندے ہیں ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :63 اس فقرے میں جن سے مراد شیاطین جن ہیں ۔ فرشتوں کے اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو یہ ہمارے نام لے کر ، اور اپنے تخیلات کے مطابق ہماری صورتیں بنا کر گویا ہماری عبادت کرتے تھے ، لیکن دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ شیا طین کی بندگی کر رہے تھے ، کیونکہ شیاطین ہی نے ان کو یہ راستہ دکھایا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا حاجت روا سمجھو اور ان کے آگے نذر و نیاز پیش کیا کرو ۔ یہ آیت صریح طور پر ان لوگوں کے خیال کی غلطی واضح کر دیتی ہے جو جن کو پہاڑی علاقے کے باشندوں یا دہقانوں اور صحرائیوں کے معنی میں لیتے ہیں ۔ کیا کوئی صاحب عقل آدمی اس آیت کو پڑھ کر یہ تصور کر سکتا ہے کہ لوگ کوہستانی اور صحرائی اور دیہاتی آدمیوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور انہی پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ اس آیت سے عبادت کے بھی ایک دوسرے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت صرف پرستش اور پوجا پاٹ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ کسی کے حکم پر چلنا اور اس کی بے چون و چرا اطاعت کرنا بھی عبادت ہی ہے ۔ حتٰی کہ اگر آدمی کسی پر لعنت بھیجتا ہو ( جیسا کہ شیطان پر بھیجتا ہے ) اور پھر بھی پیروی اسی کے طریقے کی کیے جا رہا ہو تب بھی وہ اس کی عبادت کا مرتکب ہے ۔ اس کی دوسری مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، ص 398 ۔ 484 ۔ جلد دوم ، ص 189 ۔ 190 ۔ جلد سوم ، ص 69 ۔ 656 ۔