Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قُلۡ اِنَّمَاۤ اَعِظُكُمۡ بِوَاحِدَةٍ ۚ اَنۡ تَقُوۡمُوۡا لِلّٰهِ مَثۡنٰى وَفُرَادٰى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوۡا مَا بِصَاحِبِكُمۡ مِّنۡ جِنَّةٍ ؕ اِنۡ هُوَ اِلَّا نَذِيۡرٌ لَّـكُمۡ بَيۡنَ يَدَىۡ عَذَابٍ شَدِيۡدٍ‏ ﴿46﴾
کہہ دیجئے! کہ میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے واسطے ( ضد چھوڑ کر ) دو دو مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر سوچو تو سہی ، تمہارے اس رفیق کو کوئی جنون نہیں وہ تو تمہیں ایک بڑے ( سخت ) عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے ۔
قل انما اعظكم بواحدة ان تقوموا لله مثنى و فرادى ثم تتفكروا ما بصاحبكم من جنة ان هو الا نذير لكم بين يدي عذاب شديد
Say, "I only advise you of one [thing] - that you stand for Allah , [seeking truth] in pairs and individually, and then give thought." There is not in your companion any madness. He is only a warner to you before a severe punishment.
Keh dijiye! kay mein tumhen sirf aik hi baat ki naseehat kerta hun kay tum Allah kay wastay ( zidd chor ker ) do do mill ker ya tanha kharay hoker socho to sahi tumharay iss rafiq ko koi janoon nahi woh to tumhen aik baray ( sakht ) azab kay aaney say pehlay daraney wala hai.
۔ ( اے پیغمبر ) ان سے کہو کہ : میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ تم چاہے دو دو مل کر اور چاہے اکیلے اکیلے اللہ کی خاطر اٹھ کھڑے ہو ۔ ( ٢١ ) پھر ( انصاف سے ) سوچو ( توفورا سمجھ میں آجائے گا کہ ) تمہارے اس ساتھی ( یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) میں جنون کی کوئی بات بھی تو نہیں ہے ۔ وہ تو ایک سخت عذاب کے آنے سے پہلے تمہیں خبردار کررہے ہیں ۔
تم فرماؤ میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں ( ف۱۲۰ ) کہ اللہ کے لیے کھڑے رہو ( ف۱۲۱ ) دو دو ( ف۱۲۲ ) اور اکیلے اکیلے ( ف۱۲۳ ) پھر سوچو ( ف۱۲٤ ) کہ تمہارے ان صاحب میں جنون کی کوئی بات نہیں ، وہ تو نہیں مگر نہیں مگر تمہیں ڈر سنانے والے ( ف۱۲۵ ) ایک سخت عذاب کے آگے ( ف۱۲٦ )
اے نبی ، ان سے کہو کہ میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں ۔ خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر اپنا دماغ لڑاؤ اور سوچو ، تمہارے صاحب میں آخر ایسی کونسی بات ہے جو جنون کی ہو؟ 66 ۔ وہ تو ایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنبہ کرنے والا ہے 67
فرما دیجئے: میں تمہیں بس ایک ہی ( بات کی ) نصیحت کرتا ہوں کہ تم اﷲ کے لئے ( روحانی بیداری اور انتباہ کے حال میں ) قیام کرو ، دو دو اور ایک ایک ، پھر تفکّر کرو ( یعنی حقیقت کا معاینہ اور مراقبہ کرو تو تمہیں مشاہدہ ہو جائے گا ) کہ تمہیں شرفِ صحبت سے نوازنے والے ( رسولِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہرگز جنون زدہ نہیں ہیں وہ تو سخت عذاب ( کے آنے ) سے پہلے تمہیں ( بروقت ) ڈر سنانے والے ہیں ( تاکہ تم غفلت سے جاگ اٹھو )
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :66 یعنی اغراض اور خواہشات سے پاک ہو کر خالصتہ لِلہ غور کرو ۔ ہر شخص الگ الگ بھی نیک نیتی کے ساتھ سوچے اور دو دو چار چار آدمی سر جوڑ کر بھی بے لاگ طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ بحث کر کے تحقیق کریں کہ آخر وہ کیا بات ہے جس کی بنا پر آج تم اس شخص کو مجنون ٹھہرا رہے ہو جسے کل تک تم اپنے درمیان نہایت دانا آدمی سمجھتے تھے ۔ آخر نبوت سے تھوڑی ہی مدت پہلے کا تو واقعہ تھا کہ تعمیر کعبہ کے بعد حجر اسود نصب کرنے کے مسئلے پر جب قبائل قریش باہم لڑ پڑے تھے تو تم ہی لوگوں نے بالاتفاق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تسلیم کیا تھا اور انہوں نے ایسے طریقے سے اس جھگڑے کو چکایا تھا جس پر تم سب مطمئن ہو گئے تھے ۔ جس شخص کی عقل و دانش کا یہ تجربہ تمہاری ساری قوم کو ہو چکا ہے ، اب کیا بات ایسی ہو گئی کہ تم اسے مجنون کہنے لگے؟ ہٹ دھرمی کی تو بات ہی دوسری ہے ، مگر کیا واقعی تم اپنے دلوں میں بھی وہی کچھ سمجھتے ہو جو اپنی زبانوں سے کہتے ہو؟ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :67 یعنی کیا یہی وہ قصور ہے جس کی بنا پر تم اسے جنون کا مریض ٹھہراتے ہو؟ کیا تمہارے نزدیک عقلمند وہ ہے جو تمہیں تباہی کے راستے پر جاتے دیکھ کر کہے کہ شاباش ، بہت اچھے جا رہے ہو ، اور مجنون وہ ہے جو تمہیں برا وقت آنے سے پہلے خبردار کرے اور فساد کی جگہ صَلاح کی راہ بتائے ۔
ضد اور ہٹ دھرمی کفار کا شیوہ ۔ حکم ہوتا ہے کہ یہ کافر جو تجھے مجنوں بتا رہے ہیں ، ان سے کہہ کہ ایک کام تو کرو خلوص کے ساتھ تعصب اور ضد کو چھوڑ کر ذرا سی دیر سوچو تو آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرو کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجنوں ہیں؟ اور ایمانداری سے ایک دوسرے کو جواب دو ۔ ہر شخص تنہا تنہا بھی غور کرے اور دوسروں سے بھی پوچھے لیکن یہ شرط ہے کہ ضد اور ہٹ کو دماغ سے نکال کر تعصب اور ہٹ دھرمی چھڑ کر غور کرے ۔ تمہیں خود معلوم ہو جائے گا ، تمہارے دل سے آواز اٹھے گی کہ حقیقت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جنون نہیں ۔ بلکہ وہ تم سب کے خیر خواہ ہیں درد مند ہیں ۔ ایک آنے والے خطرے سے جس سے تم بےخبر ہو وہ تمہیں آگاہ کر رہے ہیں ۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے تنہا اور جماعت سے نماز پڑھنے کا مطلب سمجھا ہے اور اس کے ثبوت میں ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں لکین وہ حدیث ضعیف ہے ۔ اس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تین چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی یہ میں فخر کے طور پر نہیں کہ رہا ہوں ۔ میرے لئے مال غنیمت حلال کیا گیا مجھ سے پہلے کسی کے لئے وہ حلال نہیں ہوا وہ مال غنیمت کو جمع کر کے جلا دیتے تھے اور میں ہر سرخ و سیاہ کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ہر نبی صرف اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا ۔ میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو کی چیز بنا دی گئی ہے ۔ تاکہ میں اس کی مٹی سے تیمم کرلوں اور جہاں بھی ہوں اور نماز کا وقت آ جائے نماز ادا کرلوں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کے سامنے با ادب کھڑے ہو جایا کرو دو دو اور ایک ایک اور ایک مہینہ کی راہ تک میری مدد صرف رعب سے کی گئی ہے ۔ یہ حدیث سندا ضعیف ہے اور بہت ممکن ہے کہ اس میں آیت کا ذکر اور اسے جماعت سے یا الگ نماز پڑھ لینے کے معنی میں لے لینا یہ راوی کا اپنا قول ہو اور اس طرح بیان کر دیا گیا ہو کہ بہ ظاہر وہ الفاظ حدیث کے معلوم ہوتے ہیں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات کی حدیثیں بہ سند صحیح بہت سے مروی ہیں اور کسی میں بھی یہ الفاظ نہیں ، واللہ اعلم ۔ آپ لوگوں کو اس عذاب سے ڈرانے والے ہیں جو ان کے آگے ہے اور جس سے یہ بالکل بےخبر بےفکری سے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور عرب کے دستور کے مطابق یا صباحاہ کہہ کر بلند آواز کی جو علامت تھی کہ کوئی شخص کسی اہم بات کے لئے بلا رہا ہے ۔ عادت کے مطابق اسے سنتے ہی لوگ جمع ہوگئے ۔ آپ نے فرمایا اگر میں تمہیں خبر دوں کہ دشمن تمہاری طرف چڑھائی کر کے چلا آرہا ہے اور عجب نہیں کہ صبح شام ہی تم پر حملہ کر دے تو کیا تم مھے سچا سمجھو گے؟ سب نے بیک زبان جواب دیا کہ ہاں بیشک ہم آپ کو سچا جانیں گے ۔ آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اس عذاب سے ڈرا رہا ہوں جو تمہارے آگے ہے ۔ یہ سن کر ابو لہب ملعون نے کہا تیرے ہاتھ ٹوٹیں کیا اسی کے لئے تو نے ہم سب کو جمع کیا تھا ؟ اس پر سورہ تبت اتری ۔ یہ حدیثیں ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ٢١٤؀ۙ ) 26- الشعراء:214 ) کی تفسیر میں گذر چکی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلے اور ہمارے پاس آ کر تین مرتبہ آواز دی ۔ فرمایا لوگو! میری اور اپنی مثال جانتے ہو؟ انہوں نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا علم ہے ۔ آپ نے فرمایا میری اور تمہاری مثال اس قوم جیسی ہے جن پر دشمن حملہ کرنے والا تھا ۔ انہوں نے اپنا آدمی بھیجا کہ جا کر دیکھے اور دشمن کی نقل و حرکت سے انہیں مطلع کرے ۔ اس نے جب دیکھا کہ دشمن ان کی طرف چلا آ رہا ہے اور قریب پہنچ چکا ہے تو وہ لپکتا ہوا قوم کی طرف بڑھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے اطلاع پہنچانے سے پہلے ہی دشمن حملہ نہ کر دے ۔ اس لئے اس نے راستے میں سے ہی اپنا کپڑا ہلانا شروع کیا کہ ہوشیار ہو جاؤ دشمن آ پہنچا ، ہوشیار ہو جاؤ دشمن آ پہنچا ، تین مرتبہ یہی کہا ایک اور حدیث میں ہے میں اور قیامت ایک ساتھ ہی بھیجے گئے قریب تھا کہ قیامت مجھ سے پہلے ہی آ جاتی ۔