Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قُلۡ مَا سَاَ لۡـتُكُمۡ مِّنۡ اَجۡرٍ فَهُوَ لَـكُمۡ ؕ اِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ ۚ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ شَهِيۡدٌ‏ ﴿47﴾
کہہ دیجئے! کہ جو بدلہ میں تم سے مانگوں وہ تمہارے لئے ہے میرا بدلہ تو اللہ تعالٰی ہی کے ذمے ہے ۔ وہ ہرچیز سے باخبر اور ( مطلع ) ہے ۔
قل ما سالتكم من اجر فهو لكم ان اجري الا على الله و هو على كل شيء شهيد
Say, "Whatever payment I might have asked of you - it is yours. My payment is only from Allah , and He is, over all things, Witness."
Keh dijiye! kay jo badla mein tum say maangon woh tumharay liye hai mera badla to Allah Taalaa hi kay zimmay hai. Woh her cheez say ba-khabar ( aur mutlaa ) hai.
کہو : میں نے اگر اس بات پر تم سے کوئی اجرت مانگی ہو تو وہ تمہاری ہے ۔ میرا اجر تو اللہ کے سوا کسی کے ذمے نہیں ہے ، اور وہ ہر چیز کا مشاہدہ کرنے والا ہے ۔
تم فرماؤ میں نے تم سے اس پر کچھ اجر مانگا ہو تو وہ تمہیں کو ( ف۱۲۷ ) میرا اجر تو اللہ ہی پر ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے ،
۔ ان سے کہو ، اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تم ہی کو مبارک رہے 68 ۔ میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے 69 ۔
فرما دیجئے: میں نے ( اس اِحسان کا ) جو صلہ تم سے مانگا ہو وہ بھی تم ہی کو دے دیا ، میرا اجر صرف اﷲ ہی کے ذمّہ ہے ، اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :68 اصل الفاظ ہیں مَا سَاَلْتُکُمْ مِنْ اَجْرٍ فَھُوَ لَکُمْ ۔ اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو اوپر ہم نے ترجمہ میں بیان کیا ہے ۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہاری بھلائی کے سوا میں اور کچھ نہیں چاہتا ، میرا اجر بس یہی ہے کہ تم درست ہو جاؤ ۔ اس مضمون کو دوسری جگہ قرآن مجید میں یوں ادا کیا گیا ہے : قُلْ مَآ اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلیٰ رَبِّہ سَبِیْلاً ۔ ( الفرقان 57 ) اے نبی ، ان سے کہو میں اس کام پر تم سے کوئی اجر اس کے سوا نہیں مانگتا کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :69 یعنی الزام لگانے والے جو کچھ چاہیں الزام لگاتے رہیں ، مگر اللہ سب کچھ جانتا ہے ، وہ گواہ ہے کہ میں ایک بے غرض انسان ہوں ، یہ کام اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں کر رہا ہوں ۔
مشرکین کو دعوت اصلاح ۔ حکم ہو رہا ہے کہ مشرکوں سے فرما دیجئے کہ میں جو تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں تمہیں احکام دینی پہنچتا رہا ہوں وعظ و نصیحت کرتا ہوں اس پر میں تم سے کسی بدلے کا طالب نہیں ہوں ۔ بدلہ تو اللہ ہی دے گا جو تمام چیزوں کی حقیقت سے مطلع ہے میری تمہاری حالت اس پر خوب روشن ہے ۔ پھر جو فرمایا اسی طرح کی آیت ( رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ ۚ يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ 15۝ۙ ) 40-غافر:15 ) ، ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے فرمان سے حضرت جبرائیل کو جس پر چاہتا ہے اپنی وحی کے ساتھ بھیجتا ہے ۔ جو حق کے ساتھ فرشتہ اتارتا ہے ۔ وہ علام الغیوب ہے اس پر آسمان و زمین کی کوئی چیز مخفی نہیں ، اللہ کی طرف سے حق اور مبارک شریعت آ چکی ۔ باطل پراگندہ بودا ہو کر برباد ہو گیا ۔ جیسے فرمان ہے ( بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۭ وَلَـكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ 18؀ ) 21- الأنبياء:18 ) ہم باطل پر حق کو نازل فرما کر باطل کے ٹکڑے اڑا دیتے ہیں اور وہ چکنا چور ہو جاتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے دن جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو وہاں کے بتوں کو اپنی کمان کی لکڑی سے گراتے جاتے تھے اور زبان سے فرماتے جاتے تھے ( وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 81؀ ) 17- الإسراء:81 ) حق آ گیا باطل مٹ گیا وہ تھا ہی مٹنے والا ۔ ( بخاری ۔ مسلم ) باطل کا اور ناحق کا دباؤ سب ختم ہو گیا ۔ بعض مفسرین سے مروی ہے کہ مراد یہاں باطل سے ابلیس ہے ۔ یعنی نہ اس نے کسی کو پہلے پیدا کیا نہ آئندہ کر سکے ، نہ مردے کو زندہ کر سکے ، نہ اسے کوئی اور ایسی قدرت حاصل ہے ۔ بات تو یہ بھی سچی ہے لیکن یہاں یہ مراد نہیں ۔ واللہ اعلم ، پھر جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر سب کی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ کی بھیجی ہوئی وحی میں ہے ۔ وہی سراسر حق ہے اور ہدایت و بیان و رشد ہے ۔ گمراہ ہونے والے آپ ہی بگڑ رہے ہیں اور اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب کہ مفوضہ کا مسئلہ دریافت کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا اسے میں اپنی رائے سے بیان کرتا ہوں اگر صحیح ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہے ۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی باتوں کا سننے والا ہے اور قریب ہے ۔ پکارنے والے کی ہر پکار کو ہر وقت سنتا اور قبول فرماتا ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے فرمایا تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ۔ جسے تم پکار رہے ہو وہ سمیع و قریب و مجیب ہے ۔