Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَلَوۡ تَرٰٓى اِذۡ فَزِعُوۡا فَلَا فَوۡتَ وَاُخِذُوۡا مِنۡ مَّكَانٍ قَرِيۡبٍۙ‏ ﴿51﴾
اور اگر آپ ( وہ وقت ) ملاحظہ کریں جبکہ یہ کفار گھبرائے پھریں گے پھر نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہ ہوگی اور قریب کی جگہ سے گرفتار کر لئے جائیں گے ۔
و لو ترى اذ فزعوا فلا فوت و اخذوا من مكان قريب
And if you could see when they are terrified but there is no escape, and they will be seized from a place nearby.
Aur agar aap ( woh waqt ) mulahiza keren jabkay yeh kuffaar ghabraye phiren gay phir nikal bhagney ki koi soorat na hogi aur qareeb ki jaga say giriftar ker liye jayen gay.
۔ ( اے پیغمبر تمہیں ان کی حالت عجیب نظر آئے گی ) اگر تم وہ منظر دیکھو جب یہ گھبرائے پھرتے ہوں گے ، اور بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا ، اور انہیں قریب ہی سے پکڑ لیا جائے گا ۔
اور کسی طرح تو دیکھے ( ف۱۳٤ ) جب وہ گھبراہٹ میں ڈالے جائیں گے پھر بچ کر نہ نکل سکیں گے ( ف۱۳۵ ) اور ایک قریب جگہ سے پکڑ لیے جائیں گے ( ف۱۳٦ )
کاش تم دیکھو انہیں اس وقت جب یہ لوگ گھبرائے پھر رہے ہوں گے اور کہیں بچ کر نہ جا سکیں گے ، بلکہ قریب ہی سے پکڑ لیے جائیں گے 72 ۔
اور اگر آپ ( ان کا حال ) دیکھیں جب یہ لوگ بڑے مضطرب ہوں گے ، پھر بچ نہ سکیں گے اور نزدیکی جگہ سے ہی پکڑ لئے جائیں گے
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :72 یعنی قیامت کے روز ہر مجرم اس طرح پکڑا جائے گا کہ گویا پکڑنے والا قریب ہی کہیں چھپا کھڑا تھا ، ذرا اس نے بھاگنے کی کوشش کی اور فوراً ہی دھر لیا گیا ۔
عذاب قیامت اور کافر ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرما رہا ہے اے نبی کاش کہ آپ ان کافروں کی قیامت کے دن کی گھبراہٹ دیکھتے ۔ کہ ہر چند عذاب سے چھٹکارا چاہیں گے ۔ لیکن بچاؤ کی کوئی صورت نہیں پائیں گے ۔ نہ بھاگ کر ، نہ چھپ کر ، نہ کسی کی حمایت سے ، نہ کسی کی پناہ سے ۔ بلکہ فوراً ہی قریب سے پکڑ لئے جائیں گے ۔ ادھر قبروں سے نکلے ادھر پھانس لئے گئے ۔ ادھر کھڑے ہوئے ادھر گرفتار کر لئے گئے ۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ قتل و اسیر ہوئے ۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ مراد قیامت کے دن کے عذاب ہیں ۔ بعض کہتے ہیں بنو عباس کی خلافت کے زمانے میں مکے مدینے کے درمیان ان لشکروں کا زمین میں دھنسایا جانا مراد ہے ۔ ابن جریر نے اسے بیان کر کے اس کی دلیل میں ایک حدیث وارد کی ہے جو بالکل ہی موضوع اور گھڑی ہوئی یہ ۔ لیکن تعجب سا تعجب ہے کہ امام صاحب نے اس کا موضوع ہونا بیان نہیں کیا ، قیامت کے دن کہیں گے کہ ہم ایمان قبول کرتے ہیں اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ایمان لائے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ؀ ) 32- السجدة:12 ) ، کاش کے تو دیکھتا جبکہ گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں کھڑے ہوں گے اور شرمندگی سے کہہ رہے ہوں گے کہ اللہ نے دیکھ سن لیا ، ہمیں یقین آ گیا ۔ اب تو ہمیں پھر سے دنیا میں بھیج دے تو ہم دل سے مانیں گے ۔ لیکن کوئی شخص جس طرح بہت دور کی چیز کو لینے کے لئے دور سے ہی ہاتھ بڑھائے اور اس کے ہاتھ نہیں آ سکتی ۔ اسی طرح یہی حال ان لوگوں کا ہے کہ آخرت میں وہ کام کرتے ہیں جو دنیا میں کرنا چاہیے تھا ۔ تو آخرت میں ایمان لانا بےسود ہے ۔ اب نہ دنیا میں لوٹائے جائیں نہ اس وقت کی گریہ و زاری ، توبہ و فریاد ، ایمان و اسلام کچھ کام آئے گا ۔ اس سے پہلے دنیا میں تو منکر رہے ۔ نہ اللہ کو مانا نہ رسول پر ایمان لائے نہ قیامت کے قائل ہوئے یونہی جیسے کوئی بن دیکھے اندازے سے ہی نشانے پر تیر بازی کر رہا ہو اسی طرح اللہ کی باتوں کو اپنے گمان سے ہی رد کرتے رہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کاہن کہدیا کبھی شاعر بتا دیا ۔ کبھی جادوگر کہا اور کبھی مجنون ۔ صرف اٹکل پچو کے ساتھ قیامت کو جھٹلاتے رہے اور بےدلیل اداروں کی عبادت کرتے رہے ، جنت دوزخ کا مذاق اڑاتے رہے ، اب ایمان اور ان میں حجاب آ گیا ۔ توبہ میں اور ان میں پردہ پڑ گیا ۔ دنیا ان سے چھوٹ گئی ۔ یہ دنیا سے الگ ہوگئے ۔ ابن ابی حاتم میں یہاں پر ایک عجیب و غریب اثر نقل کیا ہے جسے ہم پورا ہی نقل کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ بنو اسرائیل میں ایک فاتح شخص تھا جس کے پاس مال بہت تھا ۔ جب وہ مر گیا اور اس کا لڑکا اس کا وارث ہوا تو بری طرح نافرمانیوں میں مال لٹانے لگا ۔ اس کے چچاؤں نے اسے ملامت کی اور سمجھایا اس نے غصے میں آ کر سب چیزیں بیچ کر روپیہ لے کر عین شجاجہ کے پاس آ کر ایک محل تعمیر کرا کر یہاں رہنے لگا ۔ ایک روز زور کی آندھی اٹھی جس میں ایک بہت خوبصورت خوشبو دار عورت اس کے پاس آ گری ۔ اس نے اس سے پوچھا تم کون ہو؟ اس نے کہا بنی اسرائیلی شخص ہوں کہا یہ محل اور مال آپ کا ہے؟ اس نے کہا ہاں ۔ پوچھا آپ کی بیوی بھی ہے؟ کہا نہیں ۔ کہا پھر تم اپنی زندگی کا لطف کیا اٹھاتے ہو؟ اب اس نے پوچھا کہ کیا تمہارا خاوند ہے؟ اس نے کا نہیں ۔ کہا پھر مجھے قبول کرو اس نے جواب دیا میں یہاں سے میل بھر دور رہتی ہوں کل تم یہاں سے اپنے ساتھ دن بھر کا کھانا پینا لے کر چلو اور میرے ہاں آؤ ۔ راستے میں کچھ عجائبات دیکھو تو گھبرانا نہیں ۔ اس نے قبول کیا اور دوسرے دن توشہ لے کر چلا ۔ میل بھر دور جا کر ایک نہایت عالی شان محل دیکھا دستک دینے سے ایک خوبصورت نوجوان شخص آیا پوچھا آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ میں بنی اسرائیلی ہوں کہا کیسے آئے ہیں؟ کہا اس مکان کی مالکہ نے بلوایا ہے پوچھا راستے میں کچھ ہولناک چیزیں بھی دیکھیں جواب دیا ہاں اور اگر مجھے یہ کہا ہوا نہ ہوتا کہ گھبرانا مت تو میں ہول و دہشت سے ہلاک ہو گیا ہوتا ۔ میں چلا ایک چوڑے راستے پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک کتیا منہ پھاڑے بیٹھی ہوئی ہے میں گھبرا کر دوڑا تو دیکھا کہ مجھ سے آگے آگے وہ ہے اور اس کے پلے ( بچے ) اس کے پیٹ میں ہیں اور بھونک رہے ہیں ۔ اس نوجوان نے کہا تو اسے نہیں پائے گا یہ تو آخر زمانے میں ہونے والی ایک بات کی مثال تجھے دکھائی گئی ہے کہ ایک نوجوان بوڑھے بڑوں کی مجلس میں بیٹھے گا اور ان سے اپنے راز کی پوشیدہ باتیں کرے گا ۔ میں اور آگے بڑھا تو دیکھا ایک سو بکریاں ہیں جن کے تھن دودھ سے پر ہیں ایک بچہ ہے جو دودھ پی رہا ہے جب دودھ ختم ہو جاتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ اور کچھ باقی نہیں رہا تو وہ منہ کھول دیتا ہے گویا اور مانگ رہا ہے ۔ اس نوجوان دربان نے کہا تو اسے بھی نہیں پائے گا یہ مثال تجھے بتائی گئی ہے ان بادشاہوں کی جو آخر زمانے میں آئیں گے لوگوں سے سونا چاندی گھسیٹیں گے یہاں تک کہ سمجھ لیں گے کہ اب کسی کے پاس کچھ نہیں بچا تو بھی وہ ظلم و زیادتی کر کے منہ پھیلائے رہیں گے ۔ اس نے کہا میں اور آگے بڑھا تو میں نے ایک درخت نہایت ترو تازہ خوش رنگ اور خوش وضع دیکھا میں نے اس کی ایک ٹہنی توڑنی چاہی تو دوسرے درخت سے آواز آئی کہ اے بندہ الٰہی! میری ڈالی توڑ جا پھر تو ہر ایک درخت سے یہی آواز آنے لگی دربان نے کہا تو اسے بھی نہیں پائے گا اس میں اشارہ ہے کہ آخر زمانے میں مردوں کی قلت اور عورتوں کی کثرت ہو جائے گی یہاں تک کہ جب ایک مرد کی طرف سے کسی عورت کو پیغام جائے گا تو دس بیس عورتیں اسے اپنی طرف بلانے لگیں گی ۔ اس نے کہا میں اور آگے بڑھا تو میں نے دیکھا کہ ایک دریا کے کنارے ایک شخص کھڑا ہوا ہے اور لوگوں کو پانی بھر بھر کر دے رہا ہے پھر اپنی مشک میں ڈالتا ہے لیکن اس میں ایک قطرہ بھی نہیں ٹھہرتا ۔ دربان نے کہا تو اسے بھی نہیں پائے گا ۔ اس میں اشارہ ہے کہ آخر زمانے میں ایسے علماء اور واعظ ہوں گے جو لوگوں کو علم سکھائیں گے ۔ بھلی باتیں بتائیں گے ۔ لیکن خود عامل نہیں ہوں گئے ۔ بلکہ خود گناہوں میں مبتلا رہے گے پھر جو میں آگے بڑھا تو میں نے دیکھا کہ ایک بکری کو بعض لوگوں نے تو اس کے پاؤں پکڑ رکھے ہیں ، بعض نے دم تھام رکھی ہے ، بعض نے سینگ پکڑ رکھے ہیں ، بعض اس پر سوار ہیں اور بعض اس کا دودھ دھو رہے ہیں ۔ اس نے کہا یہ مثال ہے دنیا کی جو اس کے پیر تھامے ہوئے ہیں ۔ یہ تو وہ ہیں جو دنیا سے گر گئے جنہیں یہ نہ ملی جس نے سینگ تھام رکھے ہیں یہ وہ ہے جو اپنا گذارہ کر لیتا ہے لیکن تنگی ترشی سے دم پکڑنے والے وہ ہیں جن سے دنیا بھاگ چکی ہے ۔ سوار وہ ہیں جو از خود تارک دنیا میں ہوگئے ہیں ۔ ہاں دنیا سے صحیح فائدہ اٹھانے والے وہ ہیں جنہیں تم نے اس بکری کا دودھ نکالتے ہوئے دیکھا ۔ انہیں خوشی ہو یہ مستحق مبارک باد ہیں ۔ اس نے کہا میں اور آگے چلا تو دیکھا کہ ایک شخص ایک کنویں میں سے پانی کھینچ رہا ہے اور ایک حوض میں ڈال رہا ہے جس حوض میں سے پانی پھر کنوئیں میں چلا جاتا ہے ۔ اس نے کہا یہ وہ شخص ہے جو نیک عمل کرتا ہے لیکن قبول نہیں ہوتے ۔ اس نے کہا پھر میں آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک شخص نے دانے زمین میں بوئے اسی وقت کھیتی تیار ہو گئی اور بہت اچھے نفیس گیہوں نکل آئے ۔ کہا یہ وہ شخص ہے جس کی نیکیاں اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے ۔ اس نے کہا میں اور آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک شخص چت لیٹا پڑا ہے ۔ مجھ سے کہنے لگا بھائی میرا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا دو ، واللہ جب سے پیدا ہوا ہوں ، بیٹھا ہی نہیں ۔ میرے ہاتھ پکڑتے ہی وہ کھڑا ہو کر تیز دوڑا یہاں تک کہ میری نظروں سے پوشیدہ ہو گیا ۔ اس دربان نے کہا یہ تیری عمر تھی جو جاچکی اور ختم ہو گئی میں ملک الموت ہوں اور جس عورت سے تو ملنے آیا ہے اس کی صورت میں بھی میں ہی تھا اللہ کے حکم سے تیرے پاس آیا تھا کہ تیری روح اس جگہ قبض کروں پھر تجھے جہنم رسید کروں ۔ اس کے بارے میں یہ آیت ( وَحِيْلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُوْنَ كَمَا فُعِلَ بِاَشْيَاعِهِمْ مِّنْ قَبْلُ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا فِيْ شَكٍّ مُّرِيْبٍ 54؀ۧ ) 34- سبأ:54 ) ، نازل ہوئی ۔ یہ اثر غریب ہے اور اس کی صحت میں بھی نظر ہے ۔ آیت کا مطلب ظاہر ہے کہ کافروں کی جب موت آتی ہے ان کی روح حیات دنیا کی لذتوں میں اٹکی رہتی ہے ۔ لیکن موت مہلت نہیں دیتی اور ان کی خواہش اور ان کے درمیان وہ حائل ہو جاتا ہے ۔ جیسے اس مغرور و مفتون شخص کا حال ہوا کہ گیا تو عورت ڈھونڈھنے کو اور ملاقات ہوئی ملک الموت سے ۔ امید پوری ہونے سے پہلے روح پرواز کر گئی ۔ پھر فرماتا ہے ان سے پہلے کی امتوں کے ساتھ بھی یہی کیا گیا وہ بھی موت کے وقت زندگی اور ایمان کی آرزو کرتے رہے ۔ جو محض بےسود تھی ۔ جیسے فرمان عالی شان ہے ( فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ 84؀ ) 40-غافر:84 ) جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو کہنے لگے ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جس جس کو ہم شریک اللہ بناتے تھے ان سب سے ہم انکار کرتے ہیں لیکن اس وقت ان کے ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا ان سے پہلوؤں میں بھی یہی طریقہ جاری رہا کفار نفع سے محروم ہی ہیں ۔ یہاں فرمایا کہ دنیا میں تو زندگی بھر شک شبہ میں اور تردد میں ہی رہے ۔ اسی وجہ سے عذاب کے دیکھنے کے بعد کا ایمان بیکار رہا ۔ حضرت قتادہ کا یہ قول آب زر سے لکھنے کے لائق ہے آپ فرماتے ہیں کہ شبہات اور شکوک سے بچو ۔ اس پر جس کی موت آئی وہ قیامت کے دن بھی اسی پر اٹھایا جائے گا اور جو یقین پر مرا ہے اسے یقین پر ہی اٹھایا جائے گا ۔