Surah

Information

Surah # 35 | Verses: 45 | Ruku: 5 | Sajdah: 6 | Chronological # 43 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاوَلَا يَغُرَّنَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ‏ ﴿5﴾
لوگو! اللہ تعالٰی کا وعدہ سچا ہے تمہیں زندگانی دنیا دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز شیطان تمہیں غفلت میں ڈالے ۔
يايها الناس ان وعد الله حق فلا تغرنكم الحيوة الدنيا و لا يغرنكم بالله الغرور
O mankind, indeed the promise of Allah is truth, so let not the worldly life delude you and be not deceived about Allah by the Deceiver.
Logo! Allah Taalaa ka wada sacha hai tumhen zindaganiy-e-duniya dhokay mein na daal day aur na dhokay baaz shetan tumhen ghaflat mein daal day.
اے لوگو ! یقین جانو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، لہذا تمہیں یہ دنیوی زندگی ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے ، اور نہ اللہ کے معاملے میں تمہیں وہ ( شطیان ) دھوکے میں ڈالنے پائے جو بڑا دھوکے باز ہے ۔
اے لوگو! بیشک اللہ کا وعدہ سچ ہے ( ف۱۱ ) تو ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے دنیا کی زندگی ، ( ف۱۲ ) اور ہرگز تمہیں اللہ کے حکم پر فریب نہ دے وہ بڑا فریبی ( ف۱۳ )
لوگو ، اللہ کا وعدہ یقینا برحق 10 ہے ، لہذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ 11 ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے 12 پائے ۔
اے لوگو! بیشک اﷲ کا وعدہ سچا ہے سو دنیا کی زندگی تمہیں ہرگز فریب نہ دے دے ، اور نہ وہ دغا باز شیطان تمہیں اﷲ ( کے نام ) سے دھوکہ دے
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :10 وعدے سے مراد آخرت کا وعدہ ہے جس کی طرف اوپر کے اس فقرے میں اشارہ کیا گیا تھا کہ تمام معاملات آخر کار اللہ کے حضور پیش ہونے والے ہیں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :11 یعنی اس دھوکے میں کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے ، اس کے بعد کوئی آخرت نہیں ہے جس میں اعمال کا حساب ہونے والا ہو ۔ یا اس دھوکے میں کہ اگر کوئی آخرت ہے بھی تو جو اس دنیا میں مزے کر رہا ہے وہ وہاں بھی مزے کرے گا ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :12 بڑے دھوکے باز سے مراد یہاں شیطان ہے ، جیسا کہ آگے کا فقرہ بتا رہا ہے ۔ اور اللہ کے بارے میں دھوکا دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو تو یہ باور کرائے کہ خدا سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ اور کچھ لوگوں کو اس غلط فہمی میں ڈالے کہ خدا ایک دفعہ دنیا کو حرکت دے کر الگ جا بیٹھا ہے ، اب اسے اپنی بنائی ہوئی اس کائنات سے عملاً کوئی سروکار نہیں ہے ۔ اور کچھ لوگوں کو یہ چکر دے کہ خدا کائنات کا انتظام تو بے شک کر رہا ہے ، مگر اس نے انسانوں کی رہنمائی کرنے کا کوئی ذمہ نہیں لیا ہے ، اس لیے یہ وحی و رسالت محض ایک ڈھکوسلا ہے ۔ اور کچھ لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلائے کہ اللہ بڑا غفور رحیم ہے ، تم خواہ کتنے ہی گناہ کرو ، وہ بخش دے گا ، اور اس کے کچھ پیارے ایسے ہیں کہ ان کا دامن تھام لو تو بیڑا پار ہے ۔