Surah

Information

Surah # 35 | Verses: 45 | Ruku: 5 | Sajdah: 6 | Chronological # 43 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِۚ وَاللّٰهُ هُوَ الۡغَنِىُّ الۡحَمِيۡدُ‏ ﴿15﴾
اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز اور خوبیوں والا ہے ۔
يايها الناس انتم الفقراء الى الله و الله هو الغني الحميد
O mankind, you are those in need of Allah , while Allah is the Free of need, the Praiseworthy.
Aey logo! Tum Allah kay mohtaj ho aur Allah bey niyaz khoobiyon wala hai.
اے لوگو ! تم سب اللہ کے محتاج ہو ، اور اللہ بے نیاز ہے ، ہر تعریف کا بذات خود مستحق ( ٦ )
اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ( ف٤۸ ) اور اللہ ہی بےنیاز ہے سب خوبیوں سراہا ،
لوگو ، تم ہی اللہ کے محتاج 36 ہو اور اللہ تو غنی و حمید 37 ہے ۔
اے لوگو! تم سب اﷲ کے محتاج ہو اور اﷲ ہی بے نیاز ، سزاوارِ حمد و ثنا ہے
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :36 یعنی اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ خدا تمہارا محتاج ہے ، تم اسے خدا نہ مانو گے تو اس کی خدائی نہ چلے گی ، اور تم اس کی بندگی و عبادت نہ کرو گے تو اس کا کوئی نقصان ہو جائے گا ۔ نہیں ، اصل حقیقت یہ ہے کہ تم اس کے محتاج ہو ۔ تمہاری زندگی ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتی اگر وہ تمہیں زندہ نہ رکھے اور وہ اسباب تمہارے لیے فراہم نہ کرے جن کی بدولت تم دنیا میں زندہ رہتے ہو اور کام کر سکتے ہو ۔ لہٰذا تمہیں اس کی اطاعت و عبادت اختیار کرنے کی جو تاکید کی جاتی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ خدا کو اس کی احتیاج ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اسی پر تمہاری اپنی دنیا اور آخرت کی فلاح کا انحصار ہے ۔ ایسا نہ کرو گے تو اپنا ہی سب کچھ بگاڑ لو گے ، خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :37 غنی سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے ، ہر ایک سے مستغنی اور بے نیاز ہے ، کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے ۔ اور حمید سے مراد یہ ہے کہ وہ آپ سے آپ محمود ہے ، کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے مگر حمد ( شکر اور تعریف ) کا استحقاق اسی کو پہنچتا ہے ۔ ان دونوں صفات کو ایک ساتھ اس لیے لایا گیا ہے کہ محض غنی تو وہ بھی ہو سکتا ہے جو اپنی دولت مندی سے کسی کو نفع نہ پہنچائے ۔ اس صورت میں وہ غنی تو ہوگا مگر حمید نہ ہوگا ۔ حمید وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ وہ کسی سے خود تو کوئی فائدہ نہ اٹھائے مگر اپنی دولت کے خزانوں سے دوسروں کو ہر طرح کی نعمتیں عطا کرے ۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ان دونوں صفات میں کامل ہے اس لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ محض غنی نہیں ہے بلکہ ایسا غنی ہے جسے ہر تعریف اور شکر کا استحقاق پہنچتا ہے کیونکہ وہ تمہاری اور تمام موجودات عالم کی حاجتیں پوری کر رہا ہے ۔
اللہ قادر مطلق ۔ اللہ ساری مخلوق سے بےنیاز ہے اور تمام مخلوق اس کی محتاج ہے ۔ وہ غنی ہے اور سب فقیر ہیں ۔ وہ بےپرواہ ہے اور سب اس کے حاجت مند ہیں ۔ اس کے سامنے ہر کوئی ذلیل ہے اور وہ عزیز ہے کسی قسم کی حرکت و سکون پر کوئی قادر نہیں سانس تک لینا کسی کے بس میں نہیں ۔ مخلوق بالکل ہی بےبس ہے ۔ غنی بےپرواہ اور بےنیاز صرف اللہ ہی ہے تمام باتوں پر قادر وہی ہے ۔ وہ جو کرتا ہے اس میں قابل تعریف ہے ۔ اس کا کوئی کام حکمت و تعریف سے خالی نہیں ۔ اپنے قول میں اپنے فعل میں اپنی شرع میں تقدیروں کے مقرر کرنے میں غرض ہر طرح سے وہ بزرگ اور لائق حمد و ثناء ہے ۔ لوگو اللہ کی قدرت ہے اگر وہ چاہے تو تم سب کو غارت و برباد کر دے اور تمہارے عوض دوسرے لوگوں کو لائے ، رب پر یہ کام کچھ مشکل نہیں ، قیامت کے دن کوئی دوسرے کے گناہ اپنے اوپر نہ لے گا ۔ اگر کوئی گنہگار اپنے بعض یا سب گناہ دوسرے پر لادنا چاہے تو یہ چاہت بھی اس کی پوری نہ ہو گی ۔ کوئی نہ ملے گا کہ اس کا بوجھ بٹائے عزیز و اقارب بھی منہ موڑ لیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے ۔ گو ماں باپ اور اولاد ہو ۔ ہر شخص اپنے حال میں مشغول ہو گا ۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہو گی ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں پڑوسی پڑوسی کے پیچھے پڑ جائے گا اللہ سے عرض کرے گا کہ اس سے پوچھ تو سہی کہ اس نے مجھ سے اپنا دروازہ کیوں بند کر لیا تھا ؟ کافر مومن کے پیچھے لگ جائے گا اور جو احسان اس نے دنیا میں کئے تھے وہ یاد دلا کر کہے گا کہ آج میں تیرا محتاج ہوں مومن بھی اس کی سفارش کرے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کا عذاب قدرے کم ہو جائے گو جہنم سے چھٹکارا محال ہے ۔ باپ اپنے بیٹے کو اپنے احسان جتائے گا اور کہے گا کہ رائی کے ایک دانے برابر مجھے آج اپنی نیکیوں میں سے دے دے وہ کہے گا ابا آپ چیز تو تھوڑی سی طلب فرما رہے ہیں لیکن آج تو جو کھٹکا آپ کو ہے وہی مجھے بھی ہے میں تو کچھ بھی نہیں دے سکتا ۔ پھر بیوی کے پاس جائے گا اس سے کہے گا میں نے تیرے ساتھ دنیا میں کیسے سلوک کئے ہیں؟ وہ کہے گی بہت ہی اچھے یہ کہے گا آج میں تیرا محتاج ہوں مجھے ایک نیکی دے دے تاکہ عذابوں سے چھوٹ جاؤں جواب ملے گا کہ سوال تو بہت ہلکا ہے لیکن جس خوف میں تم ہو وہی ڈر مجھے بھی لگا ہوا ہے میں تو کچھ بھی سلوک آج نہیں کر سکتی ۔ قرآن کریم کی اور آیت میں ہے ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِيْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ ۡ وَلَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَـيْـــــًٔا ۭ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا ۪ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ 33؀ ) 31- لقمان:33 ) یعنی آج نہ باپ بیٹے کے کام آئے نہ بیٹا باپ کے کام آئے اور فرمان ہے ( يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ 34؀ۙ ) 80-عبس:34 ) آج انسان اپنے بھائی سے ، ماں سے ، باپ سے ، بیوی سے اور اولاد سے بھاگتا پھرے گا ۔ ہر شخص اپنے حال میں سمت و بےخود ہو گا ۔ ہر ایک دوسرے سے غافل ہو گا ، تیرے وعظ و نصیحت سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو عقل مند اور صاحب فراست ہوں جو اپنے رب سے قدم قدم پر خوف کرنے والے اور اطاعت اللہ کرتے ہوئے نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کرنے والے ہیں ۔ نیک اعمال خود تم ہی کو نفع دیں گے جو پاکیزگیاں تم کرو ان کا نفع تم ہی کو پہنچے گا ۔ آخر اللہ کے پاس جانا ہے ، اس کے سامنے پیش ہونا ہے ، حساب کتاب اس کے سامنے ہونا ہے ، اعمال کا بدلہ وہ خود دینے والا ہے ۔