Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَمِنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ مَنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡهُ بِقِنۡطَارٍ يُّؤَدِّهٖۤ اِلَيۡكَ‌ۚ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡهُ بِدِيۡنَارٍ لَّا يُؤَدِّهٖۤ اِلَيۡكَ اِلَّا مَا دُمۡتَ عَلَيۡهِ قَآٮِٕمًا ‌ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ قَالُوۡا لَيۡسَ عَلَيۡنَا فِىۡ الۡاُمِّيّٖنَ سَبِيۡلٌۚ وَيَقُوۡلُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ الۡكَذِبَ وَ هُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿75﴾
بعض اہل کتاب تو ایسے ہیں کہ اگر انہیں تُو خزانے کا امین بنا دے تو بھی وہ تجھے واپس کر دیں اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر تُو انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ تو اس کے سر پر ہی کھڑا رہے یہ اس لئے کہ انہوں نے کہہ رکھا ہے کہ ہم پر ان جاہلوں ( غیر یہودی ) کے حق کا کوئی گناہ نہیں ، یہ لوگ باوجود جاننے کے اللہ تعالٰی پر جھوٹ کہتے ہیں ۔
و من اهل الكتب من ان تامنه بقنطار يؤده اليك و منهم من ان تامنه بدينار لا يؤده اليك الا ما دمت عليه قاىما ذلك بانهم قالوا ليس علينا في الامين سبيل و يقولون على الله الكذب و هم يعلمون
And among the People of the Scripture is he who, if you entrust him with a great amount [of wealth], he will return it to you. And among them is he who, if you entrust him with a [single] silver coin, he will not return it to you unless you are constantly standing over him [demanding it]. That is because they say, "There is no blame upon us concerning the unlearned." And they speak untruth about Allah while they know [it].
Baaz ehal-e-kitab to aisay hain kay agar tu enhen khazaney ka amin bana dey to bhi woh tujhay wapis ker den aur inn mein say baaz aisay bhi hain kay agar tu enhen aik dinar bhi amanat dey to tujhay ada na keren. Haan yeh aur baat hai kay tu uss kay sir per hi khara rahey yeh iss liye kay enhon ney keh rakha hai kay hum per inn jahilon ( ghair yahudiyon ) kay haq ka koi gunah nahi yeh log ba wajood janney kay Allah Taalaa per jhoot kehtay hain.
اہل کتاب میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ اگر تم ان کے پاس دولت کا ایک ڈھیر بھی امانت کے طور پر رکھوا دو تو وہ تمہیں واپس کردیں گے ، اور انہی میں سے کچھ ایسے ہیں کہ اگر ایک دینار کی امانت بھی ان کے پاس رکھواؤ تو وہ تمہیں واپس نہیں دیں گے ، الا یہ کہ تم ان کے سر پر کھڑے رہو ۔ ان کا یہ طرز عمل اس لیے ہے کہ انہوں نے یہ کہہ رکھا ہے کہ : امیوں ( یعنی غیر یہودی عربوں ) کے ساتھ معاملہ کرنے میں ہماری کوئی پکڑ ہیں ہوگی ۔ اور ( اس طرح ) وہ اللہ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتے ہیں ۔
اور کتابیوں میں کوئی وہ ہے کہ اگر تو اس کے پاس ایک ڈھیر امانت رکھے تو وہ تجھے ادا کردے گا ( ف۱٤۲ ) اور ان میں کوئی وہ ہے کہ اگر ایک اشرفی اس کے پاس امانت رکھے تو وہ تجھے پھیر کر نہ دے گا مگر جب تک تو اس کے سر پر کھڑا رہے ( ف۱٤۳ ) یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ اَن پڑھوں ( ف۱٤٤ ) کے معاملہ میں ہم پر کوئی مؤاخذہ نہیں اور اللہ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتے ہیں ( ف۱٤۵ )
اہل کتاب میں کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی دے دو تو وہ تمہارا مال تمہیں ادا کر دے گا ، اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینار کے معاملہ میں بھی اس پر بھروسہ کرو تو وہ ادا نہ کرے گا اِلّا یہ کہ تم اس کے سر پر سوار ہو جاؤ ۔ ان کی اس اخلاقی حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں امّیوں ﴿غیر یہودی لوگوں﴾ کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔ 64 اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی ہے ،
اور اہلِ کتاب میں ایسے بھی ہیں کہ اگر آپ اس کے پاس مال کا ڈھیر امانت رکھ دیں تو وہ آپ کو لوٹا دے گا اور انہی میں ایسے بھی ہیں کہ اگر اس کے پاس ایک دینار امانت رکھ دیں تو آپ کو وہ بھی نہیں لوٹائے گا سوائے اس کے کہ آپ اس کے سر پر کھڑے رہیں ، یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ اَن پڑھوں کے معاملہ میں ہم پر کوئی مؤاخذہ نہیں ، اور اﷲ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور انہیں خود ( بھی ) معلوم ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :64 یہ محض یہودی عوام ہی کا جاہلانہ خیال نہ تھا ، بلکہ ان کےہاں کی مذہبی تعلیم بھی یہی کچھ تھی ، اور ان کے بڑے بڑے مذہبی پیشواؤں کے فقہی احکام ایسے ہی تھے ۔ بائیبل قرض اور سود کے احکام میں اسرائیلی اور غیر اسرائیلی کے درمیان صاف تفریق کرتی ہے ( استثناء ١۵:۳ ۔ ۲۳:۲۰ ) ۔ تلمود میں کہا گیا ہے کہ اگر اسرائیلی کا بیل کسی غیر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ، مگر غیر اسرائیلی کا بیل اگر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کرے تو اس پر تاوان ہے ۔ اگر کسی شخص کو کسی جگہ کوئی گری پڑی چیز ملے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ گرد و پیش آبادی کن لوگوں کی ہے ۔ اگر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے اعلان کرنا چاہیے ، غیر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے بلا اعلان وہ چیز رکھ لینی چاہیے ۔ ربی اشماعیل کہتا ہے کہ اگر امی اور اسرائیلی کا مقدمہ قاضی کےپاس آئے تو قاضی اگر اسرائیلی قانون کے مطابق اپنے مذہبی بھائی کو جتوا سکتا ہو تو اس کے مطابق جتوائے اور کہے کہ یہ ہمارا قانون ہے ۔ اور اگر امیوں کے قانون کے تحت جتوا سکتا ہو تو اس کے تحت جتوائے اور کہے کہ یہ تمہارا قانون ہے ۔ اور اگر دونوں قانون ساتھ نہ دیتے ہوں تو پھر جس حیلے سے بھی وہ اسرائیلی کو کامیاب کر سکتا ہو کرے ۔ ربی شموایل کہتا ہے کہ غیر اسرائیلی کی ہر غلطی سے فائدہ اٹھانا چاہیے ( تالمودِک مِسّلینی ، پال آئزک ہر شون ، لندن ١۸۸۰ء ، صفحات ۳۷ ۔ ۲١۰ ۔ ۲۲١ ) ۔
بددیانت یہودی اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہودیوں کی خیانت پر تنبیہہ کرتا ہے کہ ان کے دھوکے میں نہ آجائیں ان میں بعض تو امانتدار ہیں اور بعض بڑے خائن ہیں بعض تو ایسے ہیں کہ خزانے کا خزانہ ان کی امانت میں ہو تو جوں کا توں حوالے کر دیں گے پھر چھوٹی موٹی چیز میں وہ بددیانتی کیسے کریں گے؟ اور بعض ایسے بددیانت ہیں کہ ایک دینار بھی واپس نہ دیں گے ہاں اگر ان کے سر ہو جاؤ تقاضا برابر جاری رکھو اور حق طلب کرتے رہو تو شاید امانت نکل بھی آئے ورنہ ہضم بھی کر جائیں جب ایک دینار تو مشہور ہی ہے ، ابن ابی حاتم میں حضرت مالک بن دینار کا قول مروی ہے کہ دینار کو اس لئے دینار کہتے ہیں کہ وہ دین یعنی ایمان بھی ہے اور نار یعنی آگ بھی ہے ، مطلب یہ ہے کہ حق کے ساتھ لو تو دین ناحق لو تو نار یعنی آتش دوزخ ، اس موقع پر اس حدیث کا بیان کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جو صحیح بخاری شریف میں کئی جگہ ہے اور کتاب الکفالہ میں بہت پوری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے کسی اور شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگے اس نے کہا گواہ لاؤ کہا اللہ کی گواہی کافی ہے اس نے کہا ضامن لاؤ اس نے کہا ضمانت بھی اللہ ہی دیتا ہوں وہ اس پر راضی ہو گیا اور وقت ادائیگی مقرر کر کے رقم دے دی وہ اپنے دریائی سفر میں نکل گیا جب کام کاج سے نپٹ گیا تو دریا کنارے کسی جہاز کا انتظار کرنے لگا تاکہ جا کر اس کا قرض ادا کر دے لیکن سواری نہ ملی تو اس نے ایک لکڑی لی اور اسے بیچ میں سے کھوکھلا کر کے اس میں ایک ہزار دینار رکھ دئیے اور ایک خط بھی اس کے نام رکھ دیا پھر منہ بند کر کے اسے دریا میں ڈال دیا اور کہا اے اللہ تو بخوبی جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے تیری شہادت پر اور تیری ضمانت پر اور اس نے بھی اس پر خوش ہو کر مجھے دے دئیے اب میں نے ہر چند کشتی ڈھونڈی کہ جا کر اس کا حق مدت کے اندر ہی اندر دے دوں لیکن نہ ملی پس اب عاجز آکر تجھ پر بھروسہ کر کے میں اسے دریا میں ڈال دیتا ہوں تو اسے اس تک پہنچا دے یہ دعا کر کے لکڑی کو سمندر میں ڈال کر چلا آیا لکڑی پانی میں ڈوب گئی ، یہ پھر بھی تلاش میں رہا کہ کوئی سواری ملے تو جائے اور اس کا حق ادا کر آئے ادھر قرض خواہ شخص دریا کے کنارے یا کہ شاید مقروض کسی کشتی میں اس کی رقم لے کر آرہا ہو جب دیکھا کہ کوئی کشتی نہیں آئی اور جانے لگا تو ایک لکڑی کو جو کنارے پر پڑی ہوئی تھی یہ سمجھ کر اٹھا لیا کہ جلانے کے کام آئے گی گھر جا کر اسے چیرا تو مال اور خط نکلا کچھ دنوں بعد قرض دینے والا شخص آیا اور کہا اللہ تعالیٰ جانتا ہے میں نے ہر چند کوشش کی کہ کوئی سواری ملے تو آپ کے پاس آؤں اور مدت گذرنے سے پہلے ہی آپ کا قرض ادا کر دوں لیکن کوئی سواری نہ ملی اس لئے دیر لگ گئی اس نے کہا تو نے جو رقم بھیج دی تھی وہ اللہ نے مجھے پہنچا دی ہے تو اب اپنی یہ رقم واپس لے جا اور راضی خوشی لوٹا جا ، یہ حدیث بخاری شریف میں تعلیق کے ساتھ بھی ہے لیکن جزم کے صیغے کے ساتھ اور بعض جگہ اسناد کے حوالوں کے ساتھ بھی ہے ۔ علاوہ ازیں اور کتابوں میں بھی یہ روایت موجود ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ امانت میں خیانت کرنے حقدار کے حق کو نہ ادا کرنے پر آمادہ کرنے والا سبب ان کا یہ غلط خیال ہے کہ ان بددینوں ان پڑھوں کا مال کھا جانے میں ہمیں کوئی حرج نہیں ہم پر یہ مال حلال ہے ، جس پر اللہ فرماتا ہے کہ یہ اللہ پر الزام ہے اور اس کا علم خود انہیں بھی ہے کیونکہ ان کی کتابوں میں بھی ناحق مال کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ لیکن یہ بیوقوف خود اپنی من مانی اور دل پسند باتیں گھڑ کر شریعت کے رنگ میں انہیں رنگ لیتے ہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لوگ مسئلہ پوچھتے ہیں کہ ذمی یا کفار کی مرغی بکری وغیرہ کبھی غزوے کی حالت میں ہمیں مل جاتی ہے تو ہم تو سمجھتے ہیں کہ اسے لینے میں کوئی حرج نہیں تو آپ نے فرمایا ٹھیک یہی اہل کتاب بھی کہتے تھے کہ امتیوں کا مال لینے میں کوئی حرج نہیں ، سنو جب وہ جزیہ ادا کر رہے ہیں تو ان کا کوئی مال تم پر حلال نہیں ہاں وہ اپنی خوشی سے دے دیں تو اور بات ہے ( عبدالرزاق ) سعید بن جبیر فرماتے ہیں جب اہل کتاب سے حضور علیہ السلام نے یہ بات سنی تو فرمایا دشمنان الہ جھوٹے ہیں جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں تلے مٹ گئیں اور امانت تو ہر فاسق و فاجر کی بھی ادا کرنی پڑے گی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ لیکن جو شخص اپنے عہد کو پورا کرے اور اہل کتاب ہو کر ڈرتا رہے پھر اپنی کتاب کی ہدایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اس عہد کے مطابق جو تمام انبیاء سے بھی ہو چکا ہے اور جس عہد کی پابندی ان کی امتوں پر بھی لازم ہے اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرے اس کی شریعت کی اطاعت کرے رسولوں کے خاتم اور انبیاء کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تابعداری کرے وہ متقی ہے اور متقی اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں ۔