Surah

Information

Surah # 35 | Verses: 45 | Ruku: 5 | Sajdah: 6 | Chronological # 43 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
لِيُوَفِّيَهُمۡ اُجُوۡرَهُمۡ وَيَزِيۡدَهُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖ ؕ اِنَّهٗ غَفُوۡرٌ شَكُوۡرٌ‏ ﴿30﴾
تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دے بیشک وہ بڑا بخشنے والا قدر دان ہے ۔
ليوفيهم اجورهم و يزيدهم من فضله انه غفور شكور
That He may give them in full their rewards and increase for them of His bounty. Indeed, He is Forgiving and Appreciative.
Takay unn ko unki ujraten poori day aur unn ko apnay fazal say aur ziyadah day be-shak woh bara bakhsney wala qadardaan hai.
تاکہ اللہ ان کے پورے اجر ان کو دیدے ، اور اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دے ۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا ، بڑا قدر دان ہے ۔
تاکہ ان کے ثواب انہیں بھرپور دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ عطا کرے ، بیشک وہ بخشنے والا قدر فرمانے والا ہے ،
۔ ( اس تجارت میں انہوں نے اپنا سب کچھ اس لیے کھپایا ہے ) تاکہ اللہ ان کے اجر پورے کے پورے ان کو دے اور مزید اپنے فضل سے ان کو عطا 51 فرمائے ۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور قدردان 52 ہے ۔
تاکہ اﷲ ان کا اجر انہیں پورا پورا عطا فرمائے اور اپنے فضل سے انہیں مزید نوازے ، بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا ، بڑا ہی شکر قبول فرمانے والا ہے
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :51 اہل ایمان کے اس عمل کو تجارت سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ آدمی تجارت میں اپنا سرمایہ اور محنت و قابلیت اس امید پر صرف کرتا ہے کہ نہ صرف اصل واپس ملے گا ، اور نہ صرف وقت اور محنت کی اجرت ملے گی ، بلکہ کچھ مزید منافعہ بھی حاصل ہوگا ۔ اسی طرح ایک مومن بھی خدا کی فرمانبرداری میں ، اس کی بندگی و عبادت میں ، اور اس کے دین کی خاطر جدوجہد میں ، اپنا مال ، اپنے اوقات ، اپنی محنتیں اور قابلیتیں اس امید پر کھپا دیتا ہے کہ نہ صرف ان سب کا پورا پورا اجر ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے مزید بہت کچھ عنایت فرمائے گا ۔ مگر دونوں تجارتوں میں فرق اور بہت بڑا فرق اس بنا پر ہے کہ دنیوی تجارت میں محض نفع ہی کی امید نہیں ہوتی ، گھاٹے اور دیوالے تک کا خطرہ بھی ہوتا ہے ۔ بخلاف اس کے جو تجارت ایک مخلص بندہ اپنے خدا کے ساتھ کرتا ہے اس میں کسی خسارے کا اندیشہ نہیں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :52 یعنی مخلص اہل ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس تنگ دل آقا کا سا نہیں ہے جو بات بات پر گرفت کرتا ہو اور ایک ذرا سی خطا پر اپنے ملازم کی ساری خدمتوں اور وفا داریوں پر پانی پھیر دیتا ہو ۔ وہ فیاض اور کریم آقا ہے ۔ جو بندہ اس کا وفادار ہو اس کی خطاؤں پر چشم پوشی سے کام لیتا ہے اور جو کچھ بھی خدمت اس سے بن آئی ہو اس کی قدر فرماتا ہے ۔