Surah

Information

Surah # 35 | Verses: 45 | Ruku: 5 | Sajdah: 6 | Chronological # 43 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡكِتٰبَ الَّذِيۡنَ اصۡطَفَيۡنَا مِنۡ عِبَادِنَاۚ فَمِنۡهُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِهٖ‌ۚ وَمِنۡهُمۡ مُّقۡتَصِدٌ‌ۚ وَمِنۡهُمۡ سَابِقٌۢ بِالۡخَيۡرٰتِ بِاِذۡنِ اللّٰهِؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَضۡلُ الۡكَبِيۡرُؕ‏ ﴿32﴾
پھر ہم نے ان لوگوں کو ( اس ) کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے پسند فرمایا ۔ پھر بعضے تو ان میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعضے ان میں متوسط درجے کے ہیں اور بعضے ان میں اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں ترقی کئے چلے جاتے ہیں یہ بڑا فضل ہے ۔
ثم اورثنا الكتب الذين اصطفينا من عبادنا فمنهم ظالم لنفسه و منهم مقتصد و منهم سابق بالخيرت باذن الله ذلك هو الفضل الكبير
Then we caused to inherit the Book those We have chosen of Our servants; and among them is he who wrongs himself, and among them is he who is moderate, and among them is he who is foremost in good deeds by permission of Allah . That [inheritance] is what is the great bounty.
Phir hum ney unn logon ko ( iss ) kitab ka waris banaya jin ko hum ney apnay bandon mein say pasand farmaya. Phir baazay to inn mein apni jano per zulm kerney walay hain aur baazay inn mein mutawassit darjay kay hain aur baazay inn mein Allah ki tofiq say nekiyon mein taraqqi kiye chalay jatay hain. Yeh bara fazal hai.
پھر ہم نے اس کتاب کا وارث اپنے بندوں میں سے ان کو بنایا جنہیں ہم نے چن لیا تھا ( ٩ ) پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں ، اور انہی میں سے کچھ ایسے ہیں جو درمیانے درجے کے ہیں ، اور کچھ وہ ہیں جو اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں بڑے چلے جاتے ہیں ۔ اور یہ ( اللہ کا ) بہت بڑا فضل ہے ۔
پھر ہم نے کتاب کا وارث کیا اپنے چنے ہوئے بندوں کو ( ف۸۰ ) تو ان میں کوئی اپنی جان پر ظلم کرتا ہے اور ان میں کوئی میانہ چال پر ہے ، اور ان میں کوئی وہ ہے جو اللہ کے حکم سے بھلائیوں میں سبقت لے گیا ( ف۸۱ ) یہی بڑا فضل ہے ،
پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے ( اس وراثت کے لیے ) اپنے بندوں میں سے چن55 لیا ۔ اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے ، اور کوئی بیچ کی راس ہے ، اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے ، یہی بہت بڑا فضل 56 ہے ۔
پھر ہم نے اس کتاب ( قرآن ) کا وارث ایسے لوگوں کو بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چُن لیا ( یعنی امّتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ) ، سو ان میں سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے بھی ہیں ، اور ان میں سے درمیان میں رہنے والے بھی ہیں ، اور ان میں سے اﷲ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والے بھی ہیں ، یہی ( آگے نکل کر کامل ہو جانا ہی ) بڑا فضل ہے
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :55 مراد ہیں مسلمان جو پوری نوع انسانی میں سے چھانٹ کر نکالے گئے ہیں تاکہ وہ کتاب اللہ کے وارث ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسے لے کر اٹھیں ۔ اگرچہ کتاب پیش تو کی گئی ہے سارے انسانوں کے سامنے ۔ مگر جنہوں نے آگے پڑھ کر اسے قبول کر لیا وہی اس شرف کے لیے منتخب کر لیے گئے کہ قرآن جیسی کتاب عظیم کے وارث اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے رسول عظیم کی تعلیم و ہدایت کے امین بنیں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :56 یعنی یہ مسلمان سب کے سب ایک ہی طرح کے نہیں ہیں ، بلکہ یہ تین طبقوں میں تقسیم ہو گئے ہیں: 1 ) ۔ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو سچے دل سے اللہ کی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایمانداری کے ساتھ اللہ کا رسول تو مانتے ہیں ، مگر عملاً کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کا حق ادا نہیں کرتے ۔ مومن ہیں مگر گناہ گار ہیں ۔ مجرم ہیں مگر باغی نہیں ہیں ۔ ضعیف الایمان ہیں مگر منافق اور دل و دماغ سے کافر نہیں ہیں ۔ اسی لیے ان کو ظالمٌ لِنفسہ ہونے کے باوجود وارثین کتاب میں داخل اور خدا کے چنے ہوئے بندوں میں شامل کیا گیا ہے ، ورنہ ظاہر ہے کہ باغیوں اور منافقوں اور قلب و ذہن کے کافروں پر ان اوصاف کا اطلاق نہیں ہو سکتا ۔ تینوں درجات میں سے اس درجہ کے اہل ایمان کا ذکر سب سے پہلے اس لیے کیا گیا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے امت میں کثرت انہی کی ہے ۔ 2 ) ۔ بیچ کی راس ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وراثت کا حق کم و بیش ادا تو کرتے ہیں مگر پوری طرح نہیں کرتے ۔ فرماں بردار بھی ہیں اور خطا کار بھی ۔ اپنے نفس کو بالکل بے لگام تو انہوں نے نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ اسے خدا کا مطیع بنانے کی اپنی حد تک کوشش کرتے ہیں ، لیکن کبھی یہ اس کی باگیں ڈھیلی بھی چھوڑ دیتے ہیں اور گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح انکی زندگی اچھے اور برے ، دونوں طرح کے اعمال کا مجموعہ بن جاتی ہے ۔ یہ تعداد میں پہلے گروہ سے کم اور تیسرے گروہ سے زیادہ ہیں اس لیے ان کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے ۔ 3 ) ۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے ۔ یہ وارثین کتاب میں صف اول کے لوگ ہیں ۔ یہی دراصل اس وراثت کا حق ادا کرنے والے ہیں ۔ یہ اتباع کتاب و سنت میں بھی پیش پیش ہیں ، خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں بھی پیش پیش ، دین حق کی خاطر قربانیاں کرنے میں بھی پیش پیش ، اور بھلائی کے ہر کام میں پیش پیش ۔ یہ دانستہ معصیت کرنے والے نہیں ہیں ، اور نادانستہ کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس پر متنبہ ہوتے ہی ان کی پیشانیاں شرم سے عرق آلود ہو جاتی ہیں ۔ ان کی تعداد امت میں پہلے دونوں گروہوں سے کم ہے اس لیے ان کا آخر میں ذکر کیا گیا ہے اگرچہ وراثت کا حق ادا کرنے کے معاملہ میں ان کو اولیت کا شرف حاصل ہے ۔ یہی بہت بڑا فضل ہے ۔ اس فقرے کا تعلق اگر قریب ترین فقرے سے مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیکیوں میں سبقت کرنا ہی بڑا فضل ہے اور جو لوگ ایسے ہیں وہ امت مسلمہ میں سب سے افضل ہیں ۔ اور اس فقرے کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ کتاب اللہ کا وارث ہونا اور اس وراثت کے لیے چن لیا جانا بڑا فضل ہے ، اور خدا کے تمام بندوں میں وہ بندے سب سے افضل ہیں جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر اس انتخاب میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔
عظمت قرآن کریم اور ملت بیضا ۔ جس کتاب کا اوپر ذکر ہوا تھا اس بزرگ کتاب یعنی قرآن کریم کو ہم نے اپنے چیدہ بندوں کے ہاتھوں میں دیا ہے یعنی اس امت کے ہاتھوں ۔ پھر حرمت والے کام بھی اس سے سرزد ہوگئے ۔ بعض درمیانہ درجے کے رہے جنہوں نے محرمات سے تو اجتناب کیا واجبات بجا لاتے رہے لیکن کبھی کبھی کوئی مستحب کام ان سے چھوٹ بھی گیا اور کبھی کوئی ہلکی پھلکی نافرمانی بھی سرزد ہو گئی ۔ بعض درجوں میں بہت ہی آگے نکل گئے ۔ واجبات چھوڑ کر مستحباب کو بھی انہوں نے نہ چھوڑا اور محرمات چھوڑ کر مکروہات سے بھی یکسر الگ رہے ۔ بلکہ بعض مرتبہ مباح چیزوں کو بھی ڈر کر چھوڑ دیا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پسندیدہ بندوں سے مراد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو اللہ کی ہر کتاب کی وارث بنائی گئی ہے ۔ ان میں جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں انہیں بخشا جائے گا اور ان میں جو درمیانہ لوگ ہیں ان سے آسانی سے حساب لیا جائے گا اور ان میں جو نیکیوں میں بڑھ جانے والے ہیں انہیں بےحساب جنت میں پہنچایا جائے گا ۔ طبرانی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لئے ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں سابق لوگ تو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے اور میانہ رو رحمت رب سے داخل جنت ہوں گے اور اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے اور اصحاب اعراف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے جنت میں آئیں گے ۔ الغرض اس امت کے ہلکے پھلکے گنہگار بھی اللہ کے پسندیدہ بندوں میں داخل ہیں فالحمدللہ ۔ گو اکثر سلف کا قول یہی ہے ۔ لیکن بعض سلف نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ لوگ نہ تو اس امت میں داخل ہیں نہ چیدہ اور پسندیدہ ہیں نہ وارثین کتاب ہیں ۔ بلکہ مراد اس سے کافر منافق اور بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیئے جانے والے ہیں پس یہ تین قسمیں وہی ہیں جن کا بیان سورہ واقعہ کے اول و آخر میں ہے ۔ لیکن صحیح قول یہی ہے کہ یہ اسی امت میں ہیں ۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند کرتے ہیں اور آیت کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں ۔ احادیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ یہ تینوں گویا ایک ہیں اور تینوں ہی جنتی ہیں ۔ ( مسند احمد ) یہ حدیث غریب ہے اور اس کے راویوں میں ایک راوی ہیں جن کا نام مذکور نہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں ہونے کے اعتبار سے اور اس اعتبار سے کہ وہ جنتی ہیں گویا ایک ہی ہیں ۔ ہاں مرتبوں میں فرق ہونا لازمی ہے ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا سابقین تو بےحساب جنت میں جائیں گے اور درمیانہ لوگوں سے آسانی کے ساتھ حساب لیا جائے گا اور اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے طول محشر میں روکے جائیں گے ۔ پھر اللہ کی رحمتوں سے تلافی ہو جائے گی اور یہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہم سے غم و رنج دور کر دیا ہمارا رب بڑا ہی غفور و شکور ہے ۔ جس نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے رہائش کی ایسی جگہ عطا فرمائی جہاں ہمیں کوئی درد دکھ نہیں ۔ ( مسند احمد ) ابن ابی حاتم کی اس روایت میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی ہے ۔ ابن جریر نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔ اس میں ہے کہ حضرت ابو ثابت مسجد میں آتے ہیں اور حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ ! میری وحشت کا انیس میرے لئے مہیا کر دے اور میری غربت پر رحم کر اور مجھے کوئی اچھا رفیق عطا فرما ۔ یہ سن کر صحابی ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں میں تیرا ساتھی ہوں سن میں آج تجھے وہ حدیث رسول سناتا ہوں جسے میں نے آج تک کسی کو نہیں سنائی پھر اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا سابق بالخیرات تو جنت میں بےحساب جائیں گے اور مقتصد لوگوں سے آسانی کے ساتھ حساب لیا جائے گا اور ظالم لنفسہ کو اس مکان میں غم و رنج پہنچے گا ۔ جس سے نجات پا کر وہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم و رنج دور کر دیا ۔ تیسری حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں کی نسبت فرمایا کہ یہ سب اسی امت میں سے ہیں ۔ چوتھی حدیث : میری امت کے تین حصے ہیں ایک بےحساب و بےعذاب جنت میں جانے والا ۔ دوسرا آسانی سے حساب لیا جانے والا اور پھر بہشت نشیں ہونے والا ۔ تیسری وہ جماعت ہو گی جن سے تفتیش و تلاش ہو گی لیکن پھرفرشتے حاضر ہو کر کہیں گے کہ ہم نے انہیں لا الہ الا اللہ وحدہ کہتے ہوئے پایا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا سچ ہے میرے سوا کوئی معبود نہیں اچھا انہیں میں نے ان کے اس قول کی وجہ سے چھوڑا جاؤ انہیں جنت میں لے جاؤ اور ان کی خطائیں دوزخیوں پر لاد دو اسی کا ذکر آیت ( وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ 13۝ۧ ) 29- العنكبوت:13 ) میں ہے یعنی وہ ان کے بوجھ اپنے بوجھ کے ساتھ اٹھائیں گے اس کی تصدیق اس میں ہے جس میں فرشتوں کا ذکر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے جنہیں وارثین کتاب بنایا ہے ان کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تین قسمیں بتائی ہیں پس ان میں جو اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں وہ باز پرس کئے جائیں گے ۔ ( ابن ابی حاتم ) حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ اس امت کی قیات کے دن تین جماعتیں ہوں گی ۔ ایک بےحساب جنت میں جانے والی ایک آسانی سے حساب لئے جانے والی ایک گنہگار جن کی نسبت اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ فرشتے کہیں گے اللہ ان کے پاس بڑے بڑے گناہ ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا ۔ رب عزوجل فرمائے گا انہیں میری وسیع رحمت میں داخل کردو پھر حضرت عبداللہ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ( ابن جریر ) دوسرا اثر ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ فرماتی ہیں بیٹا یہ سب جنتی لوگ ہیں سابق بالخیرات تو وہ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے جنہیں خود آپ نے جنت کی بشارت دی ۔ مقتصد وہ ہیں جنہوں نے آپ کے نقش قدم کی پیروی کی یہاں تک کہ ان سے مل گئے ۔ اور ظالم لنفسہ مجھ تجھ جیسے ہیں ( ابوداؤد طیالسی ) خیال فرمایئے کہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا باوجودیکہ سابق بالخیرات میں سے بلکہ ان میں سے بھی بہترین درجے والوں میں سے ہیں لیکن کس طرح اپنے تئیں متواضع بناتی ہیں حالانکہ حدیث میں آ چکا ہے کہ تمام عورتوں پر حضرت عائشہ کو وہی فضیلت ہے جو فضیلت ثرید کو ہر قسم کے طعام پر ہے ۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰعنہ فرماتے ہیں ظالم لنفسہ تو ہمارے بدوی لوگ ہیں اور مقتصد ہمارے شہری لوگ ہیں اور سابق ہمارے مجاہد ہیں ۔ ( ابن ابی حاتم ) حضرت کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تینوں قسم کے لوگ اسی امت میں سے ہیں اور سب جنتی ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں قسم کے لوگوں کے ذکر کے بعد جنت کا ذکر کر کے پھر فرمایا ( وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ ۚ لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36؀ۚ ) 35- فاطر:36 ) پس یہ لوگ دوزخی ہیں ۔ ( ابن جریر ) حضرت ابن عباس نے حضرت کعب سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کعب کے اللہ کی قسم یہ سب ایک ہی زمرے میں ہیں ہاں اعمال کے مطابق ان کے درجات کم و بیش ہیں ۔ ابو اسحاق سیعی بھی اس آیت میں فرماتے ہیں کہ یہ تینوں جماعتیں ناجی ہیں ۔ محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں یہ امت مرحومہ ہے ۔ ان کے گنہگاروں کو بخش دیا جائے گا اور ان کے مقصد اللہ کے پاس جنت میں ہوں گے ۔ اور ان کے سابق بلند درجوں میں ہوں گے ۔ محمد بن علی باقر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہاں جن لوگوں کو ظالم لنفسہ کہا گیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گناہ بھی کئے تھے اور نیکیاں بھی ۔ ان احادیث اور آثار کو سامنے رکھ کر یہ تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں عموم ہے اور اس امت کی ان تینوں قسموں کو یہ شامل ہے ۔ پس علماء کرام اس نعمت کے ساتھ سب سے زیادہ رشک کے قابل ہیں اور اس رحمت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں ۔ جیسے کہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص مدینے سے دمشق میں حضرت ابو درداء کے پاس جاتا ہے اور آپ سے ملاقات کرتا ہے تو آپ دریافت فرماتے ہیں کہ پیارے بھائی یہاں کیسے آنا ہوا ؟ وہ کہتے ہیں اس حدیث کے سننے کے لئے آیا ہوں جو آپ بیان کرتے ہیں ۔ پوچھا کیا کسی تجارت کی غرض سے نہیں آئے؟ جواب دیا نہیں ۔ پوچھا پھر کوئی اور مطلب بھی ہو گا ؟ فرمایا کوئی مقصد نہیں ۔ پوچھا پھر کیا صرف حدیث کی طلب کے لئے یہ سفر کیا ہے؟ جواب دیا کہ ہاں ۔ فرمایا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص علم کی تلاشی میں کسی راستے کو قطع کرے اللہ اسے جنت کے راستوں میں چلائے گا ۔ اللہ کی رحمت کے فرشتے طالب علموں کے لئے پر بچھا دیتے ہیں کیونکہ وہ ان سے بہت خوش ہیں اور ان کی خوشی کے خواہاں ہیں ۔ عالم کے لیے آسمان وزمین کی ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی ۔ عابد و عالم کی فضیلت ایسی ہی ہے جیسی چاند کی فضیلت ستاروں پر ، علماء نبیوں کے وارث ہیں ۔ انبیاء علیہم السلام نے اپنے ورثے میں درہم و دینار نہیں چھوڑے ان کا ورثہ علم دین ہے ۔ جس نے اسے لیا اس نے بڑی دولت حاصل کر لی ۔ ( ابو داؤد ، ترمذی وغیرہ ) اس حدیث کے تمام طریق اور الفاظ اور شرح میں نے صحیح بخاری کتاب العلم کی شرح میں مفصلاً بیان کر دی ہے فالحمد اللہ ۔ سورہ طہ کے شروع میں وہ حدیث گذر چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ علماء سے فرمائے گا ۔ میں نے اپنا علم و حکمت تمہیں اس لئے ہی دیا تھا کہ تمہیں بخش دوں گو تم کیسے ہی ہو مجھے اس کی کچھ پرواہ ہی نہیں ۔