Surah

Information

Surah # 35 | Verses: 45 | Ruku: 5 | Sajdah: 6 | Chronological # 43 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
جَنّٰتُ عَدۡنٍ يَّدۡخُلُوۡنَهَا يُحَلَّوۡنَ فِيۡهَا مِنۡ اَسَاوِرَ مِنۡ ذَهَبٍ وَّلُـؤۡلُؤًا ۚ وَلِبَاسُهُمۡ فِيۡهَا حَرِيۡرٌ‏ ﴿33﴾
وہ باغات ہیں ہمیشہ رہنے کے جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جاویں گے ۔ اور پوشاک وہاں ان کی ریشم کی ہوگی ۔
جنت عدن يدخلونها يحلون فيها من اساور من ذهب و لؤلؤا و لباسهم فيها حرير
[For them are] gardens of perpetual residence which they will enter. They will be adorned therein with bracelets of gold and pearls, and their garments therein will be silk.
Woh baghaat mein humesha rehney kay jin mein yeh log dakhil hongay sonay kay kanggan aur moti pehnaye jawen gay. Aur poshak unn ki wahan resham ki ki hogi.
ہمیشہ بسنے کے باغات ہیں جن میں وہ لوگ داخل ہوں گے وہاں ان کو سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کی جائے گا اور ان کا لباس وہاں پر ریشم ہوگا ۔
بسنے کے باغوں میں داخل ہوں گے وہ ( ف۸۲ ) ان میں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کی پوشاک ریشمی ہے ،
ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں 57 گے ۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا ، وہاں ان کا لباس ریشم ہوگا ،
۔ ( دائمی اِقامت کے لئے ) عدن کی جنّتیں ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے ، ان میں انہیں سونے اور موتیوں کے کنگنوں سے آراستہ کیا جائے گا اور وہاں ان کی پوشاک ریشمی ہوگی
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :57 مفسرین میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اس فقرے کا تعلق قریب ترین دونوں فقروں سے ہے ، یعنی نیکیوں پر سبقت کرنے والے ہی بڑی فضیلت رکھتے ہیں اور وہی ان جنتوں میں داخل ہوں گے ۔ رہے پہلے دو گروہ ، تو ان کے بارے میں سکوت فرمایا گیا ہے تاکہ وہ اپنے انجام کے معاملہ میں فکر مند ہوں اور اپنی موجودہ حالت سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں ۔ اس رائے کو علامہ زمخشری نے بڑے زور کے ساتھ بیان کیا ہے اور امام رازی نے اس کی تائید کی ہے ۔ لیکن مفسرین کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ اس کا تعلق اوپر کی پوری عبارت سے ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے یہ تینوں گروہ بالآخر جنت میں داخل ہوں گے ، خواہ محاسبہ کے بغیر یا محاسبہ کے بعد ، خواہ ہر مواخذہ سے محفوظ رہ کر یا کوئی سزا پانے کے بعد ۔ اسی تفسیر کی تائید قرآن کا سیاق کرتا ہے ، کیونکہ آگے چل کر وارثین کتاب کے بالمقابل دوسرے گروہ کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے اس کتاب کو مان لیا ہے ان کے لیے جنت ہے اور جنہوں نے اس پر ایمان لانے سے انکار کیا ہے ان کے لیے جہنم ۔ پھر اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرت ابوالدارداء نے روایت کیا ہے اور امام احمد ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، طَبَرانی ، بہقی اور بعض دوسرے محدثین نے اسے نقل کیا ہے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: فامّا الذین سبقوا فاولٰئِک الذین یدخلون الجنۃ بغیر حساب ، وامّا الذین اقتصدوا فاولٰئِک الذین یحاسبون حسابا یسیرا ، واما الذین ظلموا انفسہم فاولٰئِک یُحبَسوْن طول المحشر ثم ھم الذین یتلقّا ھم اللہ برحمتہ فھم الذین یقولون الحمد لِلہ الذی اذھب عنا الحزن ۔ جو لوگ نیکیوں میں سبقت لے گئے ہیں وہ جنت میں کسی حساب کے بغیر داخل ہوں گے ۔ اور جو بیچ کی راس رہے ہیں ان سے محاسبہ ہوگا مگر ہلکا محاسبہ ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے تو وہ محشر کے پورے طویل عرصہ میں روک رکھے جائیں گے ، پھر انہی کو اللہ اپنی رحمت میں لے لیگا اور یہی لوگ ہیں جو کہیں گے کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا ۔ اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی پوری تفسیر خود بیان فرمادی ہے اور اہل ایمان کے تینوں طبقوں کا انجام الگ الگ بتا دیا ہے ۔ بیچ کی راس والوں سے ہلکا محاسبہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کفار کو تو ان کے کفر کے علاوہ ان کے ہر ہر جرم اور گناہ کی جداگانہ سزا بھی دی جائے گی ، مگر اس کے برعکس اہل ایمان میں جو لوگ اچھے اور برے دونوں طرح کے اعمال لے کر پہنچیں گے ان کی نیکیوں اور ان کے گناہوں کا مجموعی محاسبہ ہو گا ۔ یہ نہیں ہو گا کہ ہر نیکی کی الگ جزا اور ہر قصور کی الگ سزا دی جائے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ اہل ایمان میں سے جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہوگا وہ محشر کے پورے عرصے میں روک رکھے جائیں گے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں نہیں ڈالے جائیں گے بلکہ ان کو تا برخاست عدالت کی سزا دی جائے گی ، یعنی روز حشر کی پوری طویل مدت ( جو نہ معلوم کتنی صدیوں طویل ہوگی ) ان پر اپنی ساری سختیوں کے ساتھ گزر جائے گی ، یہاں تک کہ آخر کار اللہ ان پر رحم فرمائے گا اور خاتمہ عدالت کے وقت حکم دے گا کہ اچھا ، انہیں بھی جنت میں داخل کردو ۔ اسی مضمون کے متعدد اقوال محدثین نے بہت سے صحابہ ، مثلاً حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عائشہ ، حضرت ابو سعید خُدری اور حضرت بَراء ابن عازب سے نقل کیے ہیں ، اور ظاہر ہے کہ صحابہ ایسے معاملات میں کوئی بات اس وقت تک نہیں کہہ سکتے تھے جب تک انہوں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو نہ سنا ہو ۔ مگر اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے ان کے لیے صرف تا برخاست عدالت ہی کی سزا ہے اور ان میں سے کوئی جہنم میں جائے گا ہی نہیں ۔ قرآن اور حدیث میں متعدد ایسے جرائم کا ذکر ہے جن کے مرتکب کو ایمان بھی جہنم میں جانے سے نہیں بچا سکتا ۔ مثلاً جو مومن کسی مومن کو عمداً قتل کر دے اس کے لیے جہنم کی سزا کا اللہ تعالیٰ نے خود اعلان فرما دیا ہے ۔ اسی طرح قانون وراثت کی خداوندی حدود کو توڑنے والوں کے لیے بھی قرآن مجید میں جہنم کی وعید فرمائی گئی ہے ۔ سود کی حرمت کا حکم آجانے کے بعد پھر سود خواری کرنے والوں کے لیے بھی صاف صاف اعلان فرمایا گیا ہے کہ وہ اصحاب النار ہیں ۔ اس کے علاوہ بعض اور کبائر کے مرتکبین کے لیے بھی احادیث میں تصریح ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے ۔
اللہ کی کتاب کے وارث لوگ ۔ فرماتا ہے جن برگزیدہ لوگوں کو ہم نے اللہ کی کتاب کا وارث بنایا ہے انہیں قیامت کے دن ہمیشہ والی ابدی نعمتوں والی جنتوں میں لے جائیں گے ۔ جہاں انہیں سونے کے اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ حدیث میں ہے مومن کا زیور وہاں تک ہو گا جہاں تک اس کے وضو کا پانی پہنچتا ہے ۔ ان کا لباس وہاں پر خاص ریشمی ہو گا ۔ جس سے دنیا میں وہ ممانعت کر دیئے گئے تھے ۔ حدیث میں ہے جو شخص یہاں دنیا میں حریر و ریشم پہنے گا وہ اسے آخرت میں نہیں پہنایا جائے گا اور حدیث میں ہے یہ ریشم کافروں کے لئے دنیا میں ہے اور تم مومنوں کے لئے آخرت میں ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جنت کے زیوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا انیہں سونے چاندی کے زیور پہنائے جائیں گے جو موتیوں سے جڑاؤ کئے ہوئے ہوں گے ۔ ان پر موتی اور یاقوت کے تاج ہوں گے ۔ جو بالکل شاہانہ ہوں گے ۔ وہ نوجوان ہوں گے بغیر بالوں کے سرمیلی آنکھوں والے ، وہ جناب باری عزوجل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہیں گے کہ اللہ کا احسان ہے جس نے ہم سے خوف ڈر زائل کر دیا اور دنیا اور آخرت کی پریشانیوں اور پشمانیوں سے ہمیں نجات دے دی حدیث شریف میں ہے کہ لا الہ الا اللہ کہنے والوں پر قبروں میں میدان محشر میں کوئی دہشت و وحشت نہیں ۔ میں تو گویا انہیں اب دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے سروں پر سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہہ رہے ہیں اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم و رنج دور کر دیا ۔ ( ابن ابی حاتم ) طبرانی میں ہے موت کے وقت بھی انہیں کوئی گھبراہٹ نہیں ہو گی ۔ حضرت ابن عباس کا فرمان ہے ان کی بڑی بڑی اور بہت سی خطائیں معاف کر دی گئیں اور چھوٹی چھوٹی اور کم مقدار نیکیاں قدر دانی کے ساتھ قبول فرمائی گئیں ، یہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے فضل و کرم لطف و رحم سے یہ پاکیزہ بلند ترین مقامات عطا فرمائے ہمارے اعمال تو اس قابل تھے ہی نہیں ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے تم میں سے کسی کو اس کے اعمال جنت میں نہیں لے جا سکتے لوگوں نے پوچھا آپ کو بھی نہیں؟ فرمایا ہاں مجھے بھی اسی صورت اللہ کی رحمت ساتھ دے گی ۔ وہ کہیں گے یہاں تو ہمیں نہ کسی طرح کی شفقت و محنت ہے نہ تھکان اور کلفت ہے ۔ روح الگ خوش ہے جسم الگ راضی راضی ہے ۔ یہ اس کا بدلہ ہے جو دنیا میں اللہ کی راہ میں تکلیفیں انہیں اٹھانی پڑی تھیں آج راحت ہی راحت ہے ۔ ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ پسند اور دل پسند کھاتے پیتے رہو اور اس کے بدلے جو دنیا میں تم نے میری فرماں برداریاں کیں ۔