Surah

Information

Surah # 35 | Verses: 45 | Ruku: 5 | Sajdah: 6 | Chronological # 43 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَهُمۡ نَارُ جَهَنَّمَ‌ۚ لَا يُقۡضٰى عَلَيۡهِمۡ فَيَمُوۡتُوۡا وَلَا يُخَفَّفُ عَنۡهُمۡ مِّنۡ عَذَابِهَا ؕ كَذٰلِكَ نَـجۡزِىۡ كُلَّ كَفُوۡرٍۚ‏ ﴿36﴾
اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے نہ تو ان کی قضا ہی آئے گی کہ مر ہی جائیں اور نہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا ۔ ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔
و الذين كفروا لهم نار جهنم لا يقضى عليهم فيموتوا و لا يخفف عنهم من عذابها كذلك نجزي كل كفور
And for those who disbelieve will be the fire of Hell. [Death] is not decreed for them so they may die, nor will its torment be lightened for them. Thus do we recompense every ungrateful one.
Aur jo log kafir hain unn kay liye dozakh ki aag hai na to unn ki qaza hi aaye gi kay marr hi jayen aur na dozakh ki azab hi unn say halka kiya jayega. Hum her kafir ko aisi hi saza detay hain.
اور جن لوگوں نے کفر کی روش اپنا لی ہے ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے ، نہ تو ان کا کام تمام کیا جائے گا کہ وہ مر ہی جائیں ، اور نہ ان سے دوزخ کا عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ ہر ناشکرے کافر کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔
اور جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے نہ ان کی قضا آئے کہ مرجائیں ( ف۸۵ ) اور نہ ان پر اس کا ( ف۸٦ ) عذاب کچھ ہلکا کیا جائے ، ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ہر بڑے ناشکرے کو ،
اور جن لوگوں نے کفر کیا 62 ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے ۔ نہ ان کا قصہ پاک کر دیا جائے گا کہ مر جائیں اور نہ ان کے لیے جہنم کے عذاب میں کوئی کمی کی جائے گی ۔ اس طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ہر اس شخص کو جو کفر کرنے والا ہو ۔
اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے ، نہ ان پر ( موت کا ) فیصلہ کیا جائے گا کہ مر جائیں اور نہ ان سے عذاب میں سے کچھ کم کیا جائے گا ، اسی طرح ہم ہر نافرمان کو بدلہ دیا کرتے ہیں
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :62 یعنی اس کتاب کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے ۔
برے لوگوں کا روح فرسا حال ۔ نیک لوگوں کا حال بیان فرما کر اب برے لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ دوزخ کی آگ میں جلتے جھلستے رہیں گے ۔ انہیں وہاں موت بھی نہیں آئے گی جو مر جائیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( ثُمَّ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰي 13۝ۭ ) 87- الأعلى:13 ) نہ وہاں انہیں موت آئے گی نہ کوئی اچھی زندگی ہو گی ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ جوابدی جہنمی ہیں انہیں وہاں موت نہیں آئے گی اور نہ اچھائی کی زندگی ملے گی ۔ وہ تو کہیں گے کہ اے داروغہ جہنم تم ہی اللہ سے دعا کرو کہ اللہ ہمیں موت دے دے لیکن جواب ملے گا کہ تم تو یہیں پڑے رہو گے ۔ پس وہ موت کو اپنے لئے رحمت سمجھیں گے لیکن وہ آئے گی ہی نہیں ۔ نہ مریں نہ عذابوں میں کمی دیکھیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اِنَّ الْمُجْرِمِيْنَ فِيْ عَذَابِ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ 74؀ښ ) 43- الزخرف:74 ) یعنی کفار دائماً عذاب جہنم میں رہیں گے جو عذاب کبھی بھی نہ ہٹیں گے نہ کم ہوں گے ۔ یہ تمام بھلائی سے محض مایوس ہوں گے اور جگہ فرمان ہے ( كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا 97؀ ) 17- الإسراء:97 ) آگ جہنم ہمیشہ تیز ہوتی رہے گی ۔ فرماتا ہے ( فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِيْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا 30؀ۧ ) 78- النبأ:30 ) لو اب مزے چکھو ، عذاب ہی عذاب تمہارے لئے بڑھتے رہیں گے ۔ کافروں کا یہی بدلہ ہے ، وہ چیخ و پکار کریں گے ہائے وائے کریں گے دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں گے اقرار کریں گے کہ ہم گناہ نہیں کریں گے نیکیاں کریں گے ۔ لیکن رب العالمین خوب جانتا ہے کہ اگر یہ واپس بھی جائیں گے تو وہی سرکشی کریں گے اسی لئے ان کا یہ ارمان پورا نہ ہو گا ۔ جیسے اور جگہ فرمایا کہ انہیں ان کے اس سوال پر جواب ملے گا کہ تم تو وہی ہو کہ جب اللہ کی وحدانیت کا بیان ہوتا تھا تو تم کفر کرنے لگتے تھے وہاں اس کے ساتھ شرک کرنے میں تمہیں مزہ آتا تھا ۔ پس اب بھی اگر تمہیں لوٹا دیا گیا تو وہی کرو گے جس سے ممانعت کئے جاتے ہو ۔ پس فرمایا انہیں کہا جائے گا کہ دنیا میں تو تم بہت جئے ، تم اس لمبی مدت میں بہت کچھ کر سکتے تھے مثلاً سترہ سال جئے ۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ لمبی عمر میں بھی اللہ کی طرف سے حجت پوری کرنا ہے ۔ اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ہی انسان برائیوں میں بڑھتا چلا جائے دیکھو تو یہ آیت جب اتری ہے اس وقت بعض لوگ صرف اٹھارہ سال کی عمر کے ہی تھے ۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں مراد بیس سال کی عمر ہے ۔ حسن فرماتے ہیں چالیس سال ۔ مسروق فرماتے ہیں چالیس سال کی عمر میں انسان کو ہوشیار ہو جانا چاہئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس عمر تک پہنچنا اللہ کی طرف سے عذر بندی ہو جاتا ہے ۔ آپ ہی سے ساٹھ سال بھی مروی ہیں اور یہی زیادہ صحیح بھی ہے ۔ جیسے ایک حدیث میں بھی ہے گو امام ابن جریر اس کی سند میں کلام کرتے ہیں لیکن وہ کلام ٹھیک نہیں ۔ حضرت علی سے بھی ساٹھ سال ہی مروی ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک منادی یہ بھی ہو گی کہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جانے والے کہاں ہیں؟ لیکن اس کی سند ٹھیک نہیں ۔ مسند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچا دیا اس کا کوئی عذر پھر اللہ کے ہاں نہیں چلے گا ۔ صحیح بخاری کتاب الرقاق میں ہے اس شخص کا عذر اللہ نے کاٹ دیا جسے ساٹھ سال تک دنیا میں رکھا ۔ اس حدیث کی اور سندیں بھی ہیں لیکن اگر نہ بھی ہوتیں تو بھی صرف حضرت امام بخاری کا اسے اپنی صحیح میں وارد کرنا ہی اس کی صحت کا ثبوت تھا ۔ ابن جریر کا یہ کہنا کہ اس کی سند کی جانچ کی ضرورت ہے امام بخاری کے صحیح کہنے کے مقابلے میں ایک جو کی بھی قیمت نہیں رکھتا ۔ واللہ اعلم ، بعض لوگ کہتے ہیں اطباء کے نزدیک طبعی عمر ایک سو بیس برس کی ہے ساٹھ سال تک تو انسان بڑھوتری میں رہتا ہے ۔ پھر گھٹنا شروع ہو جاتا ہے ۔ پس آیت میں بھی اسی عمر کو مراد لینا اچھا ہے اور یہی اس امت کی غالب عمر ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے میری امت کی عمریں ساٹھ سے ستر سال تک ہیں اور اس سے تجاوز کرنے والے کم ہیں ۔ ( ترمذی وغیرہ ) امام ترمذی تو اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں اس کی اور کوئی سند نہیں لیکن تعجب ہے کہ امام صاحب نے یہ کیسے فرما دیا ؟ اس کی ایک دوسری سند ابن ابی الدین میں موجود ہے ۔ خود ترمذی میں بھی یہی حدیث دوسری سند سے کتاب الزہد میں مروی ہے ۔ ایک اور ضعیف حدیث میں ہے میری امت میں ستر سال کی عمر والے بھی کم ہوں گے اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی امت کی عمر کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا پچاس سے ساٹھ سال تک کی عمر ہے پوچھا گیا ستر سال کی عمر والے؟ فرمایا بہت کم اللہ ان پر اور اسی سال والوں پر اپنا رحم فرمائے ۔ ( بزار ) اس حدیث کا ایک راوی عثمان بن مطر قوی نہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال کی تھی ایک قول ہے کہ ساٹھ سال کی تھی یہ بھی کہا گیا ہے کہ پینسٹھ برس کی تھی ۔ واللہ اعلم ۔ ( تطبیق یہ ہے کہ ساٹھ سال کہنے والے راوی دہائیوں کو لگاتے ہیں اکائیوں کو چھوڑ دیتے ہیں پینسٹھ سال والے سال تولد اور سال وفات کو بھی گنتے ہیں اور تریسٹھ والے ان دونوں برسوں کو نہیں لگاتے ۔ پس کوئی اختلاف نہیں فالحمد اللہ ۔ مترجم ) اور تمہارے پاس ڈرانے والے آ گئے یعنی سفید بال ۔ یا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ زیادہ صحیح قول دوسرا ہی ہے جیسے فرمان ہے ( ھذا نذیر من النذر الاولی ) یہ پیغمبر نذیر ہیں ۔ پس عمر دے کر ، رسول بھیج کر اپنی حجت پوری کر دی ۔ چنانچہ قیامت کے دن بھی جب دوزخی تمنائے موت کریں گے تو یہی جواب ملے گا کہ تمہارے پاس حق آ چکا تھا یعنی رسولوں کی زبانی ہم پیغام حق تمہیں پہنچا چکے تھے لیکن تم نہ مانے اور آیت میں ہے ( وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا 15؀ ) 17- الإسراء:15 ) ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے ۔ سورہ تبارک الذی میں فرمان ہے جب جہنمی جہنم میں ڈالے جائیں گے وہاں کے داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں آئے تھے لیکن ہم نے انہیں نہ مانا ، انہیں جھوٹا جانا اور کہہ دیا کہ اللہ نے تو کوئی کتاب وغیرہ نازل نہیں فرمائی ۔ تم یونہی بک رہے ہو ، پس آج قیامت کے دن ان سے کہہ دیا جائے گا کہ نبیوں کی مخالفت کا مزہ چکھو مدت العمر انہیں جھٹلاتے رہے اب آج اپنے اعمال کے بدلے اٹھاؤ اور سن لو کوئی نہ کھڑا ہو گا جو تمہارے کام آ سکے تمہاری کچھ مدد کر سکے اور عذابوں سے بچا سکے یا چھڑا سکے ۔