Surah

Information

Surah # 35 | Verses: 45 | Ruku: 5 | Sajdah: 6 | Chronological # 43 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ شُرَكَآءَكُمُ الَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ ؕ اَرُوۡنِىۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ اَمۡ لَهُمۡ شِرۡكٌ فِى السَّمٰوٰتِ‌ ۚ اَمۡ اٰتَيۡنٰهُمۡ كِتٰبًا فَهُمۡ عَلٰى بَيِّنَتٍ مِّنۡهُ ۚ بَلۡ اِنۡ يَّعِدُ الظّٰلِمُوۡنَ بَعۡضُهُمۡ بَعۡضًا اِلَّا غُرُوۡرًا‏ ﴿40﴾
آپ کہیئے! کہ تم اپنے قرار داد شریکوں کا حال تو بتلاؤ جن کو تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو ۔ یعنی مجھ کو یہ بتلاؤ کہ انہوں نے زمین میں سے کون سا ( جزو ) بنایا ہے یا ان کا آسمانوں میں کچھ ساجھا ہے یا ہم نے ان کو کوئی کتاب دی ہے کہ یہ اس کی دلیل پر قائم ہوں بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے سے نرے دھوکے کی باتوں کا وعدہ کرتے آتے ہیں ۔
قل ارءيتم شركاءكم الذين تدعون من دون الله اروني ما ذا خلقوا من الارض ام لهم شرك في السموت ام اتينهم كتبا فهم على بينت منه بل ان يعد الظلمون بعضهم بعضا الا غرورا
Say, "Have you considered your 'partners' whom you invoke besides Allah ? Show me what they have created from the earth, or have they partnership [with Him] in the heavens? Or have We given them a book so they are [standing] on evidence therefrom? [No], rather, the wrongdoers do not promise each other except delusion."
Aap kahiye! Kay tum apnay qarardaad shareekon ka haal to batlao jin ko tum Allah kay siwa pooja kerta ho. Yani mujh ko yeh batlao kay unhon ney zamin mein say konsa ( juzzv ) banaya hai ya unn ka aasmano mein kuch saajha hai ya hum ney unn ko koi kitab di hai kay yeh uss ki daleel per qaeem hon bulkay yeh zalim aik doosray say niray dhokay ki baaton ka wada kertay aatay hain.
۔ ( اے پیغمبر ) ان سے کہو کہ : بھلا بتاؤ تم اللہ کو چھوڑ کر اپنے جن من گھڑت شریکوں کو پوجا کرتے ہو ، ذرا مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین کا کونسا حصہ پیدا کیا ہے ؟ یا آسمانوں ( کی پیدائش میں ) ان کی کونسی شرکت ہے ؟ یا پھر ہم نے انہیں کوئی کتاب دے رکھی ہے جس کی کسی واضح ہدایت پر یہ لوگ قائم ہیں؟ ( ١١ ) نہیں ، بلکہ یہ ظالم لوگ ایسے دوسرے کو خالص دھوکے کی یقین دہانی کرتے آئے ہیں ۔
تم فرماؤ بھلا بتلاؤ تو اپنے وہ شریک ( ف۹۸ ) جنہیں اللہ کے سوا پوجتے ہو مجھے دکھاؤ انہوں نے زمین میں سے کونسا حصہ بنایا یا آسمانوں میں کچھ ان کا ساجھا ہے ( ف۹۹ ) یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے کہ وہ اس کی روشن دلیلوں پر ہیں ( ف۱۰۰ ) بلکہ ظالم آپس میں ایک دوسرے کو وعدہ نہیں دیتے مگر فریب کا ( ف۱۰۱ )
۔ ( اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ) ان سے کہو ، کبھی تم نے دیکھا بھی ہے اپنے ان شریکوں66 کو جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو؟ مجھے بتاؤ ، انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں میں ان کی کیا شرکت ہے ؟ ( اگر یہ نہیں بتا سکتے تو ان سے پوچھو ) کیا ہم نے انہیں کوئی تحریر لکھ کر دی ہے جس کی بنا پر یہ ( اپنے اس شرک کے لیے ) کوئی صاف سند رکھتے 67 ہوں؟ نہیں ، بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے کو محض فریب کے جھانسے دیے جا رہے 68 ہیں ۔
فرما دیجئے: کیا تم نے اپنے شریکوں کو دیکھا ہے جنہیں تم اﷲ کے سوا پوجتے ہو ، مجھے دکھا دو کہ انہوں نے زمین سے کیا چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں ( کی تخلیق ) میں ان کی کوئی شراکت ہے ، یا ہم نے انہیں کوئی کتاب عطا کر رکھی ہے کہ وہ اس کی دلیل پر قائم ہیں؟ ( کچھ بھی نہیں ہے ) بلکہ ظالم لوگ ایک دوسرے سے فریب کے سوا کوئی وعدہ نہیں کرتے
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :66 اپنے شریک کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا گیا ہے کہ درحقیقت وہ خدا کے شریک تو ہیں نہیں ، مشرکین نے ان کو اپنے طور پر اس کا شریک بنا رکھا ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :67 یعنی کیا ہمارا لکھا ہوا کوئی پروانہ ان کے پاس ایسا ہے جس میں ہم نے یہ تحریر کیا ہو کہ فلاں فلاں اشخاص کو ہم نے بیماروں کو تندرست کرنے ، یا بے روزگاروں کو روزگار دلوانے ، یا حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے کے اختیارات دیے ہیں ، یا فلاں فلاں ہستیوں کو ہم نے اپنی زمین کے فلاں حصوں کا مختار کار بنا دیا ہے اور ان علاقوں کے لوگوں کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا اب ان کے ہاتھ میں ہے ، لہٰذا ہمارے بندوں کو اب انہی سے دعائیں مانگنی چاہییں اور انہی کے حضور نذریں اور نیازیں چڑھانی چاہییں اور جو نعمتیں بھی ملیں ان پر انہی چھوٹے خداؤں کا شکر بجا لانا چاہیے ۔ ایسی کوئی سند اگر تمہارے پاس ہے تو لاؤ اسے پیش کرو ۔ اور اگر نہیں ہے تو خود ہی سوچو کہ یہ مشرکانہ عقائد اور اعمال آخر تم نے کس بنیاد پر ایجاد کر لیے ہیں ۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ زمین اور آسمان میں کہیں تمہارے ان بناوٹی معبودوں کے شریک خدا ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہے؟ تم اس کے جواب میں کسی علامت کی نشان دہی نہیں کر سکتے ۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ خدا نے اپنی کسی کتاب میں یہ فرمایا ہے ، یا تمہارے پاس یا ان بناوٹی معبودوں کے پاس خدا کا دیا ہوا کوئی پروانہ ایسا موجود ہے جو اس امر کی شہادت دیتا ہو کہ خدا نے خود انہیں وہ اختیارات عطا فرمائے ہیں جو تم ان کی طرف منسوب کر رہے ہو؟ تم وہ بھی پیش نہیں کر سکتی ۔ اب آخر وہ چیز کیا ہے جس کی بنا پر تم اپنے یہ عقیدے بنائے بیٹھے ہو؟ کیا تم خدائی کے مالک ہو کہ خدا کے اختیارات جس جس کو چاہو بانٹ دو؟ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :68 یعنی یہ پیشوا اور پیر ، یہ پنڈت اور پروہت ، یہ کاہن اور واعظ ، یہ مجاور اور ان کے ایجنٹ محض اپنی دوکان چمکانے کے لیے عوام کو اُلّو بنا رہے ہیں اور طرح طرح کے قصے گھڑ گھڑ کر لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلا رہے ہیں کہ خدا کو چھوڑ کر فلاں فلاں ہستیوں کے دامن تھام لو گے تو دنیا میں تمہارے سارے کام بن جائیں گے اور آخرت میں تم چاہے کتنے ہی گناہ سمیٹ کر لے جاؤ ، وہ اللہ سے تمہیں بخشوا لیں گے ۔
مدلل پیغام ۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ آپ مشرکوں سے فرمایئے کہ اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارا کرتے ہو تم مجھے بھی تو ذرا دکھاؤ کہ انہوں نے کس چیز کو پیدا کیا ہے؟ یا یہی ثابت کر دو کہ آسمانوں میں ان کا کونسا حصہ ہے؟ جب کہ نہ وہ خالق نہ ساجھی پھر تم مجھے چھوڑ کر انہیں کیوں پکارو؟ وہ تو ایک ذرے کے بھی مالک نہیں ۔ اچھا یہ بھی نہیں تو کم از کم اپنے کفر و شرک کی کوئی کتابی دلیل ہی پیش کر دو ۔ لیکن تم یہ بھی نہیں کر سکتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تم صرف اپنی نفسانی خواہشوں اور اپنی رائے کے پیچھے لگ گئے ہو دلیل کچھ بھی نہیں ۔ باطل جھوٹ اور دھوکے بازی میں مبتلا ہو ۔ ایک دوسرے کو فریب دے رہے ہو ، اپنے ان جھوٹے معبودوں کی کمزوری اپنے سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ کی جو سچا معبود ہے قدرت و طاقت دیکھو کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں ۔ ہر ایک اپنی جگہ رکا ہوا اور تھما ہوا ہے ۔ ادھر ادھر جنبش بھی تو نہیں کر سکتا ۔ آسمان کو زمین پر گر پڑنے سے اللہ تعالیٰ رکے ہوئے ہے ۔ یہ دونوں اس کے فرمان سے ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ اس کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھام سکے ، روک سکے ، نظام پر قائم رکھ سکے ۔ اس حلیم و غفور اللہ کو دیکھو کہ مخلوق و مملوک ، نافرمانی و سرکشی ، کفر و شرک دیکھتے ہوئے بھی بربادی اور بخشش سے کام لے رہا ہے ، ڈھیل اور مہلت دیئے ہوئے ہے ۔ گناہوں کو معاف فرماتا جاتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں اس آیت کی تفسیر میں ایک غریب بلکہ منکر حدیث ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ منبر پر بیان فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خیال گذرا کہ اللہ تعالیٰ کبھی سوتا بھی ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ ان کے پاس بھیج دیا جس نے انہیں تین دن تک سونے نہ دیا ۔ پھر ان کے ایک ایک ہاتھ میں ایک ایک بوتل دے دی اور حکم دیا کہ ان کی حفاظت کرو یہ گریں نہیں ٹوٹیں نہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں ہاتھوں میں لے کر حفاظت کرنے لگے لیکن نیند کا غلبہ ہونے لگا اونگھ آنے گی ۔ کچھ جھکولے تو ایسے آئے کہ آپ ہوشیار ہوگئے اور بوتل گرنے نہ دی لیکن آخر نیند غالب آ گئی اور بوتلیں ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئیں اور چورا چور ہو گئیں ۔ مقصد یہ تھا کہ سونے والا دو بوتلیں بھی تھام نہیں سکتا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں فرما چکا ہے کہ اسے نہ تو اونگھ آئے نہ نیند ۔ زمین و آسمان کی کل چیزوں کا مالک صرف وہی ہے ۔ بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تو سوتا ہے نہ سونا اس کی شایان شان ہے ۔ وہ ترازو کو اونچا نیچا کرتا رہتا ہے ۔ دن کے عمل رات سے پہلے اور رات کے اعمال دن سے پہلے اس کی طرف چڑھ جاتے ہیں ۔ اس کا حجاب نور ہے ۔ یا آگ ہے ۔ اگر اسے کھول دے تو اس کے چہرے کی تجلیاں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے سب مخلوق کو جلا دیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کہاں سے آ رہے ہو؟ اس نے کہا شام سے ۔ پوچھا وہاں کس سے ملے؟ کہا کعب سے ۔ پوچھا کعب نے کیا بات بیان کی؟ کہا یہ کہ آسمان ایک فرشتے کے کندھے تک گھوم رہے ہیں ۔ پوچھا تم نے اسے سچ جانا یا جھٹلا دیا ؟ جواب دیا کچھ بھی نہیں ۔ فرمایا پھر تو تم نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ سنو حضرت کعب نے غلط کہا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اس کی اسناد صحیح ہے ۔ دوسری سند میں آنے والے کا نام ہے کہ وہ حضرت جندب بجلی تھے ۔ حضرت امام مالک بھی اس کی تردید کرتے تھے کہ آسمان گردش میں ہیں اور اسی آیت سے دلیل لیتے تھے اور اس حدیث سے بھی جس میں ہے مغرب میں ایک دروازہ ہے جو توبہ کا دروازہ ہے وہ بند نہ ہو گا جب تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہو ۔ حدیث بالکل صحیح ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔