Surah

Information

Surah # 35 | Verses: 45 | Ruku: 5 | Sajdah: 6 | Chronological # 43 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَاَ قۡسَمُوۡا بِاللّٰهِ جَهۡدَ اَيۡمَانِهِمۡ لَٮِٕنۡ جَآءَهُمۡ نَذِيۡرٌ لَّيَكُوۡنُنَّ اَهۡدٰى مِنۡ اِحۡدَى الۡاُمَمِۚ فَلَمَّا جَآءَهُمۡ نَذِيۡرٌ مَّا زَادَهُمۡ اِلَّا نُفُوۡرًا ۙ‏ ﴿42﴾
اور ان کفار نے بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آئے تو وہ ہر ایک امت سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہوں ۔ پھر جب ان کے پاس ایک پیغمبر آپہنچے تو بس ان کی نفرت ہی میں اضافہ ہوا ۔
و اقسموا بالله جهد ايمانهم لىن جاءهم نذير ليكونن اهدى من احدى الامم فلما جاءهم نذير ما زادهم الا نفورا
And they swore by Allah their strongest oaths that if a warner came to them, they would be more guided than [any] one of the [previous] nations. But when a warner came to them, it did not increase them except in aversion.
Aur inn kufaar ney bari zor daar qasam khaee thi kay inn kay pass agar koi daraney wala aaye to woh her aik ummat say ziyada hidayat qabool kerney walay hon. Phir jab inn kay pass aik payghumbar aa phonchay to bus inn ki nafrat hi mein izafa hua.
اور انہوں نے پہلے اللہ کی بڑے زوروں میں قسمیں کھائی تھیں کہ اگر ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والا ( پیغمبر ) آیا تو وہ ہر دوسری امت سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہوں گے ۔ ( ١٢ ) مگر جب ان کے پاس ایک خبردار کرنے والا آگیا تو اس کے آنے سے ان کی حالت میں اور کوئی ترقی نہیں ہوئی ، سوائے اس کے کہ یہ ( حق کے راستے سے ) اور زیادہ بھاگنے لگے ۔
اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنی قسموں میں حد کی کوشش سے کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈر سنانے والا آیا تو وہ ضرور کسی نہ کسی گروہ سے زیادہ راہ پر ہوں گے ( ف۱۰۳ ) پھر جب ان کے پاس ڈر سنانے والا تشریف لایا ( ف۱۰٤ ) تو اس نے انہیں نہ بڑھا مگر نفرت کرنا ( ف۱۰۵ )
یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آگیا ہوتا تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رو 71 ہوتے ۔ مگر جب خبردار کرنے والا ان کے پاس آگیا تو اس کی آمد نے ان کے اندر حق سے فرار کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا ۔
اور یہ لوگ اﷲ کے ساتھ بڑی پختہ قَسمیں کھایا کرتے تھے کہ اگر اُن کے پاس کوئی ڈر سنانے والا آجائے تو یہ ضرور ہر ایک امّت سے بڑھ کر راہِ راست پر ہوں گے ، پھر جب اُن کے پاس ڈر سنانے والے ( نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لے آئے تو اس سے اُن کی حق سے بیزاری میں اضافہ ہی ہوا
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :71 یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کے لوگ عموماً اور قریش کے لوگ خصوصاً یہود و نصاریٰ کی بگڑی ہوئی اخلاقی حالت کو دیکھ کر کہا کرتے تھے ۔ ان کے اس قول کا ذکر اس سے پہلے سورہ انعام ( آیت 156 ۔ 157 ) میں بھی گزر چکا ہے اور آگے سورہ صافّات ( 167 تا 169 ) میں بھی آ رہا ہے ۔
قسمیں کھا کر مکرنے والے ظالم ۔ قریش نے اور عرب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بڑی سخت قسمیں کھا رکھی تھیں کہ اگر اللہ کا کوئی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں آئے تو ہم تمام دنیا سے زیادہ اس کی تابعداری کریں گے ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے ( اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا ۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِيْنَ ١٥٦؀ۙ ) 6- الانعام:156 ) ، یعنی اس لئے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم سے پہلے کی جماعتوں پر تو البتہ کتابیں اتریں ۔ لیکن ہم تو ان سے بےخبر ہی رہے ۔ اگر ہم پر کتاب اترتی تو ہم ان سے بہت زیادہ راہ یافتہ ہو جاتے ۔ تو لو اب تو خود تمہارے پاس تمہارے رب کی بھیجی ہوئی دلیل آ پہنچی ہدایت و رحمت خود تمہارے ہاتھوں میں دی جا چکی اب بتاؤ کہ رب کی آیتوں کی تکذیب کرنے والوں اور ان سے منہ موڑنے والوں سے زیادہ ظالم کون ہے ؟ اور آیتوں میں ہے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے اپنے پاس اگلے لوگوں کے عبرتناک واقعات ہوتے تو ہم تو اللہ کے مخلص بندے بن جاتے ۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اس کے ان کے پاس آچکنے کے بعد کفر کیا اب انہیں عنقریب اس کا انجام معلوم ہو جائے گا ۔ ان کے پاس اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور رب کی آخری اور افضل تر کتاب آ چکی لیکن یہ کفر میں اور بڑھ گئے ، انہوں نے اللہ کی باتیں ماننے سے تکبر کیا خود نہ مان کر پھر اپنی مکاریوں سے اللہ کے دوسرے بندوں کو بھی اللہ کی راہ سے روکا ۔ لیکن انہیں باور کر لینا چاہئے کہ اس کا وبال خود ان پر پڑے گا ۔ یہ اللہ کا نہیں البتہ اپنا بگاڑ رہے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مکاریوں سے پرہیز کرو مکر کا بوجھ مکار پر ہی پڑتا ہے اور اس کی جواب دہی اللہ کے ہاں ہو گی ۔ حضرت محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ تین کاموں کا کرنے والا نجات نہیں پا سکتا ، ان کاموں کا وبال ان پر یقینا آئے گا ، مکر ، بغاوت اور وعدوں کو توڑ دینا پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ، انہیں صرف اسی کا انتظار ہے جو ان جیسے ان پہلے گزرنے والوں کا حال ہوا کہ اللہ کے رسولوں کی تکذیب اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے اللہ کے دائمی عذب ان پر آ گئے ۔ پس یہ تو اللہ تعالیٰ کی عادت ہی ہے اور تو غور کر ۔ رب کی عادت بدلتی نہیں نہ پلٹتی ہے ۔ جس قوم پر عذاب کا ارادہ ہو چکا پھر اس ارادے کے بدلنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتا کہ ان پر سے عذاب ہٹیں نہ وہ ان سے بچیں ۔ نہ کوئی انہیں گھما سکے ۔ واللہ اعلم ۔