Surah

Information

Surah # 36 | Verses: 83 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 41 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 45, from Madina
لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُهُمۡ فَهُمۡ غٰفِلُوۡنَ‏ ﴿6﴾
تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادےنہیں ڈرائے گئے تھے سو ( اسی وجہ سے ) یہ غافل ہیں ۔
لتنذر قوما ما انذر اباؤهم فهم غفلون
That you may warn a people whose forefathers were not warned, so they are unaware.
Takay aap aisay logon ko darayen jin kay baap daday nahi daraye gaye thay so ( issi waja say ) yeh ghafil hain.
تاکہ تم ان لوگوں کو خبردار کرو جن کے باپ دادوں کو پہلے خبردار نہیں کیا گیا تھا ، ( ١ ) اس لیے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔
تاکہ تم اس قوم کو ڈر سناؤ جس کے باپ دادا نہ ڈرائے گئے ( ف٤ ) تو وہ بےخبر ہیں ،
تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گیے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے 4 ہیں ۔
تاکہ آپ اس قوم کو ڈر سنائیں جن کے باپ دادا کو ( بھی ) نہیں ڈرایا گیا سو وہ غافل ہیں
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :4 اس آیت کے دو ترجمے ممکن ہیں ۔ ایک وہ جو اوپر متن میں کیا گیا ہے ۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم ڈراؤ ایک قوم کے لوگوں کو اسی بات سے جس سے ان کے باپ دادا ڈرائے گئے تھے ، کیونکہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ پہلا مطلب اگر لیا جائے تو باپ دادا سے مراد زمانۂ قریب کے باپ دادا ہوں گے ، کیونکہ زمانۂ بعید میں تو عرب کی سر زمین میں متعدد انبیاء آچکے تھے اور دوسرا مطلب اختیار کرنے کی صورت میں مراد یہ ہو گی کہ قدیم زمانے میں جو پیغام انبیاء کے ذریعہ سے اس قوم کے آباؤ اجداد کے پاس آیا تھا اس کی اب پھر تجدید کرو ، کیونکہ یہ لوگ اسے فراموش کر گئے ہیں ۔ اس لحاظ سے دونوں ترجموں میں درحقیقت کوئی تضاد نہیں ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں ۔ اس مقام پر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کے اسلاف پر جو زمانہ ایسا گزرا تھا جس میں کوئی خبردار کرنے والا ان کے پاس نہیں آیا ، اس زمانے میں اپنی گمراہی کے وہ کس طرح ذمہ دار ہو سکتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کوئی نبی دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کی تعلیم و ہدایت کے اثرات دور دور تک پھیلتے ہیں اور نسلاً بعد نسلٍ چلتے رہتے ہیں ۔ یہ آثار جب تک باقی رہیں اور نبی کے پیروؤں میں جب تک ایسے لوگ اٹھتے رہیں جو ہدایت کی شمع روشن کرنے والے ہوں ، اس وقت تک زمانے کو ہدایت سے خالی نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ اور جب اس نبی کی تعلیم کے اثرات بالکل مٹ جائیں یا ان میں مکمل تحریف ہو جائے تو دوسرے نبی کی بعثت ناگزیر ہو جاتی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب میں حضرت ابراہیم و اسماعیل اور حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کی تعلیم کے اثرات ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور وقتاً فوقتاً ایسے لوگ اس قوم میں اٹھتے رہے تھے ، یا باہر سے آتے رہے تھے جو ان اثرات کو تازہ کرتے رہتے تھے ۔ جب یہ اثرات مٹنے کے قریب ہو گئے اور اصل تعلیم میں بھی تحریف ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ایسا انتظام فرمایا کہ آپ کی ہدایت کے آثار نہ مٹ سکتے ہیں اور نہ محرف ہو سکتے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، سورۃ سبا ، حاشیہ نمبر 5 )