Surah

Information

Surah # 36 | Verses: 83 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 41 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 45, from Madina
وَاضۡرِبۡ لَهُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡيَةِ ‌ۘ اِذۡ جَآءَهَا الۡمُرۡسَلُوۡنَۚ‏ ﴿13﴾
اور آپ ان کے سامنے ایک مثال ( یعنی ایک ) بستی والوں کی مثال ( اس وقت کا ) بیان کیجئے جبکہ اس بستی میں ( کئی ) رسول آئے ۔
و اضرب لهم مثلا اصحب القرية اذ جاءها المرسلون
And present to them an example: the people of the city, when the messengers came to it -
Aur aap inn kay samney aik misal ( yani aik ) basti walon ki misal ( uss waqt ka ) biyan kijiyey jabkay uss basti mein ( kaee ) rasool aaye.
اور ( اے پیغمبر ) تم ان کے سامنے ایک بستی والوں کی مثال پیش کرو ، جب ان کے پاس رسول آئے تھے ( ٥ )
اور ان سے نشانیاں بیان کرو اس شہر والوں کی ( ف۱٤ ) جب ان کے پاس فرستادے ( رسول ) آئے ، ( ف۱۵ )
انہیں مثال کے طور پر اس بستی والوں کا قصہ سناؤ جبکہ اس میں رسول آئے 10 تھے ۔
اور آپ اُن کے لئے ایک بستی ( انطاکیہ ) کے باشندوں کی مثال ( حکایۃً ) بیان کریں ، جب اُن کے پاس کچھ پیغمبر آئے
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :10 قدیم مفسرین بالعموم اس طرف گئے ہیں کہ اس بستی سے مراد شام کا شہر انطاکیہ ہے اور جن رسولوں کا ذکر یہاں کیا گیا ہے انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تبلیغ کے لیے بھیجا تھا ۔ اس سلسلے میں قصے کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اس زمانہ میں انطیخش اس علاقے کا بادشاہ تھا لیکن یہ سارا قصہ ابن عباس ، قتادہ ، عِکرِمہ ، کَعب اَحْبار اور وہب بن مُنَبِہ وغیرہ بزرگوں نے عیسائیوں کی غیر مستند روایات سے اخذ کیا ہے اور تاریخی حیثیت سے بالکل بے بنیاد ہے ۔ انطاکیہ میں سلوتی خاندان ( Saleucid dynasty ) کے 13 بادشاہ انتیوکس ( Antiochus ) کے نام سے گزرے ہیں اور اس نام کے آخری فرمانروا کی حکومت ، بلکہ خود اس خاندان کی حکومت بھی 65 قبل مسیح میں ختم ہو گئی تھی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں انطاکیہ سمیت شام فلسطین کا پورا علاقہ رومیوں کے زیر نگیں تھا ۔ پھر عیسائیوں کی کسی مستند روایت سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں میں سے کسی کو تبلیغ کے لیے انطاکیہ بھیجا ہو ۔ اس کے برعکس بائیبل کی کتاب اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ صلیب کے چند سال بعد عیسائی مبلغین پہلی مرتبہ وہاں پہنچے تھے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو نہ اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہو ، نہ اللہ کے رسول نے معمور کیا ہو ، وہ اگر بطور خود تبلیغ کے لیے نکلے ہوں تو کسی تاویل کی رو سے بھی وہ اللہ کے رسول قرار نہیں پا سکتے ۔ علاوہ بریں بائیبل کے بیان کی رو سے انطاکیہ پہلا شہر ہے جہاں کثرت سے غیر اسرائیلیوں نے دین مسیح کو قبول کیا اور مسیحی کلیسا کو غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی ۔ حالانکہ قرآن جس بستی کا ذکر یہاں کر رہا ہے وہ کوئی ایسی بستی تھی جس نے رسولوں کی دعوت کو رد کر دیا اور بالآخر عذاب الہٰی کی شکار ہوئی ۔ تاریخ میں اس امر کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انطاکیہ پر ایسی کوئی تباہی نازل ہوئی جسے انکار رسالت کی بنا پر عذاب قرار دیا جا سکتا ہو ۔ ان وجوہ سے یہ بات ناقابل قبول ہے کہ اس بستی سے مراد انطاکیہ ہے ۔ بستی کا تعین نہ قرآن میں کیا گیا ہے ، نہ کسی صحیح حدیث میں ، بلکہ یہ بات بھی کسی مستند ذریعہ سے معلوم نہیں ہوتی کہ یہ رسول کون تھے اور کس زمانے میں بھیجے گئے تھے ۔ قرآن مجید جس غرض کے لیے یہ قصہ یہاں بیان کر رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے بستی کا نام اور رسولوں کے نام معلوم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ قصے کے بیان کرنے کی غرض قریش کے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ تم ہٹ دھرمی ، تعصُّب اور انکار حق کی اسی روش پر چل رہے ہو جس پر اس بستی کے لوگ چلے تھے ، اور اسی انجام سے دوچار ہونے کی تیاری کر رہے ہو جس سے وہ دوچار ہوئے ۔
ایک قصہ پارینہ ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرما رہا ہے کہ آپ اپنی قوم کے ساتھ ان سابقہ لوگوں کا قصہ بیان فرمایئے جنہوں نے ان سے پہلے اپنے رسولوں کو ان کی طرح جھٹلایا تھا ۔ یہ واقعہ شہر انطاکیہ کا ہے ۔ وہاں کے بادشاہ کا نام انطیخش تھا اس کے باپ اور دادا کا نام بھی یہی تھا یہ سب راجہ پرجابت پرست تھے ۔ ان کے پاس اللہ کے تین رسول آئے ۔ صادق ، صدوق اور شلوم ۔ اللہ کے درود و سلام ان پر نازل ہوں ۔ لیکن ان بدنصیبوں نے سب کو جھٹلایا ۔ عنقریب یہ بیان بھی آ رہا ہے کہ بعض بزرگوں نے اسے نہیں مانا کہ یہ واقعہ انطاکیہ کا ہو ، پہلے تو اس کے پاس دو رسول آئے انہوں نے انہیں نہیں مانا ان دو کی تائید میں پھر تیسرے نبی آئے ، پہلے دو رسولوں کا نام شمعون اور یوحنا تھا اور تیسرے رسول کا نام بولص تھا ۔ ان سب نے کہا کہ ہم اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں ۔ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اس نے ہماری معرفت تمہیں حکم بھیجا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ۔ حضرت قتادہ بن و عامہ کا خیال ہے کہ یہ تینوں بزرگ جناب مسیح علیہ السلام کے بھیجے ہوئے تھے ، بستی کے ان لوگوں نے جواب دیا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو پھر کیا وجہ؟ کہ تمہاری طرف اللہ کی وحی آئے اور ہماری طرف نہ آئے؟ ہاں اگر تم رسول ہوتے تو چاہئے تھا کہ تم فرشتے ہوتے ۔ اکثر کفار نے یہی شبہ اپنے اپنے زمانے کے پیغمبروں کے سامنے پیش کیا تھا ۔ جیسے اللہ عزوجل کا ارشاد ہے ( ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِيْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ يَّهْدُوْنَنَا ۡ فَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَى اللّٰهُ ۭ وَاللّٰهُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ Č۝ ) 64- التغابن:6 ) یعنی لوگوں کے پاس رسول آئے اور انہوں نے جواب دیا کہ کیا انسان ہمارے ہادی بن کر آ گئے؟ اور آیت میں ہے الخ ، یعنی تم تو ہم جیسے انسان ہی ہو تم صرف یہ چاہتے ہو کہ ہمیں اپنے باپ دادوں کے معبودوں سے روک دو ۔ جاؤ کوئی کھلا غلبہ لے کر آؤ ۔ اور جگہ قرآن پاک میں ہے یعنی کافروں نے کہا کہ اگر تم نے اپنے جیسے انسانوں کی تابعداری کی تو یقیناً تم بڑے ہی گھاٹے میں پڑ گئے ۔ اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ آیت ( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا 94؀ ) 17- الإسراء:94 ) میں اس کا بیان ہے ۔ یہی ان لوگوں نے بھی ان تینوں نبیوں سے کہا کہ تم تو ہم جیسے انسان ہی ہو اور حقیقت میں اللہ نے تو کچھ بھی نازل نہیں فرمایا تم یونہی غلط ملط کہہ رہے ہو ، پیغمبروں نے جواب دیا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ ہم اس کے سچے رسول ہیں ۔ اگر ہم جھوٹے ہوتے تو اللہ پر جھوٹ باندھنے کی سزا ہمیں اللہ تعالیٰ دے دیتا لیکن تم دیکھو گے کہ وہ ہماری مدد کرے گا اور ہمیں عزت عطا فرمائے گا ۔ اس وقت تمہیں خود روشن ہو جائے گا کہ کون شخص بہ اعتبار انجام کے اچھا رہا ؟ جیسے اور جگہ ارشاد ہے ( قُلْ كَفٰي بِاللّٰهِ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ شَهِيْدًا ۚ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوْا بِاللّٰهِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ 52؀ ) 29- العنكبوت:52 ) ، میرے تمہارے درمیان اللہ کی شہادت کافی ہے ۔ وہ تو آسمان و زمین کے غیب جانتا ہے ۔ باطل پر ایمان رکھنے والے اور اللہ سے کفر کرنے والے ہی نقصان یافتہ ہیں ، سنو ہمارے ذمے تو صرف تبلیغ ہے مانو گے تمہارا بھلا ہے نہ مانو گے تو پچھتاؤ گے ہمارا کچھ نہیں بگاڑو گے کل اپنے کئے کا خمیازہ بھگتو گے ۔