Surah

Information

Surah # 36 | Verses: 83 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 41 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 45, from Madina
قَالُوۡا مَاۤ اَنۡـتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُـنَا ۙ وَمَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَىۡءٍۙ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا تَكۡذِبُوۡنَ‏ ﴿15﴾
ان لوگوں نے کہا کہ تم تو ہماری طرح معمولی آدمی ہو اور رحمٰن نے کوئی چیز نازل نہیں کی ۔ تم نرا جھوٹ بولتے ہو ۔
قالوا ما انتم الا بشر مثلنا و ما انزل الرحمن من شيء ان انتم الا تكذبون
They said, "You are not but human beings like us, and the Most Merciful has not revealed a thing. You are only telling lies."
Unn logon ney kaha kay tum to humari tarah mamooli aadmi ho aur rehman ney koi cheez nazil nahi ki. Tum nira jhoot boltay ho.
انہوں نے کہا : تمہاری حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ تم ہم جیسے ہی آدمی ہو ۔ اور خدائے رحمن نے کوئی چیز نازل نہیں کی ہے ، اور تم سراسر جھوٹ بول رہے ہو ۔
بولے تم تو نہیں مگر ہم جیسے آدمی اور رحمن نے کچھ نہیں اتارا تم نرے جھوٹے ہو ،
بستی والوں نے کہا تم کچھ نہیں ہو مگر ہم جیسے چند 11 انسان ، اور خدائے رحمان نے ہرگز کوئی چیز نازل نہیں کی12 ہے ، تم محض جھوٹ بولتے ہو ۔
۔ ( بستی والوں نے ) کہا: تم تو محض ہماری طرح بشر ہو اور خدائے رحمان نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ، تم فقط جھوٹ بول رہے ہو
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :11 دوسرے الفاظ میں ان کا کہنا یہ تھا کہ تم چونکہ انسان ہو اس لیے خدا کے بھیجے ہوئے رسول نہیں ہو سکتے ۔ یہی خیال کفار مکہ کا بھی تھا ۔ وہ یہ کہتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) رسول نہیں ہیں کیونکہ وہ انسان ہیں : وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ۔ ( الفرقان:7 ) وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ وَاَسَرُّوا النَّجْوَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ھَلْ ھٰذَٓا اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ( الانبیاء ۔ 3 ) اور یہ ظالم لوگ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تم جیسے ایک بشر کے سوا آخر اور کیا ہے ، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے اس جادو کے شکار ہو جاؤ گے ؟ قرآن مجید کفار مکہ کے اس جاہلانہ خیال کی تردید کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ یہ کوئی نئی جہالت نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ ان لوگوں سے ظاہر ہو رہی ہو ، بلکہ قدیم ترین زمانے سے تمام جہلاء اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ جو بشر ہے وہ رسول نہیں ہو سکتا اور جو رسول ہے وہ بشر نہیں ہو سکتا ۔ قوم نوح کے سرداروں نے جب حضرت نوح کی رسالت کا انکار کیا تھا تو یہی کہا تھا: مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ وَلَوْ شَآءَ اللہُ لَاَنْزَلَ مَلٰئِکَۃً مَا سَمِعْنَا بھِٰذَا فِیْ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ ۔ ( المومنون : 24 ) ۔ یہ شخص اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایک بشر ہے تم ہی جیسا ، اور چاہتا ہے کہ تم پر اپنی فضیلت جمائے ۔ حالانکہ اگر اللہ چاہتا تو فرشتے نازل کرتا ۔ ہم نے تو یہ بات کبھی اپنے باپ دادا سے نہیں سنی ( کہ انسان رسول بن کر آئے ) ۔ قوم عاد نے یہی بات حضرت ہود علیہ السلام کے متعلق کہی تھی: مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یَاْکُلُ مِمَّا تَاْکُلُوْنَ مِنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ وَلَئِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَکُمْ اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ۔ ( المومنون :33 ۔ 34 ) ۔ یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر ہی جیسا ۔ کھاتا ہے وہی کچھ جو تم کھاتے ہو اور پیتا ہے وہی کچھ جو تم پیتے ہو ۔ اب اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت کر لی تو تم بڑے گھاٹے میں رہے ۔ قوم ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کے متعلق بھی یہی کہا تھا کہ: اَبَشَراً مِّنَّا وَاحِداً نَّتَّبِعُہ o ( القمر:24 ) کیا ہم اپنے میں سے ایک بشر کی پیروی اختیار کرلیں ۔ اور یہی معاملہ قریب قریب تمام انبیاء کے ساتھ پیش آیا کہ کفار نے کہا ، اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا ، تم کچھ نہیں ہو مگر ہم جیسے بشر ۔ ’‘ اور انبیاء نے ان کو جواب دیا کہ ، اِنْ نَحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَ لٰکِنَّ اللہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ۔ واقعی ہم تمہاری طرح بشر کے سوا کچھ نہیں ہیں ، مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے ( ابراہیم:10 ۔ 11 ) اس کے بعد قرآن مجید کہتا ہے کہ یہی جاہلانہ خیال ہر زمانے میں لوگوں کو ہدایت قبول کرنے سے باز رکھتا رہا ہے اور اسی بنا پر قوموں کی شامت آئی ہے : اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ذٰلِکَ بِاَنَّہ کَانَتْ تَـاْتِیْہِمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْا اَبَشَرٌ یَّھْدُوْنَنَا فَکَفَرُا وَتَوَلَّوْا ۔ ( التغابن: 6 ) کیا انہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا تھا اور پھر اپنے کیے کا مزا چکھ لیا اور آگے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ؟ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں لے کر آتے رہے مگر انہوں نے کہا کیا اب انسان ہماری رہنمائی کریں گے ؟ اسی بنا پر انہوں نے کفر کیا اور منہ پھیر گئے ۔ وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا اِذْ جَآءَھُمُ الْھُدیٰ اِلَّٓا اَنْ قَالُوْا اَبَعَثَ اللہُ بَشَراً رَّسُوْلاً ۔ ( بنی اسرائیل : 94 ) ۔ لوگوں کے پاس جب ہدایت آئی تو کوئی چیز انہیں ایمان لانے سے روکنے والی اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ؟ پھر قرآن مجید پوری صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ اللہ نے ہمیشہ انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور انسان کی ہدایت کے لیے انسان ہی رسول ہو سکتا ہے نہ کوئی فرشتہ ، یا بشریت سے بالا تر کوئی ہستی : وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رِجَالاً نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْآ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ه وَمَا جَعَلْنٰھُمْ جَسَداً لاَّ یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوْا خٰلِدِیْنَ o ( الانبیاء : 7 ۔ 8 ) ہم نے تم سے پہلے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے جن پر ہم وحی کرتے تھے ۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو ۔ اور ہم نے ان کو ایسے جسم نہیں بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ جینے والے تھے ۔ وَمَٓا اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّٓا اَنَّھُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَقِ ( الفرقان:20 ) ۔ ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجے تھے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ۔ قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوْلًا o ( بنی اسرائیل:95 ) اے نبی ، ان سے کہو کہ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان پر فرشتے ہی کو رسول بنا کر نازل کرتے ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :12 یہ ایک اور جہالت ہے جس میں کفار مکہ بھی مبتلا تھے ، آج کے نام نہاد عقلیت پسند لوگ بھی مبتلا ہیں ، اور قدیم ترین زمانے سے ہر زمانے کے منکرین وحی و رسالت اس میں مبتلا رہے ہیں ۔ ان سب لوگوں کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سرے سے انسانی ہدایت کے لیے کوئی وحی نازل نہیں کرتا ۔ اس کو صرف عالم بالا کے معاملات سے دلچسپی ہے ۔ انسانوں کا معاملہ اس نے خود انسانوں ہی پر چھوڑ رکھا ہے ۔