Surah

Information

Surah # 36 | Verses: 83 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 41 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 45, from Madina
يٰحَسۡرَةً عَلَى الۡعِبَادِ ؔ‌ۚ مَا يَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿30﴾
۔ ( ایسے ) بندوں پر افسوس! کبھی بھی کوئی رسول ان کے پاس نہیں آیا جس کی ہنسی انہوں نے نہ اڑائی ہو ۔
يحسرة على العباد ما ياتيهم من رسول الا كانوا به يستهزءون
How regretful for the servants. There did not come to them any messenger except that they used to ridicule him.
( aisay ) bando per afsos! Kabhi bhi koi rasool unn kay pass nahi aaya jiss ki hansi unhon ney na uraee ho.
افسوس ہے ایسے بندوں کے حال پر ۔ ان کے پاس کوئی رسول ایسا نہیں آیا جس کا وہ مذاق نہ اڑاتے رہے ہوں ۔
اور کہا گیا کہ ہائے افسوس ان بندوں پر ( ف۳۵ ) جب ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے تو اس سے ٹھٹھا ہی کرتے ہیں ،
افسوس بندوں کے حال پر ، جو رسول بھی ان کے پاس آیا اس کا وہ مذاق ہی اڑاتے رہے ۔
ہائے ( اُن ) بندوں پر افسوس! اُن کے پاس کوئی رسول نہ آتا تھا مگر یہ کہ وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے
منکرین کی ندامت ۔ بندوں پر حسرت و افسوس ہے ۔ بندے کل اپنے اوپر کیسے نادم ہوں گے ۔ بار بار کہیں گے کہ ہائے افسوس ہم نے تو خود اپنا برا کیا ۔ بعض قرأتوں میں یا حسرۃ العباد علی انفسھا بھی ہے مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن عذابوں کو دیکھ کر ہاتھ ملیں گے کہ انہوں نے کیوں رسولوں کو جھٹلایا ؟ اور کیوں اللہ کے فرمان کے خلاف کیا ؟ دنیا میں تو ان کا یہ حال تھا کہ جب کبھی جو رسول آیا انہوں نے بلا تامل جھٹلایا اور دل کھول کر ان کی بے ادبی اور توہین کی ۔ وہ اگر یہاں تامل کرتے تو سمجھ لیتے کہ ان سے پہلے جن لوگوں نے پیغمبروں کی نہ مانی تھی وہ غارت و برباد کر دیئے گئے ان کی دھجیاں اڑا دی گئیں ۔ ایک بھی تو ان میں سے نہ بچ سکا نہ اس دار آخرت سے کوئی واپس پلٹا ۔ اس میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو دہریہ تھے جن کا خیال تھا کہ یونہی دنیا میں مرتے جیتے چلے جائیں گے ، لوٹ لوٹ کر اس دنیا میں آئیں گے ۔ تمام گذرے ہوئے موجود اور آنے والے لوگ قیامت کے دن اللہ کے سامنے حساب و کتاب کے لئے حاضر کئے جائیں گے اور وہاں ہر ایک بھلائی برائی کا بدلہ پائیں گے جیسے اور آیت میں فرمایا ( وَاِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ اَعْمَالَهُمْ ۭ اِنَّهٗ بِمَا يَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ ١١١؁ ) 11-ھود:111 ) یعنی ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ تیرا رب عطا فرمائے گا ، ایک قرأت میں لما ہے تو ، ان ، اثبات کے لئے ہو گا ، اور لما پڑھنے کے وقت ، ان ، نافیہ ہو گا اور لما معنی میں الا کے ہو گا تو مطلب آیت کا یہ ہو گا کہ نہیں ہیں سب مگر یہ کہ سب کے سب ہمارے سامنے حاضر شدہ ہیں دوسری قرأت کی صورت میں بھی مطلب یہی رہے گا ۔ واللہ سبحان و تعالیٰ اعلم ۔