Surah

Information

Surah # 36 | Verses: 83 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 41 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 45, from Madina
وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الۡاَرۡضُ الۡمَيۡتَةُ ۖۚ اَحۡيَيۡنٰهَا وَاَخۡرَجۡنَا مِنۡهَا حَبًّا فَمِنۡهُ يَاۡكُلُوۡنَ‏ ﴿33﴾
اور ان کے لئے ایک نشانی ( خشک ) زمین ہے جس کو ہم نے زندہ کر دیا اور اس سے غلّہ نکالا جس میں سے وہ کھاتے ہیں ۔
و اية لهم الارض الميتة احيينها و اخرجنا منها حبا فمنه ياكلون
And a sign for them is the dead earth. We have brought it to life and brought forth from it grain, and from it they eat.
Aur inn kay liye aik nishani ( khusk ) zamin hai jiss ko hum ney zindah ker diya aur iss say ghalla nikala jiss mein say woh kahatay hain.
اور ان کے لیے ایک نشانی وہ زمین ہے جو مردہ پڑی ہوئی تھی ، ہم نے اسے زندگی عطا کی ، اور اس نے غلہ نکالا ، جس کی خوراک یہ کھاتے ہیں ۔
اور ان کے لیے ایک نشانی مردہ زمین ہے ( ف۳۹ ) ہم نے اسے زندہ کیا ( ف٤۰ ) اور پھر اس سے اناج نکالا تو اس میں سے کھاتے ہیں ،
ان 26 لوگوں کے لئے بے جان زمین ایک نشانی ہے ۔ 27 ہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں ۔
اور اُن کے لئے ایک نشانی مُردہ زمین ہے ، جِسے ہم نے زندہ کیا اور ہم نے اس سے ( اناج کے ) دانے نکالے ، پھر وہ اس میں سے کھاتے ہیں
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :26 پچھلے دو رکوعوں میں کفار مکہ کو انکار و تکذیب اور مخالفت حق کے اس رویہ پر ملامت کی گئی تھی جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اختیار کر رکھا تھا ۔ اب تقریر کا رخ اس بنیادی نزاع کی طرف پھرتا ہے جو ان کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کشمکش کی اصل وجہ تھی ، یعنی توحید و آخرت کا عقیدہ ، جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے تھے اور کفار ماننے سے انکار کر رہے تھے ۔ اس سلسلے میں پے در پے چند دلائل دے کر لوگوں کو دعوت غور و فکر دی جا رہی ہے کہ دیکھو ، کائنات کے یہ آثار جو علانیہ تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں ، کیا اس حقیقت کی صاف صاف نشان دہی نہیں کرتے جسے یہ نبی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ؟ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :27 یعنی اس امر کی نشانی کہ توحید ہی حق ہے اور شرک سراسر بے بنیاد ہے ۔
وجود باری تعالیٰ کی ایک نشانی اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میرے وجود پر ، میری زبردست قدرت پر اور مردوں کو زندگی دینے پر ایک نشانی یہ بھی ہے کہ مردہ زمین جو بنجر خشک پڑی ہوئی ہوتی ہے جس میں کوئی روئیدگی ، تازگی ، ہریالی ، گھاس وغیرہ نہیں ہوتی ۔ میں اس پر آسمان سے پانی برساتا ہوں وہ مردہ زمین جی اٹھتی ہے لہلہانے لگتی ہے ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اگ جاتا ہے اور قسم قسم کے پھل پھول وغیرہ نظر آنے لگتے ہیں ۔ تو فرماتا ہے کہ ہم اس مردہ زمین کو زندہ کر دیتے ہیں اور اس سے قسم قسم کے اناج پیدا کرتے ہیں بعض کو تم کھاتے ہو بعض تمہارے جانور کھاتے ہیں ۔ ہم اس میں کھجوروں کے انگوروں کے باغات وغیرہ تیار کر دیتے ہیں ۔ نہریں جاری کر دیتے ہیں جو باغوں اور کیھتوں کو سیراب ، سرسبز و شاداب کرتی رہتی ہیں ۔ یہ سب اس لئے کہ ان درختوں کے میوے دنیا کھائے ، کھیتیوں سے ، باغات سے نفع حاصل کرے ، حاجتیں پوری کرے ، یہ سب اللہ کی رحمت اور اس کی قدرت سے پیدا ہو رہے ہیں ، کسی کے بس اور اختیار میں نہیں ، تمہارے ہاتھوں کی پیدا کردہ یا حاصل کردہ چیزیں نہیں ۔ نہ تمہیں انہیں اگانے کی طاقت نہ تم میں انہیں بچانے کی قدرت ، نہ انہیں پکانے کا تمہیں اختیار ۔ صرف اللہ کے یہ کام ہیں اور اسی کی یہ مہربانی ہے اور اس کے احسان کے ساتھ ہی ساتھ یہ اس کی قدرت کے نمونے ہیں ۔ پھر لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو شکر گذاری نہیں کرتے؟ اور اللہ تعالیٰ کی بے انتہا ان گنت نعمتیں اپنے پاس ہوتے ہوئے اس کا احسان نہیں مانتے؟ ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ باغات کے پھل جو کھاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کا بویا ہوا یہ پاتے ہیں ، چنانچہ ابن مسعود کی قرأت میں ( وَمَا عَمِلَتْهُ اَيْدِيْهِمْ ۭ اَفَلَا يَشْكُرُوْنَ 35؀ۙ ) 36-يس:35 ) ہے ۔ پاک اور برتر اور تمام نقصانات سے بری وہ اللہ ہے جس نے زمین کی پیداوار کو اور خود تم کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے اور مختلف قسم کی مخلوق کے جوڑے بنائے ہیں جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ 49؀ ) 51- الذاريات:49 ) ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں تاکہ تم نصیحت پکڑو ۔