Surah

Information

Surah # 36 | Verses: 83 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 41 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 45, from Madina
لَا الشَّمۡسُ يَنۡۢبَغِىۡ لَهَاۤ اَنۡ تُدۡرِكَ الۡقَمَرَ وَلَا الَّيۡلُ سَابِقُ النَّهَارِ‌ؕ وَكُلٌّ فِىۡ فَلَكٍ يَّسۡبَحُوۡنَ‏ ﴿40﴾
نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے ، اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ۔
لا الشمس ينبغي لها ان تدرك القمر و لا اليل سابق النهار و كل في فلك يسبحون
It is not allowable for the sun to reach the moon, nor does the night overtake the day, but each, in an orbit, is swimming.
Na aftab ki yeh majal hai kay chand ko pakray aur na raat din per aagay barh janey wali hai aur sab kay sab aasman mein tertay phirtay hain.
نہ تو سورج کی یہ مجال ہے کہ وہ چاند کو جاپکڑے ، ( ١٦ ) اور نہ رات دن سے آگے نکل سکتی ہے ، اور یہ سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔
سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑے ( ف۵۳ ) اور نہ رات دن پر سبقت لے جائے ( ف۵٤ ) اور ہر ایک ، ایک گھیرے میں پیر رہا ہے ،
نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے 35 اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے 36 ۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں 37 ۔
نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ ( اپنا مدار چھوڑ کر ) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہے ، اور سب ( ستارے اور سیارے ) اپنے ( اپنے ) مدار میں حرکت پذیر ہیں
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :35 اس فقرے کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں اور دونوں صحیح ہیں ۔ ایک یہ کہ سورج میں یہ طاقت نہیں ہے کہ چاند کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لے ، یا خود اس کے مدار میں داخل ہو کر اس سے جا ٹکرائے ۔ دوسرا یہ کہ جو اوقات چاند کے طلوع و ظہور کے لیے مقرر کر دئیے گئے ہیں ان میں سورج کبھی نہیں آ سکتا ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ رات کو چاند چمک رہا ہو اور یکایک سورج افق پر آ جائے ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :36 یعنی ایسا بھی کبھی نہیں ہوتا کہ دن کی مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے رات آ جائے اور جو اوقات دن کی روشنی کے لیے مقرر ہیں ان میں وہ اپنی تاریکیاں لیے ہوئے یکایک آ موجود ہو ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :37 فلک کا لفظ عربی زبان میں سیاروں کے مدار ( Orbit ) کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا مفہوم سماء ( آسمان ) کے مفہوم سے مختلف ہے ۔ یہ ارشاد کہ سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں ۔ چار حقیقتوں کی نشان دہی کرتا ہے ۔ ایک یہ کہ نہ صرف سورج اور چاند ، بلکہ تمام تارے اور سیارے اور اجرام فلکی متحرک ہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر ایک کا فلک ، یعنی ہر ایک کی حرکت کا راستہ یا مدار الگ ہے ۔ تیسرے یہ کہ افلاک تاروں کو لیے ہوئے گردش نہیں کر رہے ہیں بلکہ تارے افلاک میں گردش کر رہے ہیں ۔ اور چوتھے یہ کہ افلاک میں تاروں کی حرکت اس طرح ہو رہی ہے کہ جیسے کسی سیال چیز میں کوئی شے تیر رہی ہو ۔ ان آیات کا اصل مقصد علم ہئیت کے حقائق بیان کرنا نہیں ہے بلکہ انسان کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھے اور عقل سے کام لے تو زمین سے لے کر آسمان تک جدھر بھی وہ نگاہ ڈالے گا اس کے سامنے خدا کی ہستی اور اس کی یکتائی کے بے حد و حساب دلائل آئیں گے اور کہیں کوئی ایک دلیل بھی دہریت اور شرک کے ثبوت میں نہ ملے گی ۔ ہماری یہ زمین جس نظام شمسی میں شامل ہے اس کی عظمت کا یہ حال ہے کہ اس کا مرکز ، سورج زمین سے 3 لاکھ گنا بڑا ہے ، اور اس کے بعید ترین سیارے نیپچون کا فاصلہ سورج سے کم از کم 2 ارب 79 کروڑ 30 لاکھ میل ہے ۔ بلکہ اگر پلوٹو کو بعید ترین سیارہ مانا جائے تو وہ سورج سے 4 ارب 60 کروڑ میل دور تک پہنچ جاتا ہے ۔ اس عظمت کے باوجود یہ نظام شمسی ایک بہت بڑے کہکشاں کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے ۔ جس کہکشاں ( Galaxy ) میں ہمارا یہ نظام شمسی شامل ہے اس میں تقریباً 3 ہزار ملین ( 3 ارب ) آفتاب پائے جاتے ہیں ، اور اس کا قریب ترین آفتاب ہماری زمین سے اس قدر دور ہے کہ اس کی روشنی یہاں تک پہنچنے میں 4 سال صرف ہوتے ہیں ۔ پھر یہ کہکشاں بھی پوری کائنات نہیں ہے ، بلکہ اب تک کے مشاہدات کی بنا پر اندازہ کیا گیا ہے کہ یہ تقریباً 20 لاکھ لولبی سحابیوں ( Spiral nebulae ) میں سے ایک ہے ، اور ان میں سے قریب ترین سحابیے کا فاصلہ ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی روشنی 10 لاکھ سال میں ہماری زمین تک پہنچتی ہے ۔ رہے بعید ترین اجرام فلکی جو ہمارے موجودہ آلات سے نظر آتے ہیں ، ان کی روشنی تو زمین تک پہنچنے میں 10 کروڑ سال لگ جاتے ہیں ۔ اس پر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسان نے ساری کائنات دیکھ لی ہے ۔ یہ خدا کی خدائی کا بہت تھوڑا سا حصہ ہے جو اب تک انسانی مشاہدے میں آیا ہے ۔ آگے نہیں کہا جا سکتا کہ مزید ذرائع مشاہدہ فراہم ہونے پر اور کتنی وسعتیں انسان پر منکشف ہوں گی ۔ تمام معلومات جو اس وقت تک کائنات کے متعلق بہم پہنچی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پورا عالم اسی مادے سے بنا ہوا ہے جس سے ہماری یہ چھوٹی سی ارضی دنیا بنی ہے اور اس کے اندر وہی ایک قانون کام کر رہا ہے جو ہماری زمین کی دنیا میں کار فرما ہے ، ورنہ یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ ہم اس زمین پر بیٹھے ہوئے اتنی دور دراز دنیاؤں کے مشاہدے کرتے اور ان کے فاصلے ناپتے اور ان کی حرکات کے حساب لگاتے ۔ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ ساری کائنات ایک ہی خدا کی تخلیق اور ایک ہی فرمانروا کی سلطنت ہے ؟ پھر جو نظم ، جو حکمت ، جو صناعی اور جو مناسبت ان لاکھوں کہکشانوں اور ان کے اندر گھومنے والے اربوں تاروں میں پائی جاتی ہے اس کو دیکھ کر کیا کوئی صاحب عقل انسان یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ ہو گیا ہے ؟ اس نظام کے پیچھے کوئی حکیم ، اس صنعت کے پیچھے کوئی صانع ، اور اس مناسبت کے پیچھے کوئی منصوبہ ساز نہیں ہے ؟