Surah

Information

Surah # 36 | Verses: 83 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 41 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 45, from Madina
وَيَقُوۡلُوۡنَ مَتٰى هٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿48﴾
وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہوگا ، سچے ہو تو بتلاؤ ۔
و يقولون متى هذا الوعد ان كنتم صدقين
And they say, "When is this promise, if you should be truthful?"
Woh kehtay hain kay yeh wada kab hoga sachay ho to batlao.
اور کہتے ہیں کہ : یہ ( قیامت کا ) وعدہ کب پورا ہوگا؟ ( مسلمانو ) بتاؤ ، اگر تم سچے ہو ۔
اور کہتے ہیں کب آئے گا یہ وعدہ ( ف٦۲ ) اگر تم سچے ہو ( ف٦۳ )
یہ 44 لوگ کہتے ہیں کہ یہ قیامت کی دھمکی آخر کب پوری ہوگی؟ بتاؤ اگر تم سچے 45 ہو ۔
اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدۂ ( قیامت ) کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :44 توحید کے بعد دوسرا مسئلہ جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار کے درمیان نزاع برپا تھی وہ آخرت کا مسئلہ تھا ۔ اس کے متعلق عقلی دلائل تو آگے چل کر خاتمہ کلام پر دیے گئے ہیں ۔ مگر دلائل دینے سے پہلے یہاں اس مسئلے کو لے کر عالم آخرت کا ایک عبرتناک نقشہ ان کے سامنے کھینچا گیا ہے تاکہ انہیں یہ معلوم ہو کہ جس چیز کا وہ انکار کر رہے ہیں وہ ان کے انکار سے ٹلنے والی نہیں ہے بلکہ لا محالہ ایک روز ان حالات سے انہیں دوچار ہونا ہے ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :45 اس سوال کا مطلب یہ نہ تھا کہ وہ لوگ فی الواقع قیامت کے آنے کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے ، اور اگر مثلاً ان کو یہ بتا دیا جاتا کہ وہ فلاں سنہ میں فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو پیش آئے گی تو ان کا شک رفع ہو جاتا اور وہ اسے مان لیتے ۔ دراصل اس طرح کے سوالات وہ محض کج بحثی کے لیے چیلنج کے انداز میں کرتے تھے اور ان کا مدعا یہ کہنا تھا کہ کوئی قیامت ویامت نہیں آنی ہے ، تم خواہ مخواہ ہمیں اس کے ڈراوے دیتے ہو ۔ اسی بنا پر ان کے جواب میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ قیامت فلاں روز آئے گی ، بلکہ انہیں یہ بتایا گیا کہ وہ آئے گی اور اس شان سے آئے گی ۔
قیامت کے بعد کوئی مہلت نہ ملے گی ۔ کافر چونکہ قیامت کے آنے کے قائل نہ تھے اس لئے وہ نبیوں سے اور مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ پھر قیامت کو لاتے کیوں نہیں؟ اچھا یہ تو بتاؤ کہ کب آئے گی؟ اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے ۔ کہ اس کے آنے کے لئے ہمیں کچھ سامان نہیں کرنے پڑیں گے ، صرف ایک مرتبہ صور پھونک دیا جائے گا ۔ دنیا کے لوگ روزمرہ کی طرح اپنے اپنے کام کاج میں مشغول ہوں گے جب اللہ تعالیٰ حضرت اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دے گا وہیں لوگ ادھر ادھر گرنے شروع ہو جائیں گے اس آسمانی تیز و تند آواز سے سب کے سب محشر میں اللہ کے سامنے جمع کر دیئے جائیں گے اس چیخ کے بعد کسی کو اتنی بھی مہلت نہیں ملنی کہ کسی سے کچھ کہہ سن سکے ، کوئی وصیت اور نصیحت کر سکے اور نہ ہی انہیں اپنے گھروں کو واپس جانے کی طاقت رہے گی ۔ اس آیت کے متعلق بہت سے آثار و احادیث ہیں جنہیں ہم دوسری جگہ وارد کر چکے ہیں ۔ اس پہلے نفخہ کے بعد دوسرا نفخہ ہو گا جس سے سب کے سب مر جائیں گے ، کل جہان فنا ہو جائے گا ، بجز اس ہمیشگی والے اللہ عزوجل کے جسے فنا نہیں ۔ اس کے بعد پھر جی اٹھنے کا نفخہ ہو گا ۔